امام علی فلاحی ۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔
کہا جاتا ہے کہ ہر وہ ملک جو جمہوریت کی روشنی میں رواں ہو اس ملک میں میڈیا کا ایک اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ ہر جمہوری ملک کو چلانے میں چار چیزوں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے، (١) مقننہ (٢) انتظامیہ (٣) عدلیہ (٤) میڈیا۔
مقننہ کا کام ہوتا ہے کہ وہ ملک کے حالات کو مدنظر نظر رکھتے ہوئے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قانون بنائے اور انتظامیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بنائے گئے قانون میں غور و خوض کرکے اسے نافذ کرے اور عدلیہ کا کام یہ ہوتا ہے کہ فرد کے اس قانون پر عمل نہ کرنے یا اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر اسکے خلاف سزا سنائے۔
گویا کہ مقننہ عوام کی فلاح و بہبود پر نظر رکھتی ہے اور مقننہ پر انتظامیہ کی نظر ہوتی ہے کہ وہ قانون کیسا ہے یا اس قانون کا پاس کرنا چاہیے یا نہیں وغیرہ، رہی بات عدلیہ کی تو وہ عوام، مقننہ اور انتظامیہ تینوں پر نظر رکھتی ہے اور ان سب پر جو نظر رکھتا ہے وہ میڈیا کا ہوتا ہے، یہی میڈیا انکی صداقت و حقانیت، بدعنوانی و کرپشن کو منظر عام پر لاتا ہے اگر عوام کے خلاف عدلیہ کی جانب سے یا پھر مقننہ اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی فیصلہ لیا جاتا ہے تو لوگوں میں اس فیصلے کو میڈیا ہی فاش کرتا ہے۔
غرض یہ کہ میڈیا کا جمہوری ملک میں ایک اہم رول ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا کو ایک جمہوری ملک کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے جو لوگوں کی آواز کو سرکار تک پہنچاتا ہے، لوگوں کی پریشانیوں سے حکومت کو آگاہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا کو آزادی حاصل ہے کیونکہ میڈیا کا مقصد ہی یہی ہے کہ وہ بے آواز عوام کی آواز بنے، بے حق عوام کو حق دلانے کی کوشش کرے، پریشانی میں مبتلا عوام کی خدمت کرے۔
لیکن افسوس صد افسوس آج ہمارے ملک ہندوستان میں میڈیا کی حالت بد سے بدترین ہو چکی ہے، آج ملک میں میڈیا کے ذریعے خوشحالی پیدا کرنے کے بجائے دشمنی کی جال بچھائی جارہی ہے، عوام کی خدمت کے بجائے سیاستدانوں کی حمایت کی جارہی ہے، ملک میں لوگ آج بے روزگاری سے جونجھ رہے ہیں لیکن میڈیا میں اس پر بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے ہندو مسلم کی بات کی جارہی ہے، آج لوگ ملازمت کے حصول کے لئے سڑکوں پر کھڑے ہیں لیکن آج میڈیا ہی کے ذریعے انکی آواز کو پست کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔
غرض یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسکی آواز دبا دی جاتی ہے اور میں اسٹریم میڈیا میں دوسرے مدعوں کو چھوڑ کر مطلوبہ مدعہ کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے اگر کوئی شخص عوام کی فلاح کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو اسے میڈیا ہی کے ذریعے دیش دروہی کا لقب دے دیا جاتا ہے، اگر کوئی صحافی کچھ لکھنے یا کہنے کی جرأت کرتا ہے تو اسے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور یہ باتیں میں یوں ہی نہیں کہہ رہا بلکہ اسکی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
اب یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جس میڈیا کا کام عوام کی خدمت کرنا تھا ، بے آواز عوام کی آواز کو بلند کرنا تھا اس میڈیا کے اندر اتنی گندگی اور بے راہ روی کہاں سے آگئی ؟
تو اسکا سادہ سا جواب یہی ملے گا کہ وہ تمام میڈا جو آج ملک میں دنگے فساد اور بھائی چارگی کو آگ لگا رہے ہیں وہ سب کے سب امیر زادوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے آج ان تمام میڈا کو گودی میڈیا کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔
لیکن کیا اس ملک میں سارے کے سارے چینل گودی میڈیا کے زمرے میں آتے ہیں ؟ کیا سارے ہی میڈیا والے لوگوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں ؟
نہیں ہر گز نہیں ! آج بھی ملک ہندوستان میں بہت سارے چینلز ، اخبارات اور میڈیا کے لوگ عوام کی آواز میں آواز ملا رہے ہیں، انکی حق تلفی سے سرکار کو آگاہ کر رہے ہیں، عوام کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہیں اور سرکار کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرأت کر رہے ہیں اور بچھڑے ہوئے لوگوں کو پیش پیش لانے کی جسارت کر رہے ہیں۔
جس میں سے ایک مین اسٹریم میڈیا این ڈی ٹی وی کا نام لینا اور اسکا ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں ۔
