اپوزیشن اتحاد کی باتیں جتنی ہوتی ہیں ، زمینی حقیقت اتنی ہی برعکس نظر آتی ہے۔صدرجمہوریہ اورنائب صدر جمہوریہ کے انتخابات کے بعد تو کم از کم کوئی نہیں کہہ سکتاکہ اپوزیشن کے درمیان اتحاد اوران کی کوئی اجتماعی طاقت ہے ۔دونوں انتخابات سے پہلے اپوزیشن کے اتحاد کے دعوے کئے جارہے تھے اورانہوں نے باقاعدہ میٹنگیں کرکے اپنے امیدوار کا اعلان کیا ، لیکن اتحاد کادعویٰ صرف میٹنگوں تک نظر آیا، انتخابات میں کھوکھلاثابت ہوا۔صدارتی انتخابات میں کسی نہ کسی بہانے نصف درجن سے زیادہ اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن سے پہلے ہی این ڈی اے کی امیدوار دروپدی مرمو کی حمایت کا اعلان کردیا اور جو جماعتیں آخرتک اپوزیشن امیدوار یشونت سنہا کی حمایت کرتی رہیں، ووٹنگ کے وقت پتہ چلا کہ ان کی گرفت خود اپنی پارٹی پر نہیں ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں 13 ریاستوں کے سواسو سے زیادہ ممبران اسمبلی نے این ڈی اے امیدوار کے حق میں کراس ووٹنگ کی ۔اس کی وجہ کچھ بھی ہو، بظاہر یہی کہا جائے گا کہ بی جے پی اپوزیشن اتحاد میں سیند لگانے میں کامیاب رہی ۔صدارتی انتخاب دلچسپ ہوسکتاتھا، اگر اپوزیشن کے درمیان اتحاد ہوتا،لیکن پہلے تو جس کانام امیدواری کیلئے سامنے آرہا تھا ، وہی الیکشن لڑنے سے انکار کر رہاتھا۔ بعد میں یشونت سنہا کا نام طے ہوا اور وہ الیکشن کیلئے راضی ہوئے تو این ڈی اے امیدوار کا نام سامنے آتے ہی پورا کھیل بدل گیا۔اپوزیشن پارٹیاں منتشر ہونے لگیں اورجو کسر رہ گئی تھی ، کراس ووٹنگ نے پوری کردی۔ دروپدی مرموکو این ڈی اے کی طاقت کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ووٹ ملے۔اگرتمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوتیں تو جیت مشکل سے ہوتی کیونکہ اعدادوشمار کچھ ایسے تھے کہ این ڈی اے اوراپوزیشن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔البتہ نائب صدر کے انتخاب میں این ڈی اے کا پلڑا پہلے سے بھاری تھااوراس کے امیدوار جگدیپ دھنکھڑ کی جیت طے تھی ،لیکن اس میںبھی اپوزیشن پارٹیاں منتشر نظر آئیں۔
صدارتی انتخاب میں اپوزیشن پارٹیاں اس لائق تھیں کہ وہ امیدوار اتارکر مقابلہ کرسکتی تھیں، لیکن نائب صدر کاانتخاب وہ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ پھر بھی امیدوار اتارکر یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ وہ متحد ہیں اورانتخاب لڑسکتی ہیں ۔ پہلے صدر میں اوربعد میں نائب صدر کے انتخابات میں اپوزیشن کا اتحاد مذاق بنا ، جس کی ذمہ داروہ خود ہیں ۔کئی باتیں نظر آئیں ۔ایک تو اپوزیشن کے پاس انتخابی حکمت عملی کا فقدان تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنے امیدوار کو مضبوطی سے پیش نہیں کرسکیں ۔دوسرے ان سے امیدوار کے انتخاب میں کہیں نہ کہیں غلطی ہوئی جس کی وجہ سے ان کا مظاہر ہ بہت خراب رہا ۔تیسری بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ دعوے خواہ کچھ کئے جائیں، اپوزیشن پارٹیاں منتشر ہیں ۔ان کے اپنے سیاسی مفادات کی وجہ سے کسی بھی الیکشن میں متحد ہونا آسان نہیں ہے ، صورت حال پہلے سے زیادہ بگڑتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔تب ہی تو نائب صدر جمہوریہ کے سابقہ انتخابات سے زیادہ دگرگوں حالت اس بار کے انتخابات میں تھی ۔سابقہ انتخابات میں اپوزیشن امیدوار کو 244 ووٹ پھر بھی مل گئے تھے ، اس بار صرف 182ووٹ ملے ۔جبکہ نائب صدرجمہوریہ کے الیکٹورل کالج یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھامیں اپوزیشن کے پاس اس سے کہیں زیادہ طاقت ہے ۔
ایسے میں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیااپوزیشن کوکسی ایک کاز کیلئے متحد کیا جاسکتاہے ؟ کیا وہ حکومت کے خلاف متحد ہیں یا آپس میں ایک دوسرے کیلئے مخالف پارٹیاں ہیں ؟کیونکہ پارلیمنٹ کے اندر اورباہر کہیں بھی ان کے درمیان کسی کاز کیلئے اتحاد نظر نہیں آتا ۔سبھی منقسم ہیں اورمنقسم رہنا چاہتی ہیں ۔اگر کبھی اتحاد کی بات آتی ہے تو سیاسی مفادات دیوار بن کر حائل ہوجاتے ہیں ۔اس سے حکمراں اتحاد این ڈی اے اورمرکز کی مودی سرکار کا کام آسان ہوجاتاہے۔ سرکاربھی یہی چاہتی ہے ۔
[email protected]
اپوزیشن پارٹیاںمتحد یا منتشر؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS