قمرجاوید
ماسٹر راشد خان بھننایا اور خود میں بڑبڑاتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہوا۔ دروازے کو اتنی زور سے بند کیا کہ بیوی کچن سے دوڑتی ہوئی دروازے تک آگئی۔ غصے سے شوہر کا تمتمایا ہوا چہرہ دیکھ کر سہم گئی۔
’کیا ہوا جی؟۔۔۔سب خیریت تو ہے؟‘ اس نے دھیرے سے دروازے کی کنڈی لگائی۔
’کیا خاک خیریت ہے سارے شہر کو جیسے اور کوئی کام ہی نہیں۔ سب کے سب حاسد ہیں۔ کسی کی ترقی ان سے برداشت نہیں ہوتی۔۔۔۔کہتے ہیں، میں ہر جگہ سے مال بٹور رہا ہوں، اس لیے عہدے میں بنے رہنے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہوں۔۔۔۔ہاں! بٹوروں گا، مجھ میں قابلیت ہے۔ اپنی قابلیت کے بل بوتے پر کرتا ہوں۔۔۔۔سب کے سب جاہل ہیں، جلن حسد سے مرے جارہے ہیں۔۔۔۔مجھ پر انگلی اٹھانے کی ہمت کیسے ہوئی؟۔۔۔ اسکول کا ریزلٹ خراب ہوا تو میں کیا کروں؟ اسکول کا پریسیڈنٹ ہوں تو کیا ساری ذمہ داری میری ہے؟۔۔۔ان لوگوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ ابھی میرا پاور نہیں جانتے۔۔۔۔مجھے بدنام کر کے میرا بال بھی بیکا نہیں کر پائیں گے۔‘ غصے سے اس کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ بیوی نے اسے صوفے پر بیٹھایا اور پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا، ’سنئے نا جی، آس پڑوس والے بھی ہم پر تانے کس رہے ہیں۔ رحیم بھائی بتا رہے تھے کہ نوجوانوں نے ایم ایل اے صاحب کو ماس پٹیشن بھی سونپا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک نہیں ہے نا جی۔۔۔۔آپ کے خلاف ڈی آئی کو لکھ کر صدر کے پوسٹ سے ہٹوایا، پھر آپ کو میری بہن ناز کا نام صدر کے عہدے کے لیے نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ سوشل میڈیا میں میری بہن کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے دو چھوٹے چھوٹے بچے آپس میں باتیں کرتے ہوئے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ ایک بچے نے ہمارے گھر کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’’یہی ہے جڑی باز ماسٹر کا گھر۔ تے جانے ہے، ادھر ادھر کر کے بہت مال بنائس ہے۔ دو دو ٹھو بلڈنگ، گاڑی اور سنا ہے، بہتتے زمین بھی کھریدس ہے۔ اسکول ماسٹر کا اتنا تنکھا تھوڑی نا ہوہے، سب دو نمبریا پیسہ ہے۔‘‘۔۔۔ بتائیے، بات بچے بچے تک پہنچ گئی ہے اور نئی والی بلڈنگ کے کرایہ دار آئے تھے۔ کہہ رہے تھے، کرایہ طے ہونے کے بعد موٹر کا الگ سے، سیڑھیوں پر جھاڑو دینے کا الگ سے، ہر وقت بس ماسٹر صاحب پیسہ پیسہ کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک نہیں۔‘
ماسٹر راشد آپے سے باہر ہوا جا رہا تھا، ’کرایہ دار سے تو بعد میں نپٹ لوں گا، پہلے یہ بتاؤ! وہ بچے کون تھے؟۔۔۔تم نے دو چار تھپڑ کیوں نہیں مارا۔ میں رہتا تو گلہ دبا دیتا۔‘
بیوی نے گھبرا کر پانی کا گلاس اس کے منہ سے لگا دیا، ’شانت ہو جائیے جی، غصہ مت کیجئے۔‘ جب ذرا وہ نارمل ہوا تو بیوی نے بڑے پیار سے کہا، ’ایک بات کہوں جی، یہ سب چھوڑ دیجئے نا! اسکول کی تنخواہ ہی کافی ہے، ہمارا گزارا ہو جائے گا۔ کیوں فالتو میں ان سب جھمیلوں میں پڑنا۔۔۔۔قاضی والا معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ہے گاہے بگاہے کچھ نہ کچھ چھپتا رہتا ہے۔۔۔اور اب اسکول کا شروع ہوگیا۔۔۔۔سب جگہ سے ریجائن کر دیجی نا اور ناز سے بھی ریجائن کرنے کو کہہ دیجئے۔‘
