اوسلو معاہدے کے جال میں الجھی فلسطینی قیادت

0

شاہنواز احمد صدیقی
1993 میں جب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدہ ہوا تو پوری دنیا میں امید جاگی کی شاید یہ سنگین مسئلہ حل ہو جائے اور لاکھو کروڑوں فلسطینی جو کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بے سر وسامانی کی زندگی گزار رہے ہیں اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور ان مظلوموں کی زندگی ایک مرتبہ پھر معمول پر آ جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ امیدوں کے بر خلاف اسرائیل نے اس معاہدے کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنے وجود کو ثابت کرکے عالمی برادری سے منظوری حاصل کر لی اور سفارتی مراسم قائم کر لیے، اپنی تجارت اور معیشت کو مضبوط بنا لیا مگر سمجھوتے کے تقریباً 30سال گزرنے کے بعد آج فلسطینی بے سروسامانی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو خود مختاری دینے اور دو ریاستی فارمولے پر عمل آوری کا جو وعدہ کیا تھا اس وعدے پر وہ قائم نہیں رہ سکا ، دراصل ان وعدوں پر وہ قائم رہنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اس سمجھوتے کے ذریعہ اسرائیل تو انتقاضہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا جو اس لیے درد سر بن گیا تھا۔ معربی کنارہ اور غزہ کے پٹی دو الگ الگ خطے ہیں جن کا کوئی زمینی یا فضائی رابطہ نہیں ہے۔ دونوں علاقوں میں فلسطینیوں کی الگ الگ پارٹیوں کی انتظامیہ قائم ہے جو باہم متصادم ہیں۔ فلسطین کے مقبول ترین لیڈر یاسر عرفات کی موت کی بعد قیادت کا بحران صاف دکھائی دے رہا ہے۔ اسرائیل اپنی عزائم کو جنگ یا سمجھوتے اور بعض اوقات دونوں طریقے استعمال کر پورا کر رہا ہے۔ 1993 میں اوسلوے معاہدہ کرکے اس نے اپنا وجود مضبوط بنایا اور یاسر عرفات جیسے انقلابی لیڈر کو مغربی کنارے تک محدود و محصور کر دیا۔ دراصل یہ المیہ یاسرعرفات کی موت سے بڑا المیہ تھا۔ یاسر عرفات کے ساتھ مغربی کنارے میں کیا ہوا یہ سب کو معلوم ہے ان کو اپنے ہی دفتر اور رہائشی اور احاطہ میں مقید کر دیا گیا تھا۔ ان کی مشتبہ حالات میں موت ہوئی ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے ان کو سلو پوائزن دے کر ان سے چھٹکارا حاصل کیا گیا، اور وہ فرانس کے ایک اسپتال میں علاج کے دوران جاں بحق ہو گئے اس کے بعد محمود عباس صدر بنائے گئے۔ خیال رہے وہ کسی ملک کے صدر نہیں بلکہ دو چھوٹے سے خطوں کی محددود انتظامیہ کے سربراہ تھے جس کا دائرہ کار کسی بھی شہر کی بلدیاتی اکائی سے زیادہ نہیں تھا۔ محمود عباس یاسر عرفات کی موت کے بعد سے آج تک اسی ’عظیم عہدے‘ پر فائز ہیں جو یاسر عرفات خالی کر کے گئے تھے۔ محمود عباس کی عمر 85 سال سے زائد ہوچکی ہے۔ وہ ضعیف ہو گئے ہیں مگر ابھی تک اپنے اسی عہدے سے چپکے ہوئے ہیں ۔ جب اسرائیل غزہ کی پٹی میں جو کہ ان کے زیر اقتدار علاقہ ہے بم باری کرتا ہے تو وہ ’اف‘ تک نہیں کر پاتے یا یوں کہیں کہ ان کی ’اف‘ چہار دیواری سے باہر نہیں آ پاتی ہے۔ ایسے حالات میں کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے عوام کے جذبات ، ان کے ضروریات اور سب سے اہم ان کے تحفظ کے لیے کچھ کرے گی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں خطوں میں سرگرم فلسطینی جنگجو ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگی کارروائیوں میں شریک ہوتے ہیں ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑتی ہے اسرائیل کی سفاک فوج موساد جیسی خفیہ ایجنسیوںکے ذریعہ اپنے حریفوں کو ٹھکانے لگواتے ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل نے جو فوجی کارروائی کی وہ فلسطینیوں کی اپنی اسی مخبری اور اپنے موقف سے بے وفائی کا نتیجہ ہے جس کی طرف کئی مجاہدین آزادی نے اپنی شہادت سے قبل اشارہ کیا ہے۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ پوری فلسطینی عوام اور قیادت بے دستہ و پا ہے تو دوسرے جانب اسرائیل کے اندر کی سیاست اس قدر منظم اور بیدار ہے کہ تمام اختلافات کے وبائوجود تمام متصادم لیڈر اپنی اصل مقصد یعنی فلسطینیوں کو نیست و نابود کرنے کے اپنے مقصد پر انتہائی مستقل مزاجی کے ساتھ عمل پیراں ہیں۔ ان کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ پوری دنیا سے چن چن کر یہودیوں کو اسرائیل میں بسا رہے ہیں ۔ نسل پرستی کی بدترین مثال پیش کرتے ہوئے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں وہ کھیل کھیلا جا رہا جس سے تمام عالمی طاقتوں نے آنکھ موند رکھی ہے۔ اسرائیل کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ وہ ان حالات میں بھی پڑوس کے عرب ملکوں کے ساتھ فوجی معاہدہ کرنے کی تگ ودو میں لگا ہوا ہے۔ کئی ممالک کے ساتھ تو وہ سمجھوتے کر چکا ہے۔ (ملاحظہ کریں صیہونی ریشہ دوانیا…) اسرائیلی فوجی ان ممالک میں سرگرم ہیں ، اسرائیل کے خفیہ ادارے پل پل کے خبر ان ملکوں سے پہنچا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی صدر نے جب اسرائیل کا دورہ کیا تو اس دوران ناٹو کے طرز کے سمجھوتے کی بات ہوئی جس کو اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے موخر کر دیا گیا ہے، اس طریقہ سے امریکہ روس کو اس خطہ میں دخل اندازی سے روکنا چاہتا ہے تو دوسری جانب اسرائیل اپنے حریفوں بطور خاص ایران اور اس کے ہم خیال تنظیموں اور اداروں کو قابو میں کرنا چاہتا ہے۔ پوری دنیا جو مسئلہ فلسطین کو حل کر نے کے لیے مسلسل زور دیتی اور آنسو بہاتی دکھائی دیتی ہے۔ پھوٹے منھ اسرائیل کی مذمت کرنے اور اس کے عزائم کو روکنے میں نا کام ہیں۔
mrm

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS