عبد الماجد نظامی
ہندوستانی مسلمان آج کن مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہے اس پر الگ سے کچھ لکھنے اور دلیل دینے کی کوئی خاص ضرورت اس لئے نہیں ہے کیونکہ میڈیا کی رپورٹوں سے ہر روز اس حقیقت کی تصویر سامنے آتی رہتی ہے کہ ان کا وجود اس ملک میں ایک خاص نظریہ کے حامی طبقہ کی نظر میں ناقابل برداشت معلوم ہوتا ہے۔ ان پر ہر قسم کے بے بنیاد الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ان کی تاریخ، ثقافت، کلچر اور دین و مذہب کے خلاف دشنام طرازیاں ہوتی ہیں۔ ان کے کھانے، پینے اور پہننے اوڑھنے سے لے کر شادی بیاہ اور نکاح و طلاق تک شاید ہی زندگی کا کوئی ایسا پہلو بھی ہو جو ان چیلنجز کی زد میں نہ آتا ہو جن کو 2014 کے بعد کے سیاسی و سماجی ماحول نے پیدا کیا ہے۔ لیکن ان تمام بے بنیاد اور حقیقت سے عاری الزامات میں سب سے مضحکہ خیز، مجرمانہ اور دیدہ دلیری پر مبنی الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ انہیں اس ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے کیونکہ ملک کے تئیں وہ وفادار نہیں ہیں۔ مسلم عناد میں غرق اس طبقہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کو اس ملک میں نہیں رہنا چاہئے کیونکہ انہوں نے اپنا حق لے لیا ہے۔ اب انہیں پاکستان چلے جانا چاہئے۔ یہ بات کبھی اس طبقہ کے گھروں میں کی جاتی رہی ہوگی لیکن اب یہ باتیں کھلے عام ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے علاوہ چوک چوراہوں پر کسی بھی احساس جرم و شرم کے بغیر کی جاتی ہیں کیونکہ آج اس ملک میں اس نظریہ کو غلبہ حاصل ہے جس کے ماننے والوں کا ملک کی آزادی میں قابل ذکر کردار نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس ان کے فکری قائدین نے اس ملک پر طاری سامراجی قوت کا ساتھ دیا اور آزادیٔ ہند کی خاطر اپنے کسی ادنی عمل کی خاطر معافی نامہ بھی پیش کرنے سے باز نہیں آئے۔ اس کے برعکس اس ملک کی آزادی کی جنگ میں مسلمانوں نے اول دن سے ہی عظیم قربانیاں پیش کیں اور مادر وطن کی عظمت پر کبھی عار و شنار کا معمولی داغ بھی لگنے نہیں دیا۔ آزادیٔ ہند کی راہ میں لڑی جانے والی جنگوں کی تاریخ کے تمام ادوار کا تفصیلی جائزہ اس مختصر مضمون میں تو ممکن نہیں ہے لیکن جستہ جستہ بعض اہم تاریخی ادوار اور ان میں مسلمانوں کی شاندار اور قابل فخر و ناز تاریخ کی چند جھلکیاں پیش کی جاسکتی ہیں۔
ہندوستان کی تاریخ آزادی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ انگریزوں نے سب سے پہلے بنگال پر اپنا قبضہ جمایا تھا۔ بنگال پر قبضہ جمانے سے قبل دو معروف جنگیں ہوئیں جن کو ہم جنگِ پلاسی (1757) اور بکسر کی جنگ (1764) کے نام سے جانتے ہیں۔ انہی دونوں جنگوں کے بعد انگریزوں کا ہندوستان پر ادارتی اور اقتصادی قبضہ ہوگیا تھا جس کے بعد انگریزوں نے بنگال کو اس بے رحمی سے لوٹنا شروع کیا کہ 1770 کے آتے آتے وہاں شدید بھکمری کی نوبت آگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بنگال کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی لقمۂ اجل بن گئی۔ انگریزوں کی اس لوٹ اور ان کے استعماری ڈیزائن کے خلاف بنگال میں سب سے پہلی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی جس میں ہندو سنیاسی اور مسلم فقیر شامل ہوئے جب کہ اس تحریک کی قیادت ایک مسلم صوفی مجنوں شاہ نے کی جن کا تعلق کانپور سے تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے صوفی شاہ حمیدالدین کے مشورہ پر غریب کسانوں کے حق کی خاطر میدان میں اترنا قبول کیا تھا۔ یہ تحریک 1763 سے لیکر 1786 تک جاری رہی اور انگریزوں اور ان کے حامی جاگیر داروں کے لئے درد سر بنی رہی۔ 1786 میں مجنوں شاہ کی موت کے بعد موسی شاہ نے اس تحریک کو قیادت فراہم کی۔ اس تحریک میں بھوانی پاٹھک جیسے سنیاسی لیڈر بھی شامل تھے لیکن انگریزوں کی نظر میں مجنوں شاہ سب سے بڑا خطرہ تصور کئے جاتے تھے کیونکہ وہ ہندو مسلم اتحاد کی مضبوط علامت بن گئے تھے جن کی قیادت میں دونوں مذاہب کے لوگ متحد ہوکر انگریزوں کے خلاف لڑتے تھے۔ انگریزوں نے مجنوں شاہ کی تحریک کو انجام کار کچل دیا تھا لیکن قومیت کا جو جذبہ انہوں نے ہندوستانیوں کے دلوں میں پیدا کیا تھا وہ پھر کبھی سرد نہیں پڑا۔ مسلم فقیروں کی یہ تحریک پورے طور پر ختم نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کی اور مراٹھا و دیگر انگریز مخالف تحریکوں میں شامل ہوگئے۔ 1806 میں ویلور میں انگریزوں کے خلاف جو بغاوت ہوئی تھی اور جس کو ہولکر، ٹیپو سلطان کے بیٹے اور نظام حیدرآباد کے بھائی نے مل کر انجام دیا تھا اس بغاوت میں بھی مسلم فقیروں کا اہم کردار تھا۔ ان فقیروں میں شیخ آدم، پیرزادہ، عبداللہ خان، نبی شاہ اور رستم علی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ واضح رہے کہ ویلور کی بغاوت کو 1857 کی پہلی ملک گیر جنگ آزادی کے لئے بطور تخم اول کے جانا جاتا ہے۔
فقیروں کی تحریک کے بعد انگریزوں کو دوسرا بڑا چیلنج ان تحریکوں کی شکل میں پیش آیا جن کی قیادت سید احمد بریلوی، حاجی شریعت اللہ اور ٹیٹو میر کر رہے تھے۔ 1831 میں سید احمد بریلوی کی شہادت کے بعد ان کے رفقاء میں سے پٹنہ کے عنایت علی اور ولایت علی نے قیادت سنبھالی اور سرحدی علاقوں میں ہزاروں انگریزوں کی موت کا سبب بنے۔ بنگال میں حاجی شریعت اللہ کے صاحبزادہ دودو میاں نے تحریک جاری رکھی۔ اس تحریک کو فرائضی تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ ٹیٹو میر نے عوام کی مدد سے بڑی تحریک چلائی اور انگریزوں کے حمایت یافتہ جاگیرداروں کے خلاف شدید مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا اور 1831 میں انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ ان کے سینکڑوں حامی قید کر لئے گئے اور پھانسی کی سزا پائی۔ ان میں ٹیٹو میر کے نائب غلام معصوم بھی شامل تھے۔ سید احمد بریلوی کی تحریک انگریزوں کے لئے مسلسل سب سے بڑا خطرہ بنی رہی۔ ان کے بعد بھی عنایت علی اور ولایت علی کے علاوہ ان کے دیگر رفقاء جیسے کہ کرامت علی، زین الدین، فرحت حسین وغیرہ نے انگریزوں کے خلاف مسلح جنگ جاری رکھی۔ پٹنہ میں جب 1857 کی بغاوت کی خبر پہنچی تو تمام نامور مسلم لیڈران کو قید کرلیا گیا اور اس لئے انہیں کوئی اقدام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے باوجود پیر علی، وارث علی اور دیگر مسلم انقلابیوں نے پٹنہ میں بغاوت کا اعلان کیا اور اسی کی پاداش میں تختۂ دار پر لٹکا دیئے گئے۔
1857 کی بغاوت سے قبل 1838 میں مبارزالدولہ کو انگریز حکومت کے خلاف ملک گیر بغاوت پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ مبارزالدولہ کو راجہ رنجیت سنگھ، ستارا، جودھپور، بھوپال، پٹیالہ، روہیلا پٹھان اور کئی نوابوں، راجاؤں اور جاگیرداروں کی حمایت حاصل تھی۔ 1845 میں بھی ایک ملک گیر بغاوت کا پلان تیار کیا گیا تھا جس کے روح رواں خواجہ حسن خاں، ملک قدم علی، سیف علی اور بہار کے کنور سنگھ تھے۔ اس منصوبہ کو بہادر شاہ ظفر، سندھیا اور نیپال نریش کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن غداران وطن کی جاسوسی کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہوگئی تھی۔ 1857 کی بغاوت میں مسلمانوں کا جو شاندار کردار تھا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ ہندو مسلم اتحاد اس بغاوت کا امتیازی وصف تھا جس نے انگریزوں کے ہوش اڑا دیئے تھے اور اس کے بعد ہی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ اسی پالیسی پر آج کے ہندوستان میں سنگھ پریوار گامزن ہے۔ 1857 کی بغاوت کے لئے مولوی احمداللہ، فضل حق خیرآبادی، امدادللہ مہاجر مکی، نانا صاحب کے رفیق عظیم اللہ خان نے عوام و خواص کے ذہن کو بطور خاص تیار کیا تھا۔ اس بغاوت کی قیادت شیخ پیر علی، امیر قدرت علی، شیخ حسن الدین اور شیخ نور محمد کر رہے تھے۔ جن 85 سپاہیوں نے 10 مئی 1857 کو میرٹھ میں سب سے پہلے بغاوت کا پرچم بلند کیا تھا ان میں آدھے سے زیادہ مسلمان تھے۔ بہادر شاہ ظفر کو شہنشاہ ہند قرار دے کر ان کی قیادت کو تسلیم کیا گیا اور دلی کو آزاد کرایا۔ لکھنؤ میں بیگم حضرت محل نے انگریزوں کے خلاف محاذ کو سنبھالا اور لمبی مدت تک انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ مولوی احمداللہ کی بہادری سے تو ساورکر بھی اس قدر متاثر تھا کہ اس نے اپنی کتاب میں کئی صفحات ان پر رقم کیا ہے۔ اس کے علاوہ شاملی اور تھانہ بھون کے میدان میں مولوی امداداللہ نے حضرت قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی کے ساتھ مل کر زبردست معرکہ آرائی کی اور شاملی و تھانہ بھون کو آزاد کرالیا لیکن بعد میں شکست نصیب ہوئی۔ گویا جھجھر کے نواب عبدالرحمن ہوں یا کنور سنگھ کے معتبر رفیق ذوالفقار یا ان کی مختصر حکومت کے ذمہ داروں میں شیخ غلام یحی، شیخ محمد عظیم الدین، تراب علی اور خادم علی پسران دیوان شیخ افضال ہوں ہر محاذ پر مسلمانوں نے اپنا اہم کردار نبھایا ہے۔ 1863 کی بغاوت میں قبائلیوں کو مالی مدد فراہم کرانے والے جعفر تھانیسری ہوں یا تحریک ریشمی رومال کے مولانا محمود الحسن ہوں۔ مولانا برکت اللہ ہوں یا عبداللہ سندھی۔ جزیرئہ مالٹا کے شہداء ہوں یا انڈمان کے قیدی۔ ہر جگہ مسلمان نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ 1885 میں کانگریس کے قیام کے وقت بھی بدرالدین طیب اور رحمت اللہ سیانی موجود تھے جنہوں نے کانگریس کی قیادت کی۔ ایم اے انصاری، حکیم اجمل خاں، مولانا حسرت موہانی اور مولانا آزاد سب نے آزادی میں اپنا ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ ملک سے باہر جب سبھاش چندر بوس نے حکومت اور فوج کو قائم کیا تو بھی شاہنواز اور عابد علی جیسے بیشمار ممتاز مسلم لیڈران اور سپاہی شامل رہے۔ گاندھی جی جب ساؤتھ افریقہ میں تھے تب بھی ان کے سیکڑوں رفقاء مسلمان تھے اور ہندوستانیوں کے حقوق کے لئے لڑ رہے تھے۔ جب وہ ہندوستان تشریف لائے تب بھی ہر قدم پر مسلم لیڈران ان کی معیت اور قیادت میں رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں ہندوستانی لڑ رہے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کا سلسلہ تو بہت بعد میں شروع ہوا۔ مسلمانوں کا رول ہندوستان کی جنگ آزادی میں کتنا اہم ہے اس کا اندازہ جنگ آزادی کے شہداء پر محیط اس ڈکشنری سے لگایا جاسکتا ہے جس کا رسم اجراء خود وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں کیا تھا۔ اس ڈکشنری کے مطابق 1857 سے 1947 کے درمیان ملک کی آزادی کی راہ میں شہید ہونے والوں میں 30 فیصد مسلمان ہیں۔ آج اسی حکومت میں مسلمانوں کو غدار وطن بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کی مذہبی آزادی چھینی جاتی ہے، انہیں اقتصاد و معاشیات اور سیاسی میدان ہر جگہ سے بے دخل کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ مسلم خواتین کی عزت و آبرو داؤ پر ہے اور ان کی تعلیم و ترقی کی راہیں مسدود کی جارہی ہیں۔ جس دستور ہند میں ان کے حقوق کی گارنٹی دی گئی تھی اسی کو بے معنی بنایا جا رہا ہے۔ یہ سارے مسائل اشارہ کر رہے ہیں کہ آج کا ہندوستان مسلمانوں کے حق میں ظلم و نا انصافی کی راہ پر گامزن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو باوقار زندگی گزارنے کے وہ تمام مواقع یکساں طور پر مہیا کرائے جائیں جو بطور شہری اس ملک کے تمام لوگوں کا دستوری حق ہے۔ جس مسلمان کی قربانیوں کی فہرست اتنی طویل ہو اس کی حب الوطنی پر سوال کھڑا کرنا تاریخ کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق کے مترادف ہے۔ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے اور وہ ہر ظلم کا حساب لینا جانتی ہے۔n
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]