ریاض فردوسی
ماضی میں تاریخ میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے ،جسے فاتح و مفتوح کا دور کہا جاتا ہے۔اسے جارحیت کا دور بھی کہا جاتا ہے، اسے سلطان کے سلطنت کے توسیعی عمل کا دور بھی کہا جاتا ہے، اس کا تعلق کسی خاص خطہ ارض یا کسی خاص مذہبی گروہ سے نہیں رہا ہے، جارحیت کا یہ عمل ہر قوم، ہر مذہب کے لوگوں اور زمین کے اکثر و بیشتر حصوں میں دیکھا گیا ہے، ہر زمانہ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ملک میں فوج کشی کرتا ہے، اسے شکست دیتا ہے اور اس کی سلطنت کے بعض علاقوں کو اپنی سلطنت کے ساتھ جوڑ لیتا ہے اور اس پر قابض اور متصرف ہو جاتا ہے، یہی اس دور کا رسم و رواج تھا، اسے ایک جائز عمل سمجھا جاتا تھا، جارحیت کے اس عمل کو ماضی میں یہودیوں، اشوری، کلدانی ،ایرانی ،یونانی ،رومی اور بعد میں مغربی رومن ایمپائر کے زوال کے بعد گاتھ ، ونڈال، فرینک جیسی غیر مہذب اقوام اور بعد میں عربوں، ترکوں اور افغانوں اور جدید دور میں نو آبادیات کے نام پر مغربی یوروپی اقوام میں بھی دیکھا گیا۔
جہاں بادشاہت ہوتی ہے اس کے لازمی نتیجہ میں بغاوت پیدا ہوتی ہے، یہ بغاوت شاہی محل کے اندر اور شاہی محل کے باہر بھی ہوتی ہے، محل کے اندر امیر، سلطان یا راجہ کے ہی خاندان کے لوگ بغاوت کرتے ہیں، کبھی امرا و شرفا بھی کرتے ہیں، کھانے میں زہر ڈال کر امیر کو مارنے کی سازش کی جاتی ہے اور پھر جب سازش کا انکشاف ہوتا تو باغیوںکی سرکوبی کی جاتی ہے،یہ سب کچھ اقتدار کے حرص کی وجہ سے ہوتا ہے، شاہی محل کے باہر جب کسی صوبہ کا عامل اپنے آپ کو سلطان سے زیادہ طاقتور سمجھنے لگتا ہے اور اس کے اندر بھی اقتدار کا حرص پیدا ہو جاتا ہے ،تو وہ بھی تنہا یا کسی بیرونی طاقت قطع نظر اس کے کہ اس کا مذہب کیا ہے،اس کی مدد سے سلطان یا امیر کو معزول کرنے کے لیے اس کے ساتھ غداری کرتا ہے، بس اسی وجہ سے امیر یا سلطان اس باغی کا استیصال کرنے کے لیے اس سے جنگ کرتا ہے اور پھر وہ میدان جنگ میں بے رحم نظر آتا ہے، اس کا سر جسم سے جدا کر دیا جاتا ہے، بغاوت کو کچلنے میں رشتوں کی پرواہ نہیں کی جاتی ہے، باپ بیٹے کو اور بھائی، بھائی کو قتل کر ڈالتا ہے، یہ سب کچھ بادشاہوں کی تاریخ میں ماضی سے لے کر آج تک ہر قوم اور مذہب کے بادشاہوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
آج سے ڈھائی ہزار سال قبل قدیم بھارت میں بھی راجاؤں کی حکومت تھی، شمالی ہندوستان میں شمال مغرب سے لیکر مشرق میں سولہ مختلف اور متفرق سلطنتیں تھیں جنہیں ہندی میں مہاجنپد کے نام سے جانا جاتا ہے، ان میں انگ (جس میں بہار کے بھاگلپور اور مونگیر شامل تھے اور جس کی راجدھانی چمپا تھی)مگدھ (جس میں پٹنہ، گیا اور شاہ آباد کے کچھ علاقے شامل تھے اور اسکی راجدھانی راج گرہ تھی) مشرقی اتر پردیش کے کاشی (راجدھانی وارانسی) کوشل (راجدھانی شراوستی اور اس کے اندر ایودھیا بھی شامل ہے) مغربی اترپردیش میں وتس (جس کی راجدھانی اللہ آبادابھی کانام پریاگ ہے) کے قریب کوشمبی تھی شورسین (جس کی راجدھانی متھرا تھی) وغیرہ نامور عظیم ہندو سلطنتیں تھیں۔
