رواں مانسون اجلاس کا آج تیسرا دن بھی ہنگاموں کی نذر ہوگیا۔ مہنگائی پر سوالات کے جواب دینے اور ایوان میں بحث کرانے کے بجائے حکومت ان سے دامن بچاتی رہی۔ حزب اختلاف کے مسلسل احتجاج اور مظاہرہ کے باوجو د ایوان میں کھانے پینے کی چیزوں پر جی ایس ٹی نافذکیے جانے کاسوال ایجنڈہ میں شامل نہیں کیاگیا۔ اس کے برعکس وزیرخزانہ ٹوئٹ کرکے یہ بتارہی ہیں کہ جی ایس ٹی سے قبل ریاستیں کھانے پینے کی کئی اشیا پر سیلس ٹیکس عائد کرکے ہزاروں کروڑ روپے وصولتی رہی تھیں تو اب اس پر ہنگامہ کیوں ہے۔ وزیرخزانہ کا دعویٰ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں پر جی ایس ٹی لگانے کا فیصلہ جی ایس ٹی کونسل کا ہے جس میں سبھی ریاستوں کی نمائندگی ہے۔غیر بی جے پی حکمرانی والی ریاستیں مغربی بنگال، تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور پنجاب بھی جی ایس ٹی کونسل میں شامل ہیں۔ موجودہ فیصلہ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا اور یہ فیصلہ اتفاق رائے سے لیاگیا ہے۔اس سے نہ صرف قیمتیں مستحکم ہوں گی بلکہ ٹیکس چوری پر بھی قابوپایاجاسکے گا۔
اب یہ تو وزیرخزانہ ہی بہتر بتاپائیں گی کہ چاول، دودھ، دہی اور آم جیسی چیزوں کی قیمت کے استحکام کا جی ایس ٹی کے نفاذ سے کیا تعلق ہے۔اسپتال کے کمروں کے کرایہ اور بینک اکائونٹ کیلئے بینک سے جاری ہونے والے چیک بک پر10فیصد جی ایس ٹی سے کون سی ٹیکس چوری رکے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کی قیمت پر حکومتی خزانہ بھرنے کا مذموم طریقہ ہے،جس کے خلاف سڑک سے سدن تک احتجاج ہورہاہے۔ حزب اختلاف مانسون اجلاس کے پہلے دن سے ہی دونوں ایوانوں میں مہنگائی اور جی ایس ٹی کے خلاف نعرہ زن ہے۔ آج تو کانگریس ارکان نے چاہ ایوان میں اتر کر دودھ کی تھیلیوں اور گلاسوں کے ساتھ مظاہرہ کیالیکن حکومت جی ایس ٹی پر بحث کرانے سے کتراتی رہی۔ حزب اختلاف کے احتجاج کی وجہ سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی دن میں کئی بار ملتوی کرنی پڑی لیکن اس کے باوجود حکومت نے جی ایس ٹی پر بحث کوا یجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ اس کے برعکس مرکزی وزیر پیوش گوئل حزب اختلاف کو ہی الزام دیتے نظرآئے کہ وہ ہنگامہ اورا حتجاج کرکے بحث سے پہلو بچارہا ہے جب کہ حکومت ہر مسئلہ پر ایوان میں بحث کیلئے تیار ہے۔ اگر پیوش گوئل کے دعویٰ کو درست مان لیاجائے تو پھر وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ حزب اختلاف کے مطالبہ پر جی ایس ٹی پر بحث کو ایجنڈے میں کیوں نہیں شامل کیا جارہا ہے۔ حزب اختلاف کا رویہ دیکھ کر ایسا لگ رہاہے کہ وہ اس مسئلہ پر بحث کرائے بغیر حکومت کی جان بخشی پر آمادہ نہیں ہوگی۔کانگریس کے سینئر لیڈر ملک ارجن کھڑگے نے اس کا اعلان بھی کردیا ہے کہعوامی نمائندے ہونے کے ناطے اس طرح کے مسائل کو اٹھانا کانگریس کا فرض ہے اور جب تک14بنیادی چیزوں پر لگایاجانے والا جی ایس ٹی واپس نہیں لیاجاتا تب تک ان کی پارٹی لڑتی رہے گی۔
ادھر ایوان کے باہر بھی کئی سیاسی جماعتیں احتجاج کررہی ہیں۔ مغربی بنگال میں سی پی آئی ایم نے تھالی بجاکر احتجاج کیا تو اترپردیش میں سماج وادی پارٹی، بہار میں بھی راشٹریہ جنتادل جیسی پارٹیاں تازہ نافذالعمل جی ایس ٹی کی مخالفت کررہی ہیں۔ دوسری جانب ملک بھر کی تاجر برادری بھی سڑکوں پر اتری ہوئی ہے اور اشیائے خوردونوش پر 5 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ملک بھر میں کئی زرعی منڈیوں، دال مل، رائس ملز، فلور ملز اور چھوٹی ملیں چلانے والے بھی حکومت کے اس فیصلہ کی مخالفت کررہے ہیں۔بورڈ آف ٹریڈ اینڈ انڈین انڈسٹریز کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر مرکزی حکومت نے جی ایس ٹی کی شرح واپس نہیں لی تو احتجاج کیا جائے گا۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس قدم سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔حکومت درمیانے اور چھوٹے تاجروں کو ختم کرنا چاہتی ہے لیکن ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔
وزیرخزانہ اور حکومت خوردنی اشیا پر جی ایس ٹی لگانے کے حق میں جتنی چاہیں تاویلیں گڑھیں اور دلیلیں تراش لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آٹا، چاول، دودھ، دہی، مچھلی، شہد، سوکھی سبزیوں، گیہوں، آٹا، گڑ جیسی 14بنیادی چیزوں پر 5فیصد جی ایس ٹی لگاکر حکومت نے ہندوستان کے140کروڑ لوگوں کے منہ سے نوالا چھیننے کی کوشش کی ہے۔ عوام پہلے سے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کے شکار ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں دن بہ دن عوا م کی رسائی سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے بازار میں کاروبارپر سخت بحران چھایا ہوا ہے، تاجر، کاروباری اور دکاندار کم ہوتے گاہکوں کی وجہ سے پریشان ہیں اس پر دودھ، دہی اورآٹا چاول جیسی بنیادی چیزوں پر 5فیصد جی ایس ٹی ظالمانہ فیصلہ ہی کہاجاسکتا ہے۔اس فیصلہ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور لوگوں کی دوہری ہوتی کمر زمین سے جالگے گی۔
[email protected]
خوردنی اشیا پر جی ایس ٹی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS