عبید اللہ ناصر
کانٹوں کی زبان خشک ہے اب پیاس سے یا رب
ایک آبلہ پا وادیٔ پر خار میں آوے (غالب)
فسطایت فرقہ پرستی سماجی انتشار کارپوریٹ لوٹ اور ملک کو درپیش تمام مسائل کے خلاف ملک کی سب سے مضبوط بے خوف اور بلند آواز اٹھانے والے راہل گاندھی 35 ہزار کلو میٹر کی بھارت جوڑو یاترا شروع کرنے کا اعلان کر کے وہ آبلہ پا بن گئے ہیں جسے غالب آواز دے رہے تھے۔
گزشتہ 8برسوں میں ہندوستان کی شکل اتنی بدل گئی ہے کہ 2014یعنی مودی دور کے آغاز سے قبل کے ہندوستان کا تصور خواب سا لگتا ہے۔ یقین ہی نہیں ہوتا کہ یہ ملک تب دنیا کی پانچویں سب سے مضبوط معیشت تھا ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعمیرات سروسز سیکٹر میں زبردست اچھال کی وجہ سے روزگار کا حصول کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ 2008 سے 2012 تک کی عالمی کساد بازاری جس نے امریکی معیشت تک کی چولیں ہلا دی تھیں، وہ بھی ہندوستان آرام سے جھیل ہی نہیں گیا بلکہ عوام کے مفاد میں کئی اہم قدم بھی اٹھائے گئے۔ کسانوں کو سب سے زیادہ سرکاری خریداری قیمت (ایم ایس پی ) دی گئی۔ سرکاری ملازمین کو چھٹے تنخواہ کمیشن کے ذریعہ نا قابل یقین اضافہ دیا گیا۔ جواہر لعل نہرو شہری جدید کاری مشن، قومی دیہی صحت پروگرام حق، روزگار گارنٹی پروگرام، حق اطلاعات قانون، غذائی تحفظ قانون، حق تعلیم قانون جیسے انقلابی فیصلے نافذ کئے گئے۔ ان سب کا مجموعی اثر یہ ہوا کہ محض 10 برسوں میں قریب 25 کروڑ لوگوں کو خط افلاس سے اوپر لایا گیا مگر آج کیا حالت ہے ؟ ملک معاشی طور سے کھوکھلا ہو چکا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ریزرو بینک سے ریزرو فنڈ لے لیا گیا، کم و بیش سبھی سرکاری اداروں کو کوڑیوں کے مول بیچا جا چکا ہے۔ ملک پر 2013 تک محض 55 لاکھ کروڑ کا بیرونی قرض تھا جو8 برسوں میں بڑھ کر140 لاکھ کروڑ ہو چکاہے۔ ڈالر کے مقابلہ روپیہ کی کم قدری کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ بیروزگاری 50 برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ روزگار کے مواقع روز بروز گھٹتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ مسلح افواج میں بھرتی تک میں اگنی ویر اسکیم لاگو کر کے محض چار برسوں کے لئے بھرتی کی جا رہی ہے اس کے نتیجہ میں نیپال نے اپنی گورکھاؤں کو ہندوستانی فوج میں بھرتی ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔ اب مستقل سرکاری نوکری حاصل کر کے ایک پر سکون زندگی گزارنا خواب ہو گیا ہے کیونکہ سبھی سرکاری محکوں میں ٹھیکے پر عملہ بھرتی کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پنشن تو پہلے ہی ختم کر دی گئی تھی، سرکاری ملازمت کا سلسلہ بھی ختم کیا جا رہا ہے ۔ معیشت کی تباہی کے ساتھ ہی ساتھ مودی حکومت ملک کے لئے اس سے بھی بڑی تباہی ملک کے سماجی تانے بانے کو منتشر کر کے لائی ہے، تقسیم وطن اور اس کے بعد اڈوانی جی کی رتھ یاترا سے بھی ہندوستانی سماج اتنا منتشر نہیں ہوا تھا جتنا آج ہے۔ مسلمانوں سے نفرت ہندوستان کی سیاست کے بازار میں سکہ رائج الوقت بن گیا ہے۔ ایسا سماجی ماحول بن گیا ہے کہ بی جے پی تو بی جے پی نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کے مسائل پر لب کشائی سے گھبراتی ہیں کہ اس سے ان کا ہندو ووٹر ناراض ہو جائے گا۔ گرام سبھا سے لے کر لوک سبھا تک کے انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار انتخابی مہم میں کھلے عام کہتے ہیں کہ انھیں مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہیے بلکہ اب تو کھلے عام تشدد کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔
فرقہ پرستی اور نفرت کی یہ آگ صرف سیاست کے میدان تک ہی محدود نہیں ہے یہ اب گھروں تعلیمی اداروں تجارتی میدان تک پہنچ گئی ہے، طلبا اساتذہ سب ہندو مسلمان ہو گئے ہیں۔ کھلے عام بچوں کو ہندو مسلمان کے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ملک کی سیکورٹی کی صورتحال پر نذر ڈالئے تو ہزاروں مربع کلو میٹر پر چین نے نہ صرف قبضہ کر لیا ہے بلکہ وہاں اپنی بستیاں بھی بسا لی ہیں مگر حکومت اس سے ڈھٹائی کے ساتھ انکار کر دیتی ہے اور عوام کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ چین کی دراندازی کے دنوں میں چین کے معاشی بائیکاٹ کی بات چلی تھی مگر اب یوم آزادی کے موقع پر کروڑوں روپیہ کا ترنگا جھنڈا تک چین سے ہی منگوایا گیا۔سری لنکا میں چین نے اپنا بحری جنگی جہاز بھیج کر بحر ہند میں طاقت کا توازن ہی نہیں بگاڑا ہے بلکہ سری لنکا کو اپنی طرف کھینچنے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی صورت حال کو ٹالنے کے لئے آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی نے سری لنکا میں فوجی مداخلت کی تھی ۔ چین کی توسیع پسندانہ پالیسی ہندوستان کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے لیکن مودی حکومت کے پاس چین سے نپٹنے کا کوئی بلیو پرنٹ نہیں ہے۔گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی چین کو لال لال آنکھ دکھا کر بات کرنے کا چیلنج اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو دیتے تھے مگر وزیر اعظم نریندر مودی کی وہ لال لال آنکھیں کہاں گئیں کچھ پتہ نہیں۔سماجی معاشی اور دفاعی محاذ پر ہی نہیں ملک کی آئینی جمہوریت بھی مودی جی کے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہے ویسے بھی آر ایس ایس بنیادی طور سے آئینی جمہوریت کی مخالف رہی ہے۔ اس نے دل سے نہ ہندوستان کے آئین کو قبول کیا ہے اور نہ اس کے قومی پرچم کو۔ وہ ہندوستان کو ایک سیکولر سوشلسٹ جمہوری ملک نہیں بلکہ ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے۔ سب سے تشویشناک صورتحال سماج کے اخلاقی انحطاط کی ہے کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کوئی اس سماج کابھی ہوگا جہاں قاتلوں اور ریپسٹوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہو، ان کی حمایت میں قومی پرچم کے ساتھ جلوس نکالا جائے اور مذہبی نعرے لگائے جائیں ان کو جلد از جلد ضمانت دلانے اور ان کے مقدموں کی پیروی کا خرچ اٹھا یا جائے مرکزی وزیر ان کو ہار پہنائیں ۔ان کو دھرم کا محافظ بتایا جائے ۔ جنگ آزادی میں مہاتما گاندھی نے ملک کے جو آدرش اصول مرتب کئے تھے اور جن کی بدولت آزادی کے بعد کا غریب اور کمزور ہندوستان دنیا کا لیڈر بن گیا ہو۔ انھیں آدرشوں اور اصولوں سے فیض حاصل کر کے ایشیا افریقہ لاطینی امریکہ کے غریب کمزور ملکوں نے آزادی حاصل کی ہو وہی اصول گاندھی کے ہی ملک میں فخریہ پیروں سے روندے جائیں اور دعویٰ کیا جائے کہ ہم بھارت کو وشو گرو بنائیں گے۔ نفرت، جھوٹ، لفاظی، تشدد ،بدلہ جیسے منفی جذبات لے کر دنیا میں کوئی عزت نہیں حاصل کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج مہذب دنیا کے جتنے پیمانے ہیں ان میں ہم رو بہ زوال ہیں، چاہے جمہوری اصولوں کی بات ہو، مذہبی رواداری کی بات ہو، پریس کی آزادی کی بات ہو، حقوق انسانی کے تحفظ کی بات ہو، اقلیتوں کے ساتھ انصاف کی بات ہو، خواتین کے حقوق کی بات ہو، انٹرنیشنل رینکنگ میں ہم نیچے گرتے جا رہے ہیں۔کسی بھی محب وطن کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک ایک گہرے اندھے کنویں میں گر رہا ہے اگر ابھی اس کی آئینی جمہوریت اور آئینی اداروں کی خود مختاری کا تحفظ نہ کیا گیا تو جمہوریت نہیں بچے گی۔ملک کی معیشت کا علاج نہ کیا گیا تو ابھی جو 80 کروڑ لوگ مفت اناج پر زندہ ہیں تب تک اناج کے گودام خالی ہوچکے ہوںگے اور بھیک کا کٹورا بھی نہیں بچ پائے گا۔ ملک اڈانی اور امبانی کی نئی طرز کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلام ہو جائے گا۔
ملک کی اس تباہی کا اندازہ سبھی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو ہے لیکن اپنی اپنی مصلحت کے تحت کوئی بھی پارٹی اور لیڈر اس کے خلاف مہم چلانا تو در کنار کھل کر آواز بھی نہیں اٹھا رہا ہے۔ صرف اور صرف راہل گاندھی ایسے لیڈر ہیں جو ان تمام معاملات پر کھل کر حکومت سے ٹکراتے رہے ہیں۔ اسے آگاہ کرتے رہے ہیں اور اب آخری حربہ کے طور پر عوام کو بیدار کرنے اور حکومت کو آنے والی تباہیوں سے بچنے کے لئے تدارکی اقدام کرنے پر مجبور کرنے کے لئے 35ہزار کلو میٹر کی بھارت جوڑو یاترا شروع کرنے جارہے ہیں ۔مہاتما گاندھی کے ڈانڈی مارچ اور چندرشیکھر کی بھارت درشن یاترا کے بعد پیدل اتنی بڑی یاترا کرنے والے راہل گاندھی پہلے لیڈر ہیں۔اڈوانی جی اور مرلی منوہر جوشی نے رتھ یاترا نکالی تھی، وائی ایس آر ریڈی نے بس یاترا کی تھی، راہل کی یہ یاترا اپنے آپ میں انوکھی ہے۔
یہ یاترا کسی ایک پارٹی کسی ایک لیڈر یا کسی فرد واحد کی نہیں ہے یہ یاترا ملک کو ملک کی آئینی جمہوریت کو ملکی معیشت کو ملک کی سرحدوں اور سب سے بڑھ کر ملک کے سماجی تانے بانے کو بچانے کی مہم ہے یہی وجہ ہے کہ راہل کی ایماپر اس میں سماجی تنظیموں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ہر وہ شخص، ہر وہ تنظیم، ہر وہ پارٹی جو گاندھی نہرو امبیڈکر کے ہندوستان کو بچانا چاہتی ہے اسے اس یاترا کو ہر ممکن طریقے سے کامیاب کرنے میں تعاون کرنا چاہئے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]