مہا بھارت اور پرانوں کے مطابق مگدھ میں سب سے قدیم راج خاندان کا بانی ورہ درتھ تھا، ورہ درتھ خاندان کے بعد مگدھ میں ہرایک خاندان کی بنیاد پڑی اور اس خاندان کا بانی بمبسار تھا، بمبسار نے انگ دیش پر حملہ کیا اور وہاں کے راجہ برہم دت کو شکست دیکر اسے اپنی حکومت(راجیہ) میں ملا لیا، اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے اس نے تین شادیاں کیں، اس کی پہلی بیوی کوشل راج کی بیٹی، اور دوسری بیوی ویشالی کے لچھوی کی راجکماری تھی، بمبسار نے (492- 544) قبل مسیح مگدھ پر حکومت کی، بمبسار کو قتل کرکے اس کا لڑکا اجات شترو تخت نشیں ہوا، اور پھر اجات شترو کو اس کے لڑکے اداین نے قتل کرکے تخت پر بیٹھا، اس خاندان کو پتر ہنتا خاندان بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں بیٹا باپ کو قتل کرکے راجہ بنتا تھا، اس کے بعد مگدھ کے عوام نے ان قاتلین کو برخاست کر شیشو ناگ نامی شخص کو تخت پر بیٹھایا اور اس نے شیشو ناگ خاندان کی بنیاد رکھی۔شیشو ناگ خا ندان کے خاتمہ کے بعد نند خاندان کی بنیاد پڑی اور اس خاندان کا آخری راجہ دھنانند تھا، 322 قبل مسیح چندرگپت موریہ نے اپنے استاد چانکیہ کی مدد سے دھنانند کا خون کرکے موریہ خاندان کی بنیاد ڈالی۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے باہر سے آکر ہندوستان پر حملہ کیا اور یہاں کے حکمران بن گئے ،یہ لوگ ان مسلمان حملہ آوروں کو و دیشی آکرانتا کہتے ہیں، ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قدیم زمانہ میں دنیا قومی ریاست کی اصول پر متفرق ملکوں میں تقسیم نہیں تھی اور نہ ہی ملکوں کی سرحدوں پر فوجیں تعینات تھیں اور نہ ہی لوگوں کی منتقلی کے لیے ویزا پاسپورٹ کا قانون تھا، اس وقت پوری دنیا ایک کھلی ہوئی دنیا تھی۔ کہیں بھی،کوئی بھی، بغیر روک ٹوک کے آ جا سکتا تھا۔
اسی قدیم زمانہ میں سکندر اعظم قدیم نے یونان کی ریاست مقدونیہ سے ایک لشکر جرار لے کر ہزاروں میل کی مسافت طے کرکے شمال مغرب ہندوستان کے پنجاب میں دریائے جھیلم اور چیناب کے مابین ایک میدان جنگ میں 326 قبل مسیح (ق م) پورس کو شکست دی، وہیں دوسری طرف پورس کا حریف اور تکھشیلا کا ہندو راجہ آمبھی نے سکندر اعظم کی بالادستی کو قبول کیا اور خراج پیش کیا، کیا مذہب کی بنیاد پر کوئی بھی بول سکتا ہے کہ ایک ہندو راجہ نے ایک غیر ہندو راجہ کے حق میں دوسرے ہندو راجہ کے ساتھ غداری کی، لیکن وطنیت کے نام پر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس قدیم زمانہ میں آج کی طرح کسی بھی ملک کی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی۔
سکندر اعظم کے ہندوستان سے واپسی کے بعد چندرگپت موریہ نے سکندر کے یونانی گورنر سیلیوکس سے جنگ کی اور ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع قندھار اور بلوچستان کے علاقوں کو فتح کیا اور اپنی سلطنت کی توسیع کی اور سیلیوکس کی بیٹی سے شادی بھی کی اور اسے پانچ سو ہاتھی بھی دیا، اس طرح ایک راجہ نے باہر سے ہندوستان کے اندر اور ایک راجہ ہندوستان سے باہر اپنی سلطنت کی وسعت کے لیے جنگیں کی۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے ملک کے بعض لوگ بابر کو افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے پر اسے حملہ آور کہتے ہیں تو قندھار اور بلوچستان کے لوگ چندرگپت موریہ کو انکے ملکوں میں حملہ کرنے پر کیا کہیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