’کیا کہا؟ ان جاہلوں کے بھونکنے سے میں ریزائن کردوں اور ناز سے بھی عہدہ چھوڑنے کو کہہ دوں؟ ناز کو صدر بنانے کے لیے میں نے کتنی محنت کی ہے، ایم ایل اے صاحب کو کتنی محنت سے شیشے میں اتارا ہے، وہ صرف اس لیے کہ جس طرح سے پچھلے پانچ چھ سالوں سے ڈیولپمنٹ کے فنڈ سے اپنا حصہ پاتا رہا ہوں، اسکول کے ضرورت کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کچھ نہ کچھ کمائی کرتا رہا ہوں۔ اب ناز کو سامنے رکھ کر مزید پاتا رہوں گا اور تم قاضی کی بات کرتی ہو؟ پچھلے چار پانچ سالوں سے میں ہی تو قاضی کے فرائض انجام دے رہا ہوں تو کیا یہ سب فری میں تھوڑی کر رہا ہوں۔ اچھی خاصی رقم میں نے کمائی ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو، یہ عیش و آرام صرف اسکول کی تنخواہ سے ہے۔ بچوں کو اتنے بڑے اسکول میں داخلہ کروایا، اسکول کی تنخواہ سے؟۔۔۔ یہ دو دو بلڈنگ کلکتہ کے پوش علاقے میں، فلیٹ، کئی ایکڑ زمین اور چمچماتی کار ذرا بتاؤ تو کتنے اسکول ٹیچروں کے پاس ہیں؟۔۔۔اسکول ٹیچر کی محض دس سال کی نوکری میں اسکول سے ملنے والی پوری تنخواہ بھی لگا دیتا تو بھی اتنا کچھ نہیں ہوتا۔ تنخواہ پر اکتفا کر کے یہ سب نا ممکن تھا۔ میں نے یہ سب کرنے کے لیے نہ جانے کتنے پاپڑ بیلے ہیں۔ کیسی کیسی ترکیبیں لگائی ہیں۔ نہ جانے کتنوں کی چاپلوسی کی، تگڑم پر تگڑم کیا تب جا کر یہاں تک پہنچا ہوں، اس لیے مجھ سے بیکار کی بحث مت کرو۔ تمہارا جو کام ہے، وہ کرو۔ میرے کام میں دخل مت کیا دو۔۔۔۔ان لوگوں کو کیسے جواب دینا ہے، وہ میں جانتا ہوں۔۔۔۔ابھی سرکار اپنی ہے، ایم ایل اے صاحب اپنے ہیں اور تو اور، کاؤنسلرتو میری انگلیوں کے اشارے پر ناچتا ہے، یہ ٹٹ پونجئے میرا کیا بگاڑ لیں گے۔۔۔۔‘
’ہاں، یہ بتاؤ۔ بچے اسکول سے آگئے کیا؟ ان کا تو آج ریزلٹ آنے والا تھا۔۔۔۔کہاں ہیں وہ لوگ؟‘
’اور کہاں ہوں گے۔ اپنے کمرے میں موبائل پر گیم کھیل رہے ہیں۔ ریزلٹ خراب کرکے آئے ہیں لیکن انہیں ذرا بھی فکر نہیں۔‘ بیوی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’کیا کہا، ریزلٹ خراب کیا ہے ان لوگوں نے؟ ‘
’اور نہیں تو کیا۔ خود ہی پوچھ لیجیے۔ خراب ریزلٹ کے بارے میں بھی ہنس ہنس کر بتا رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں، پاپا ہیں نا۔سب ٹھیک کر دیں گے۔‘
ماسٹر راشد خان غصے میں بچوں کے کمرے میں جاکر ان پر برس پڑا۔ بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اسے اور بھی غصہ آیا۔ پھر اس نے بچوں سے پوچھا، ’اپنا ریزلٹ باہر کے کسی کو بتایا تو نہیں؟‘
’ہاں پاپا، رحیم انکل نے پوچھا تھا تو ان کو بتایا۔‘
’یہ پڑوسی ہمیشہ دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے کچھ کہا تو نہیں؟‘
’ہاں پاپا، انہوں نے بڑی عجیب بات کہی لیکن میں سمجھا نہیں۔‘
’کیا کہا انہوں نے۔‘
پہلے تو وہ مسکرایا اور پھر اس نے کہا، ’اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں۔ اس کا کیا مطلب ہوا پاپا؟‘n