این ڈی ٹی وی انڈیا بھارت کے چند مقبول ترین چینلز میں سے ایک ہے جسے خاص طور پر اپنی غیر جانبدارنہ نیوز کوریج کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ یہ چینل ملک کے ان چنندہ خبر رساں اداروں میں سے ایک ہے جو اکثر وفاقی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتا ہے۔
این ڈی ٹی وی مین اسٹریم میڈیا میں وہ واحد چینل ہے جو ہر پل عوام کی آواز، عوام کی فریاد حکومت کے سامنے پیش کرتا ہے اور حکومت کی ان تمام پالیسیوں کا پردہ فاش کرتا ہے جس میں عوام کے لئے ذرہ برابر بھی کوئی شبہ ہوتا ہے یا عوام کی مستقبل کو خطرہ محسوس ہوتا ہے یا جس میں صرف سرکار ہی کا فائدہ ہوتا ہے، یہ وہ چینل ہے جو بے جھجھک آواز لگاتا ہے چاہے وہ حکومت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، یہ وہ چینل ہے جو ہر اس شخص کے خلاف بولتا ہے جو ہندوستان کو برباد کرنا چاہتا ہے، جو ہندوستان کو بیچنا اور خریدنا چاہتا ہے، جو ہندوستانی آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے ان تمام کے خلاف بولتا ہے خواہ وہ اڈانی ہو یا امبانی، مودی ہو یا امت شاہ۔
لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج اسی مین اسٹریم میڈیا کو خریدنے کی سازش کی جارہی ہے تاکہ اسکی آزادنہ صحافت پر لگام لگائی جا سکے۔
خبر عام ہو چکی ہے کہ دنیا اور انڈیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک گوتم اڈانی کے اڈانی گروپ نے کہا ہے کہ ان کا میڈیا یونٹ ملک کے مقبول ترین میڈیا ہاؤسز میں سے ایک نیو دہلی ٹیلی ویژن (این ڈی ٹی وی) کے اکثریتی حصص خریدے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ منگل کو اڈانی گروپ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ میڈیا یونٹ بالواسطہ طور پر نئی دہلی ٹیلی ویژن لمیٹڈ میں 29.18 فیصد حصص خریدے گا اور مزید 26 فیصد حصص کے لیے پیشکش کا آغاز کرے گا جو چار ارب 93 کروڑ انڈین روپے ہو گی۔
بتایا جا رہا ہے کہ گزشتہ منگل کو AMG میڈیا نیٹ ورکس لمیٹڈ، اڈانی انٹرپرائزز کی ملکیت والی ایک ذیلی کمپنی نے VCPL میں 100% ایکویٹی حصص 113.74 کروڑ روپے میں خریدے اور 2009 میں وی سی پی ایل نے رادھیکا رائے پرنوئے رائے پرائیویٹ لمیٹڈ کو 403.85 کروڑ روپے کے غیر محفوظ قرض کی پیشکش کی تھی۔ قرض کے معاہدے کی شرائط کے مطابق وی سی پی ایل کو میڈیا گروپ میں ’’قرض کی مدت کے دوران کسی بھی وقت یا اس کے بعد قرض دہندہ کی جانب سے کسی مزید کارروائی کی ضرورت کے بغیر۔‘‘ 29.18 فیصد حصص حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اڈانی گروپ نے منگل کو کہا کہ اس نے ان حقوق کا استعمال کیا، جس کے ذریعے وہ میڈیا گروپ این ڈی ٹی وی کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
حالانکہ این ڈی ٹی وی کی انتظامیہ نے اس بارے میں حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔
کہا جاتا ہے کہ گوتم اڈانی مودی حکومت کے بڑے قریبی ہیں اور یہ ایک زبردست چال ہے مودی حکومت اور گوتم اڈانی کی اس چال کے ذریعے این ڈی ٹی وی کو بھی گودی میڈیا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
غور کریں اگر دیے گئے آفر کے مطابق گوتم اڈانی پچاس فیصد سے زائد حصہ دار بن جائے گے تو اس چینل کا کیا حال ہوگا۔ پھر تو اس چینل کو بھی گودی میڈیا کے زمرے میں شامل کیا جانے لگے گا اور اس طرح سے پورے ملک میں صرف وہی میڈیا زیادہ دیکھے جانے لگیں گے اور اس میں صرف سرکار کی ہی حمایت کی جائے گی اور عوام کی باتوں کو پس پشت رکھتے ہوئے صرف ہندو مسلم کی بات کی جائے گی۔
ذرا غور کریں کہ اگر یہ چینل بھی بک گیا تو ہندوستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا کوئی ایسا ہندی اور انگلش چینل بھی مین اسٹریم میڈیا میں آئے گا؟ جو حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر گری ہوئی عوام کی بات کرے گا؟
کیا کوئی ایسا بھی چینل آئے گا جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ، جے این یو میں دنگے کے پیچھے چھپے لوگوں کا پردہ فاش کرے گا؟
کیا کوئی ایسا چینل بھی بنے گا جو طلبہء جامعہ ملیہ اسلامیہ، اے ایم یو اور جے این کی حمایت میں بات کرے گا؟
کہیں ایسا تو نہیں ہوگا ؟ کہ اسی این ڈی ٹی وی کے ذریعے جامعہ، اے ایم یو ، جے این یو ، مانو کے طلبا کو دہشت گرد ٹھہرا دیا جائے گا؟
بہر حال اب سوچنے کا مقام ہے کہ جس ملک میں میڈیا کی خریداری ہو اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