موریہ خاندان کا سب سے عظیم حکمران اشوک ہوا ،جسے اشوک اعظم بھی کہا جاتا ہے، بدھ روایت کے مطابق اشوک اپنی ابتدائی زندگی میں بہت ہی بے رحم تھا اور اپنے ننانوے بھائیوں کا خون کرکے تخت نشیں ہوا تھا،، کلنگا کی لڑائی میں اشوک کی فوج نے ایک لاکھ لوگوں کا قتل کیا اور قریب ڈیرہ لاکھ لوگ قیدی بنائے گئے، اتنی بڑی تعداد میں ہندوستان کے کسی مسلمان بادشاہ نے بھی کسی جنگ میں لوگوں کی جان نہیں لی ہے، کلنگاکی لڑائی کے بعد اشوک کا دل بدل گیا اور وہ بدھ مذہب کا مبلغ بن گیا، ہندو راجاؤں میں راجہ اشوک کو احترام کے ساتھ دیکھا جاتا ہے اور اس کے لیے لفظ مہان استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ کلنگا لڑائی کے بعد اس نے آئندہ جنگ نہیں کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے پچھتاوا بھی ہوا، لیکن کیا عدل و انصاف صرف Repentance کا نام ہے؟
موریہ خاندان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان، ایران اور چین سے ہندوستان کے شمال مغربی راستہ سے کئی غیر ملکی اقوام نے ہندوستان پر حملہ کیے، ہندوستان پر سب سے پہلے یونانیوں نے حملہ کیا۔یہ لوگ Greco – Bactrian یا Indo Greek کہلاتے تھے، یہ لوگ افغانستان میں آمو دریا کے جنوب میں بیکٹیریا خطہ سے آئے تھے، Menander اس قوم کا اہم راجہ تھا، یونانیوں کے بعد ہندوستان میں ایران اور افغانستان کے علاقے سے شک آئے جنہوں نے ہندوستان کے شمال اور مغرب میں بشمول متھرا، اجین پر حکومت کیا، شک کا سب سے مشہور راجہ Rudradamanl تھا، ایران کے شمال مشرق میں واقع Parthia سے بھی غیر ملکی قوم ہندوستان میں آئی اور اس کے بعد چین سے کشان لوگوں نے ہندوستان میں قدم رکھا، یہ سبھی لوگ غیر ملکی حملہ آور تھے، لیکن ان حملہ آوروں کے متعلق ہمارے ملک کے بعض لوگ منفی رائے نہیں رکھتے ،جس طرح سے وہ مسلم حکمرانوں کے متعلق رکھتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ان غیر مسلم حملہ آوروں میں کشان شیو اور بدھ دونوں کے پجاری تھے، اور انہوں نے جو سکے چلائے، اس پر شیو دیوتا، بیل اور ترشول کی تصویریں ہیں، کشان حکمرانوں نے مہاراجہ دھیراج کا لقب اختیار کیا اور اپنے آپ کو دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے اور عوام وخواص کو ان کو اسی نام سے پکارنے کاحکم تھا۔ کشان حکمران دیو پتر کہلانے لگے، یونانی راجہ مینانڈر نے بھی بودھ دھرم اپنا لیا تھا، اسی طرح شک راجہ رودردمن نے سنسکرت زبان کو فروغ دیا تھا اور سنسکرت زبان میں شاہی احکام جاری کروائے، یہ لوگ بھی ودیشی آکرانتا (حملہ آور کو ہندی میں آکرانتا کہتے ہیں) تھے لیکن انہوں نے ملک ہندوستان کے مذہب، تمدن اور زبان کو اختیار کیا، اس کے برعکس مسلمان حکمرانوں کے آنے سے یہاں کے لوگوں نے اپنے مذہب کو چھوڑ کر ایک و دیشی مذہب کو گلے لگا لیا، اسی بغض، جلن اور حسد سے ہمارے ملک کے بعض لوگ مسلم حکمرانوں سے خاص کر مغل حکمرانوں سے بے حد نفرت کرتے ہیں۔
گپت خاندان کو قدیم ہندوستانی تاریخ میں سنہرا دور کہتے ہیں، لیکن اس دور میں بھی سینٹرل ایشیا سے شمال مغرب کے راستے ہون قوم نے ہندوستان پر حملہ کیا، اس وقت گپت خاندان کے راجہ اسکند گپت کی حکومت تھی، 485 عیسوی میں بھارت آکر ہون مشرقی مالوا اور سینٹرل بھارت کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گئے، ہون قوم کا حملہ گپت خاندان کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب شمار کیا جاتا ہے، تاریخ میں 568-375 تک کا زمانہ ہجرت کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانہ میں Germanic tribes مثلاً بھنڈال، گاتھ، اینگلو سیکشن، فرینکس، برگنڈی وغیرہ اپنے آبائی وطن سے نکل کر رومی سلطنت کے مختلف علاقوں کو فتح کرتے ہیں اور وہاں خود مختار حکومتیں قائم کرتے ہیں، اقوام کے اس نقل مکانی کے کئی اسباب ہوتے ہیں، آب و ہوا کی تبدیلی، رسد کی قلت، قدرتی آفات مثلاً سیلاب، زلزلہ، کسی قوم یا قبیلہ کا حملہ،نئی زمین کی تلاش، سلطنت کی توسیع وغیرہ، یعنی کسی قوم کی کسی دوسری قوم کے ملک پر حملہ آوری کے پیچھے انہیں محرکات میں سے کوئی ایک یا دو محرکات کام کرتے ہیں۔
گپت خاندان کے زوال کے بعد شمالی ہندوستان میں بیشمار علاقائی راجاؤں اور حکمرانوں نے آزادانہ طور پر حکومت کرنا شروع کر دیا، مثلاً گور (بنگال) کے راجہ ششانک مالوا کے راجہ دیوگپت کامروپ کے راجہ بھاسکر ورمن تھانیسر (ہریانہ) کے راجہ راجیہ وردھن، راجیہ وردھن کی بہن راجیہ شری کی شادی کنوج کے راجہ گرہ ورمن سے ہوئی تھی، بنگال کے راجہ ششانک اور مالوا کے راجہ دیوگپت دونوں نے مل کر کنوج پر حملہ کر دیا اور دیوگپت نے گرہ ورمن کو قتل کر ڈالا اور راجیہ شری کو اغوا کر لیا گیا، بہن کی حفاظت اور بہنوئی کے قتل کا بدلہ لینے کی غرض سے راجیہ وردھن نے مالوا کے راجہ کے خلاف اپنی فوج کی پیش قدمی کی، لیکن دیوگپت کے حلیف ششانک نے راجیہ وردھن کا قتل کر ڈالا، راجیہ وردھن کی موت کے بعد اس کا بھائی ہرش وردھن تھانیسر کا راجہ مقرر ہوا ، اور ششانک سے بدلہ لینے کے لیے اپنے لشکر کے ساتھ کنوج کی طرف کوچ کیا اور راجیہ شری کو ستی ہونے سے بچایا، تاریخ گواہ ہے جہاں کہیں بھی اس طرح کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہوتی ہیں وہاں کے حکمران ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے اور اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے آپس میں لڑتے ہیں، ہندو، ہندو راجاؤں کے ساتھ، مسلمان، مسلمان راجاؤں کے ساتھ، ہندو راجہ مسلمان راجہ کے ساتھ اور مسلمان ،ہندو راجہ کے ساتھ جنگ کرتے ہیں، اسے مذہب کی نظر سے نہیں دیکھنا یا سوچنا چاہئے۔
ششانک بدھ دھرم کا دشمن تھا، اس نے بنگال میں بدھ دھرم کے استوپ کو منہدم کروایا، اس نے بودھ گیا شہر میں اس درخت کو کٹوا دیا، جس درخت کے نیچے مہاتما بدھ کو گیان حاصل ہوا تھا۔
ششانک سے پہلے موریہ خاندان کے آخری راجہ برہ درتھ کے سپہ سالار پوشیہ متر شونگ نے اس کا خون کرکے شونگ خاندان کی بنیاد ڈالی۔ بوددھوں کے مذہبی کتابوں میں درج ہے کہ پوشیہ متر شونگ نے بودھ دھرم کے پیروکار پر ظلم و ستم کیا۔ اس نے پاٹلی پتر میں ایک بودھ خانقاہ کو توڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے وزیروں نے اسے اس وقت ایسا کرنے سے روک دیا۔اس کے سبب وہ بچ گیا، اس کے بعد انہوں نے شاکال (سیالکوٹ، پاکستان) کی طرف کوچ کیا اور وہاں ہر بودھ راہب کے سر قلم کر اسے اسکے سامنے پیش کرنے کے لئے انعام کی پیشکش کی، ایک اور روایت کے مطابق پوشیہ متر نے کشمیر کے گرد و نواح میں بودھوں کی پانچ سو خانقاہوں کو منہدم کیا، انکی مذہبی کتابوں کو نذر آتش کیا اور بودھ راہبوں کو قتل کروا ڈالا، ہون کے آخری راجہ میہیر کل نے بھی چھٹی صدی کے پہلے عشرہ میں بودھ خانقاہوں کو توڑ وایا اور سیکڑوں بودھ راہبوں کو موت کے گھاٹ اتروا دیا۔
راجاؤں کی تاریخ میں عبادت گاہوں ،مندر اور مسجدوں کو بھی نقصان پہنچا ہے، بودھ خانقاہوں کو بھی توڑا گیا ہے، مندر بدھ خانقاہوں میں تبدیل ہوئے ہیں،بدھ خانقاہیں مندروں میں!، لیکن یہ ماضی کے تاریخی واقعات ہیں جن کو آج کے دنوں میں ہم یا آپ بدل نہیں سکتے ہیں۔
رسالت مآب ﷺ کے فتح مکہ کے بعد پورے جزیرہ نما عرب پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت قائم ہو جاتی ہے اور بعدہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں عرب کے اطراف میں بھی اسلامی حکومت پھیل جاتی ہے، آٹھویں صدی کے پہلے عشرہ میں ( 711AD) میں جہاں عرب ایک طرف طارق بن زیاد کی قیادت میں اسپین فتح کر رہے تھے، وہیں دوسری طرف حجاج بن یوسف کے داماد محمد بن قاسم اپنی قیادت میں سندھ کو فتح کر چکے تھے، اس وقت سندھ کا راجہ داہر تھا جو راجہ چچ کا بڑا لڑکا تھا، راجہ چچ کے اس کے Predecessor کی بیوی سے ناجائز تعلقات ہو گئے تھے، اس کے پیش رو کے انتقال کے بعد اس کی موت کو اس وقت تک مخفی رکھا گیا، جب تک اسکے رشتہ داروں کو جو شاہی تخت کے دعویدار بن سکتے تھے، خفیہ طریقہ سے قتل نہیں کروا دیا گیا، بعد میں اس کی بیوی سے شادی کرکے چچ سندھ کا راجہ بن گیا۔
محمد بن قاسم نے سندھ میں دیبل، نیرون اور دیگر علاقوں کو فتح کیا، ان تمام شہروں کے بدھسٹ عوام اور بدھسٹ پجاریوں نے راجہ داہر کے خلاف عرب سپہ سالار کا ساتھ دینا بہتر سمجھا، دیبل کا گورنر Jahin Budh مقابلہ کرنے کے بجائے دیبل سے نیرون بھاگ گیا، اسی طرح نیرون کا حاکم Buddhist Samani نے بغیر لڑے ہی محمد بن قاسم کے سامنے ہتھیار ڈال دیا اور خراج دینے پر راضی ہو گیا۔
راجاؤں کے تاریخ میں اس طرح کے مکر، فریب، غداری، دھوکہ بازی، معزو ل کرنے کی سازش، خون و قتل بہت دیکھنے کو ملتا ہے، یہ مسلمان بادشاہوں کی تاریخ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ہندو راجاؤں کے تاریخ میں بھی، ان سب چیزوں سے مذہب کا کوئی واسطہ یا سروکارنہیں ہے۔
[email protected]