عبدالماجد نظامی
حال ہی میں لوک سبھا نے وزارت سیر و سیاحت کے کچھ دلچسپ اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ وزارت سیاحت کے ان اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں محبت و وفاداری کی علامت سمجھی جانے والی عمارت تاج محل کو یہ شرف حاصل رہا ہے کہ اس کی زیارت کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی ہے۔ شہنشاہ شاہجہاں اور ملکہ ممتاز بیگم کی محبت کو لازوال بنانے والی اس عمارت کو ہی یہ امتیاز بھی حاصل رہا ہے کہ یہ عمارت ہندوستان کے تمام آثار قدیمہ کے مقابلہ میں سب سے زیادہ کمائی کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تاج محل نے دہلی کے لال قلعہ کے مقابلہ پانچ گنا اور تمل ناڈو کی ماملاپورم عمارتوں اور بھونیشور کے سن ٹمپل کے مقابلہ دس گنا زیادہ آمدنی حاصل کی ہے۔ کووڈ-19کی وجہ سے سیاحتی مقامات کی زیارت پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں، ان کی بناء پر گرچہ سیاحوں نے ان مقامات کا رخ کرنا بند کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود مالی سال 2022 میں تاج محل نے25کروڑ کی آمدنی حاصل کی جو کہ مالی سال2020کے مقابلہ میں 73% کم ہے۔ ان اعداد و شمار کو پڑھتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے کہ مالی سال 2022 کی اس آمدنی کا بیشتر حصہ ہندوستانی سیاحوں کی زیارت کے نتیجہ میں جمع کیا گیا ہے کیونکہ کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں نے ہندوستان کے سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کیا جس کا سیدھا اثر تاج محل پر بھی پڑا۔ کووڈ سے قبل تقریباً 9لاکھ سیاح ہندوستان کا رخ کرتے تھے جو سال 2021 میں گھٹ کر ایک لاکھ تک رہ گئے۔ البتہ اب جب کہ کووڈ کا اثر ہلکا ہوا ہے اور سیاحوں کی کھیپ نے دنیا کے الگ الگ حصوں کا رخ کرنا شروع کیا ہے تو ہندوستان کی جانب بھی ان کی توجہ بڑھ رہی ہے اور تازہ اعداد و شمار کے مطابق مئی 2022 تک 4 لاکھ سیاحوں نے ہندوستان کی زیارت کی ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاحوں کی آمد میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر سال 70 سے 80لاکھ سیاح لازوال محبت کی شاندار علامت تاج محل کا رخ کرتے ہیں جن میں سے8لاکھ سے زیادہ زائرین بیرون ملک سے تشریف لاتے ہیں اور شاہجہاں و ممتاز بیگم کی محبت و وفاداری کو تہہ دل سے سلام و تہنیت پیش کرتے ہیں۔ کووڈ سے قبل کے ریکارڈ کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نارمل حالات میں ہر سال مقامی لوگوں کی زیارت سے40کروڑ اور بیرون ممالک کے سیاحوں سے 110کروڑ کی آمدنی تاج محل حاصل کرتا ہے۔ اس سال تاج محل سے25کروڑ کی جو آمدنی حاصل ہوئی ہے، وہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی نگرانی میں موجود تمام144 عمارتوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں تک تو اعداد و شمار پیش کرنا مطلوب تھا تاکہ ہمارے قارئین کو سرسری طور پر یہ اندازہ ہو سکے کہ سیاحت سے لگ بھگ تیس ارب ڈالر کی سالانہ آمدنی(2019 کے اعداد و شمار کے مطابق) جو ہندوستان کو حاصل ہوتی ہے، اس میں اکیلے تاج محل کا حصہ کس قدر ہوتا ہے۔ لیکن اعداد و شمار سے ذرا الگ ہوکر غور کیجیے کہ اس ملک میں جہاں ہر روز مغل تاریخ اور مغلیہ آثار کے خلاف زہر افشانی ہوتی رہتی ہے اور جس ملک میں ایک خاص طبقہ کو مغل کے نام پر گالیاں دی جاتی ہیں اور انہیں بے حیثیت بنانے اور سماج کے حاشیہ پر ڈالنے کی شب و روز کوشش ہوتی ہے، جس کوشش میں حکمراں طبقہ کے اعلیٰ ترین عہدیداران اور وزراء تک شامل ہوتے ہیں، آخر اس ملک میں مغلوں کے ہاتھوں بنی عمارتوں میں صرف بیرونی ممالک کے سیاحوں کی ہی نہیں بلکہ مقامی زائرین کی بھی دلچسپی اس قدر کیوں ہوتی ہے؟ جس عمارت کی تاریخی حیثیت بدلنے کی جی توڑ کوشش کی جاتی ہے اور محبت کی جس علامت پر یہ ظالمانہ الزام تک عائد کیا جاتا ہے کہ وہ کبھی تاجو مہالے ہوا کرتا تھا اور مغلوں نے اپنے عہد حکومت میں اس ہندو عمارت پر قابض ہوکر اس کی اصل ہیئت اور شناخت بدل دی تھی، آخر اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر لوگ اس کا رخ کرنا کیوں نہیں چھوڑتے؟ اس کا صرف ایک ہی معقول جواب نظر آتا ہے کہ محبت میں ایک خاص قسم کی کشش ہوتی ہے جو افسردہ دلوں میں بھی زندگی کی امید پیدا کر دیتی ہے۔ شاید ہندوستان کے موجودہ ماحول سے جہاں ہر طرف نفرت و تشدد کا بسیرا ہوگیا ہے، لوگ اوب چکے ہیں۔ ہندوستان کا سماج جو ہمیشہ محبت و الفت اور رواداری و غمگساری کا آئینہ ہوا کرتا تھا اور جس میں جبراً نفرت و عداوت کے الاؤ روشن کیے گئے ہیں، وہ سماج ہزار کوششوں کے باوجود محبت کی فطرت سے عاری نہیں ہوا ہے اور آج بھی جب وہ اپنے گرد و پیش میں پھیلی نفرت کی کالی سیاہ رات سے خوف و دہشت محسوس کرتے ہیں اور کسی ایسی وادیٔ الفت کا پتہ ڈھونڈتے ہیں جہاں انسانیت مجسم صورت میں نظر آتی ہو اور جس مقام پر محبت کے نغمے گونجتے ہوں تو انہیں سترہویں صدی میں قائم ہونے والا زندہ جاوید شاہکار تاج محل ہی نظر آتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نفرت کے تاجروں کی بولی سے گرچہ چند بھولے بھالے لوگ گمراہ ہوجائیں اور وہ اپنی فطری انسانیت اور صفت رحم و کرم سے دور ہوجائیں لیکن انسانوں کی عام آبادی کبھی نفرت سے متاثر نہیں ہوتی ہے۔ ان میں خدائے واحد کے ذریعہ ودیعت شدہ فطری محبت کا اثرہر حال میں زندہ رہتا ہے اور صحیح وقت آنے پر ان کی انسانیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ نفرت و بیہودگی کی تمام آلائشوں سے خود کو پاک کرکے محبت کی آغوش میں سمٹ جاتے ہیں۔ تاج محل کی آمدنی کے اعداد و شمار نے ایک بار پھر ہندوستانیوں کو للکارا ہے کہ وہ اپنی اصل سرشت کی طرف لوٹ آئیں اور برادر کشی کی تہذیب کو خیر باد کہہ دیں۔ اس میں نفرت کے ان تاجروں کے لیے بھی پیغام موجود ہے جو ہندوستانیوں کو الگ الگ نام پر مختلف خانوں میں تقسیم کرکے اپنی حکومت و اقتدار کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں اور خلق خدا کو خاک و خون میں تڑپا کر خوش ہوتے ہیں۔ ان کے لیے پتھروں کی شکل میں موجود محبت کی علامت تاج محل یہ پیغام پیش کر رہا ہے کہ دیدۂ عبرت نگاہ ہو تو دیکھو اور سمجھو کہ محبت کو کبھی زوال نہیں ہوتا جبکہ نفرت کی دنیا خواہ کتنی عظیم کیوں نہ بن جائے، ایک دن صفحۂ ہستی سے مٹ جانا اور تاریخ کے اوراق میں ایک بدنما داغ بن کر باقی رہنے کے علاوہ اس کا کچھ بھی مقدر نہیں ہوتا۔ اس میں ہم عام ہندوستانیوں کی ایک سچی تصویر بھی جھلکتی ہے کہ ہماری انسانیت ابھی زندہ ہے۔ ہم آج بھی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ نفرت کے گھونٹ ہر روز ہمیں پلائے جاتے ہیں لیکن ہماری طبیعت اس کو قبول نہیں کرتی ہے۔ ہماری جواں محبت کی حامل اسی فطرت کے صدقہ یہ ملک ہمیشہ ترقی و خیر سگالی کی راہ پر گامزن رہے گا اور نفرت کی تہذیب کو ایک دن شکست فاش ملے گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]