محمد ابوبکر عابدی قاسمی ندوی
اسلام ایک آفاقی و عالم گیر مذہب ہے، جس کی جملہ تعلیمات نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے امن وامان کی ضامن ہیں، اسلام میں جہاں ایمان و یقین، زہد و تقویٰ، عفت و پاک بازی، شرم و حیا، تزکیہ نفس اور عدل وانصاف کی ترغیب ہے وہیں تمام رزائل سے دور رہنے کی بھی تعلیم ہے ۔ اس لیے روز اول سے ہی اسلام کی روشنی اتنی تیزی پھیلی کہ دنیا والے حیرت میں پڑگئے، جس کی وجہ سے معاندین اسلام نے اپنے قلب و جگر میں نفرت و عداوت کے شعلے کو چھپاکر پروپیگنڈہ کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ مذہب اسلام بزورِ شمشیر پھیلا ہے؛ لیکن جب ہم تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اسلام بزورِ شمشیر نہیں بلکہ مکارم اخلاق سے پھیلا ہے ۔
ہجرت سے قبل اسلام کی تبلیغ ظلم و زیادتی، جبر وتشدد اور زبردستی کے جس معاندانہ ماحول میں ہوئی وہ انسانی تاریخ کی دردناک و تابناک مثال ہے۔ اسلام کا آغاز مظلومیت، بیچارگی اور بے بسی سے ہوا، قریش اور یہود ونصاریٰ سب مخالف تھے، اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہوا کہ پہلے اس کا آغاز اپنے گھر سے نرمی کے ساتھ کیجیے اور اگر وہ نہ مانیں تو ان کو اپنے حال پہ چھوڑ دیجیے،( چنانچہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ایمان لائیں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا، اس کے بعد آپ کے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے، اور قریش کے سرداروں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق آپ کے گرویدہ ہوئے ۔ یہ سب ابتداء اسلام میں بغیر زور زبردستی کے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ اس طرح تین سال تک خفیہ طور پر اپنے اوپر ظلم و ستم سہہ کر اور طرح طرح کی پریشانیوں کو برداشت کرکے مکہ کی گلی کوچوں میں تبلیغ کرتے رہے، پھر جب حضرت عمر اور ان کے گھر والے مشرف بہ اسلام ہوئے تو اسلام کی قوت بڑھی، اور مسلمان کھلم کھلا عبادت کرنے لگے، جس سے غیر مسلموں کا اشتعال مزید بڑھ گیا؛ جس کی وجہ سے ان لوگوں نے بنو ہاشم کا مقاطعہ شروع کردیا، جس سے پریشان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجبوراً گھر بار چھوڑ کر اپنے فدائیوں کے ساتھ تین سال تک شعب ابی طالب کی گھاٹی میں پناہ گزیں رہے، تین سال بعد اپنے گھر واپس تشریف لائے، پھر آپ مکہ مکرمہ سے باہر نکل کر تبلیغ کے لئے زید بن حارثہ کے ساتھ طائف تشریف لے گئے؛ جس کی درد بھری داستان سے تمام اہل علم واقف ہیں ۔ ادھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کفار و مشرکین کے مظالم سے تنگ آکر حضور اکرم کے حکم سے حبشہ ہجرت کرگئے، ان ناساز گار حالات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ جاری رہی اور رفتہ رفتہ بنو ہاشم، موالی بنو ہاشم، بنو عبد شمس وغیرہ کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا، ان کو مختصر طریقے سے دہرانے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے سامنے حقیقت حال واضح طور پر سامنے آجائے کہ ظالم و جابر اور عدم روادار کون تھا اور کون مظلوم و مجبور اور روادار تھا ؟
ہجرت کے بعد جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے، تو قریش مکہ نے مدینہ منورہ کو برباد کرنے کا عزم مصمم کرلیا، اس وقت مسلمانوں کے نیام سے تلواریں ضرور نکلی تھیں؛ مگر یہ ساری لڑائی ان دشمنوں کے خلاف تھیں جو حملہ آور ہوکر اسلام اور مسلمانوں کا استیصال کرنا چاہتے تھے ۔ سنہ 2 ہجری میں سب سے پہلی جنگ “جنگ بدر ” واقع ہوئی، جس میں مسلمانوں کو بے مثال فتح حاصل ہوئی ۔ جنگ بدر کے خاتمہ کے بعد دشمنانِ اسلام اسیرانِ جنگ بن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا وہ نفس و رواداری کی اعلیٰ مثال ہے، ان اسیرانِ بدر کو اسلام قبول کرنے کی زبردستی کی جاسکتی تھی اور اگر یہ لوگ اسلام قبول نہ کرتے تو ان کو قتل کیا جا سکتا تھا مگر آپ نے ایسا نہیں کیا ۔ بدر کی جنگ میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد کفار قریش میں انتقامی جذبات اور بھی ابھر گئے اور ان کا دل آتشِ انتقام سے شعلہ زن ہوگیا؛ جس کے سبب سنہ 3 ہجری میں جنگ احد کا واقعہ پیش آیا، اس جنگ میں غیر مسلم عورتوں نے مسلمان شہداء کے ناک کان کاٹ کر ان کا ہار بنا کر پہنا، آخر یہ غیر مسلم کس مذہب کے پابند تھے؟ یہ سفاکانہ سلوک ان کے مذہب کی کس تعلیم پہ محمول کیا جائے؟ اس کے مقابلے میں رسول اکرم کا جو اسوہ اس جنگ میں رہا وہ انسانیت کے سنوارنے کے لئے پیام ہے ۔ کچھ دنوں بعد سنہ 5 ہجری میں غزوہ خندق کا واقعہ پیش آیا، اس لڑائی میں کفار کی بہت سی عورتیں گرفتار ہوئیں؛ جو مسلمانوں میں تقسیم کردی گئیں، ان میں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا، جس کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کہنا شروع کیا کہ بنی المصطلق تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار ہوگئے ہیں؛ اس لیے جو لونڈی اور غلام جس کے پاس ہو آزاد کردے، چنانچہ محض اس شادی کی وجہ سے سو سے زائد آدمی آزاد کردیے گئے، یہ بھی رواداری کی ایک عمدہ مثال ہے ۔ اسی طرح سنہ 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کا واقعہ رونما ہوا، جس میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی رواداری، بردباری اور فراخ دلی کی بہترین مثال موجود ہے جس کا نمونہ مشکل سے کسی اور تاریخ میں مل سکتا ہے ۔
اشاعت اسلام اور مذہبی رواداری!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS