(محمود حسن دیوبندی اور عبیداللہ سندھی)
ازقلم: امام علی فلاحی ۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔
تحریک ریشمی رومال وہ تحریک تھی جس کے بانیاں محبان وطن علماء تھے، اس تحریک میں جس ایک ہستی کانام سب سے اوپر آتا ہے وہ تھے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی رحمہ اللہ تھے، ان کے علاوم مولانا عبید اﷲ سندھی رحمہ اللہ، مولانا شاہ رحیم رائے پوری رحمہ اللّٰہ، مولانا محمد صادق رحمہ، مولانا محمد میاں منصور انصاری رحمہ اللہ بھی اس تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔
حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کا نام جب لیا جاتا ہے تو یکایک غیر شعوری طور پر ایک انجانے جوش سے بدن کا رواں رواں سرشار ہوجاتا ہے ، آپ نے دارالعلوم دیوبند ہی میں تعلیم حاصل کی اور 1290ء میں منعقد ہونے والے پہلے عظیم الشان جلسہ دستار بندی میں وقت کے اکابر و معظم علماء کے ذریعے آپ کو دستار فضیلت عطاء ہوئی اور 1292ء میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کا باقاعدہ طور پر مدرس بنادیا گیا، پھر سینکڑوں تشنگانِ علوم نبوت نے آپ سے استفادہ کیا اور پورے بر صغیر میں آپ کی شہرت و قابلیت کا ڈنکا بجنے لگا۔
لیکن ایک بات یاد رہے علم و عمل کی مسند سجانے اور اشاعت علوم نبوت کے میدان میں اپنا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ احوال زمانہ سے کبھی غافل نہ رہے بلکہ انہوں نے دیوبند کی چٹائیوں پر بیٹھ کر پورے عالم کے حالات پر نظر رکھی، کو شبہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ زاہد فی الدنیا بزرگ جسکی ظاہری زندگی مسجد و مدرسے تک ہی محدود ہے وہ کسی بین الاقوامی تحریک کی بھی قیادت کر سکتا ہے اور حکومت کی بنیادیں ہلا سکتا ہے یہ بات شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ گزری تھی مگر آگے جاکر وقت نے بتا دیا کہ یہی وہ مجاہد شخص تھا جو دسیوں سال دیوبند میں بیٹھ کر خلافت عثمانیہ کے خلاف انگریزی ریشہ دوانیوں، بلقان و طرابلس کی خوں چکا داستانوں اور عالم عرب پر انگریزی چیرہ دستیوں پر کرب کی حالت میں راتوں کو کروٹیں بدلتا رہا اور جس نے بلا آخر “کود پڑا آتش نمرود میں عشق” کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالم اسلام کو انگریز سے نجات دلانے کے لئے ایک تحریک کا منصوبہ بنایا جسے بعد میں تحریک شیخ الہند یا تحریک ریشمی رومال سے موسوم کیا گیا۔
یہ تحریک کیا تھی؟ اسکا نام تحریک ریشمی رومال کیوں پڑا؟ اسکا مقصد کیا تھا؟
تحریک ریشمی رومال (Silk Letter Movement) جنگ آزادی کی وہ تحریک تھی جس میں دیو بند کے علماء ایک ایسی تحریک کو حتمی شکل دینا چاہ رہے تھے جس میں ترکی، جرمنی اور افغانستان کی مدد سے ہندوستان پر قابض برطانوی فوج پر حملہ کرکے انہیں زیر کرنا اور ملک سے مار بھگانا تھا۔ مگر بدقسمتی کہیں یا چند ایک ہندوستانیوں کی قوم سے غداری پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل ہی برٹش حکمرانوں کو اس کی بھنک لگ گئی اور اس میں پیش پیش تمام علماء بشمول مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا محمود حسن کو گرفتار کرلیا گیا۔
اکتوبر1915ء میں جب پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت پھنسی ہوئی تھی، مولانا محمودحسن جو اس وقت دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے ان کے شاگرد مولانا عبید اﷲ سندھی نے افغانستان کا رخ کیا ، ان کا مقصد ہندوستان کے قبائلی علاقوں میں مسلمانوں کو برٹش حکومت کی ہند مخالف کارناموں سے آگاہ کرکے انہیں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کیلئے تیار کرنا تھا۔
حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کی اگر بات کی جائے تو انکی مبارک ہستی رحمتِ خداوندی بن کر لاکھوں رحمتیں سموئے ہوئے اس دنیا ظلمت میں تشریف لائی تھی، آپ نے جب آنکھ کھولی تو خود کو غلامی کے ہزاروں زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا، عقیدے میں غلامی، سیاست میں غلامی، معاشرت میں غلامی، تعلیم و تعلم میں غلامی، تہذیب و ثقافت میں غلامی غرض جہاں دیکھا وہاں ان انقلابی نظروں کو غلامی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔
سکھ گھرانے میں جنم ہوا جب دیکھا کہ فطرت ایسی نہیں ہوسکتی۔ انسان چند رسومات کا غلام اور عقل سلیم رکھتے ہوئے وساوس کے گھیراؤ میں بندھا ہوا نہیں ہوسکتا۔ نئے راستوں کی تلاش کے ماہر اور ان پر چلنے کا حوصلہ اور طاقت رکھتے تھے اور سلمان فارسی کی اقتداء میں سچ کی تلاش شروع کی۔ قدرت نے انہیں ”تحفت الہند“ جیسے تحفے سے نوازا جس کی بدولت روح اسلام کی حقانیت دل میں منور ہوئی، اور محض چودہ برس کی عمر میں عقیدے کی غلامی سے نجات پائی اور بوٹا سنگھ سے عبیداللہ بن گئے۔
ماں کا پیار، بہنوں کی شفقت اور گھر بار کے سکھ چین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔ کچھ مدت کے لئے ادھر ادھر رہنے کے بعد تحصیل علم کی غرض سے سندھ روانہ ہوئے اور حضرت صدیق رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس کے بعد دیوبند چلے گئے اور اللّٰہ نے حضرت شیخ الہند جیسے استاد کی صحبت سے نوازا، وہاں سے فراغت کے بعد واپس سندھ تشریف لے گئے اور ایک مدرسے کا قیام عمل میں لایا۔ چند سال سندھ میں رہنے کے بعد شیخ الہند رحمہ اللہ کے حکم پر ایک بار پھر دیوبند حاضر ہوئے اور وہاں نوجوانوں میں ”اسرار دین“ اور ”انقلابی“ تعلیم کا شوق و جذبہ پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
شیخ الہندؒ نے آپ ہی کو (عبید اﷲ سندھی) افغانستان کے امیر کے پاس بھیجا جنہیں اس بات پر راضی کرنا چاہتے تھے کہ وہ برطانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔
جبکہ مولانا محمود حسن خود ترک کے خلیفہ غالب پاشا کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اس وقت سعودی عرب کے دارالحکومت حجاز چلے گئے جہاں سے ترکی جانا تھا۔
خلیفہ غالب پاشا سے انہوں نے نہ صرف ملاقات کی بلکہ برٹش حکومت مخالف جنگ کیلئے ان کا دستخط شدہ اعلامیہ حاصل کرلیا، وہاں سے شیخ الہند بغداد اور بلوچستان ہوتے ہوئے سرحدی علاقہ پر پہنچنا چاہتے تھے۔ ادھر کابل میں عبید اﷲ سندھی کے کئی طلباء بھی جا ملے جو ترک خلیفہ کے برطانیہ مخالف جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے۔
بہر حال! ان تمام علماء کی یہ تمام کاوشیں رنگ لارہی تھیں۔ ترک، جرمن حتی کہ مصر کے عباس حلمی بھی اس مشن کا ساتھ دینے کیلئے تیار تھے، ان تمام کی کوشش یہی تھی کہ امیر افغانستان کو برٹش انڈیا کے خلاف جنگ کیلے کھڑا کیا جائے۔ یہ افغان حکومت سے اپنے فری پاس کے حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ اپنی کوششوں میں کافی حد تک کامیاب ہورہے تھے مگر اس سے قبل کہ شیخ الہند سرحدی علاقہ پر پہنچتے کہ ان کا ایک خط ایک ہندوستانی غدار نے برطانوی حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک برٹش گورنر کو سونپ دیا۔ پھر کیا تھا؟ حضرت مولانا محمود حسن( شیخ الہند) کو مکہ میں گرفتار کرلیا گیا۔)
یہ تحریک بھلے ہی عملی شکل نہ لے سکی مگر شیخ الہندؒ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہے، انہوں نے نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم تیار کرلی جن کے دلوں میں وطن عزیز پرمرمٹنے کا، وطن کی آزادی کیلئے جام شہادت نوش کرلینے کا بیحد مضبوط جذبہ پیدا ہوچکا تھا جو بعد کی برٹش مخالف تحریکوں میں کھل کر سامنے بھی آیا۔
چونکہ یہ پورا پلان ریشم کے کپڑے کے رومال پر تحریر کرکے ایک دوسرے تک پہنچایا جارہا تھا، اس لئے اسے ریشمی رومال تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس پلان کے مطابق برٹش حکومت کے خلاف ایک فوج کھڑی کرنی تھی اور برٹش مخالف بین الاقوامی طاقتوں کی مدد سے انہیں شکست فاش کرکے ایک قومی حکومت تشکیل دینی تھی۔