خواجہ عبدالمنتقم
پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ہنگامہ خیز ہونے کی بات تونوشتۂ دیوار تھی ہی اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ پہلے ہی دن دونوں ایوانوں کی کارروائی، حسب توقع ہنگامہ کی نذر ہوگئی اور دوسرے دن بھی وہی صورت حال رہی۔ابھی تو ابتدائے اجلاس ہے،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟حزب اختلاف کے مہنگائی، جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ اور اگنی ویر اسکیم جیسے ایشوز اٹھانے کے بعدہنگامہ آرائی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اس اجلاس میں بھی ہنگامہ آرائی اور دونوں فریقین کے اختیار کردہ موقف یعنی ’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں‘ کے سبب پھر ایک بار پارلیمنٹ کا وقت ضائع ہوگا اور بلوں ودیگر اہم متنازع امور کی بابت مکمل بحث نہیں ہوپائے گی۔ اس طرح بہت سے متنازع امور کی بابت برسراقتدار جماعت اور حزب اختلاف کے مابین جو دیوار کھڑی ہوگئی ہے، اس کا انہدام اتنا آسان نہیں جتنا کہ کسی غیر قانونی طور پر بنائی گئی عمارت کا انہدام۔
برسراقتدار جماعت کو یہ شکایت ہے کہ حزب اختلاف کے اراکین پارلیمنٹ کی کارروائی میں بار بار غیر ضروری دخل اندازی کرکے، جو کبھی غیر ضروری بحث کی شکل میں ہوتی ہے تو کبھی واک آؤٹ کی شکل میں، پارلیمنٹ کاقیمتی وقت ضائع کرتے ہیں اور بہت سے بحث طلب امور پر پوری بحث نہیں ہوپاتی ۔بھارت کے چیف جسٹس این وی رمن نے راجستھان کی قانون ساز اسمبلی میں ’پارلیمانی جمہوریت کے 75سال‘ کے موضوع پر اپنے خطاب میں ہندوستانی عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار وماہر قانون ہونے کے ناطے مفاد عامہ اور جمہوریت کے استحکام کے مدنظر مرکزی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ قانون سازی ایک پیچیدہ عمل ہے اور ہر قانون ساز ادارے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مقننہ کے اراکین کو قانونی ماہرین سے مدد حاصل کرنے کا موقع دے تاکہ وہ مباحثے میں بامعنی حصہ لے سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی مخالفت کو دشمنی میں بدلنا صحت مند جمہوریت کی علامت نہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہمارے اس مضمون کے موضوع کے لحاظ سے جو سب سے اہم بات کہی وہ یہ ہے کہ ملک میں قانون ساز اداروں کی کارکردگی کے معیار میں تنزلی آرہی ہے، اب پارلیمنٹ میں قوانین سے متعلق بلوں پر پہلے کی طرح نہ تو مکمل بحث ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا معیار اس سطح کا ہوتا ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ ماضی میں پارلیمنٹ میں قوانین کی منظوری کے دوران تفصیلی بحث کی وجہ سے عدالتوں کو قوانین کی غرض وغایت کا اندازہ لگانااور ان کی تعبیر کرناآسان ہوتا تھا لیکن آج کل اس میں گراوٹ آئی ہے اور پارلیمنٹ میں بنائے جانے والے قوانین میں ابہام ہوتا ہے۔ سی جے آئی کا یہ تبصرہ یقینی طور پر ارباب حکومت کے لیے اور ہمارے قانون سازاداروں کے لیے قابل غور ہے اور یہ ہمارے منتخب نمائندوں کے لیے دعوت فکر بھی۔ دراصل یہ تبصرہ کسی مخصوص حکومت یا مخصوص منتخب نمائندوں کی جانب اشارہ نہیں بلکہ یہ ایک پیشہ ورانہ درد کا مظہر ہے۔ عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے بامعنی بحث درکار ہے مگر اب تو اس کی جگہ سیاسی تلخی نے لے لی ہے جبکہ رائے کا تنوع سیاست اور معاشرت کو تقویت بخشتا ہے اور مضبوط، متحرک اور فعال اپوزیشن حکمرانی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے اور حکومت کے کام کاج کو درست کرتی ہے اور اس کے باہمی تعاون سے ہی ترقی پسند جمہوریت وجود میں آتی ہے۔
آئیے اب اس بات پر غور کرتے ہیں کہ جسٹس رمن کے اس قول میںکتنی صداقت ہے۔ اس ضمن میں ہمیں دو سوالات کے جوابات پر غور کرنا ہوگا۔ پہلا یہ کہ کیا حکومت بلوں پر بحث کرنے کے لیے اپوزیشن کو موقع نہیں دے رہی ہے اور جلد بازی میں بہت سے ایسے بلوں کو منظوری دے دی جاتی ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبارسے کسی نہ کسی پارلیمانی کمیٹی کی رائے جاننے کے لیے اسے بھیجے جانے چاہئیں یا یہ کہ ان مجوزہ قوانین کے بارے میں عوام کی رائے لی جانی چاہیے۔ اس سوال کا حکومت کی جانب سے ظاہر سی بات ہے یہی جواب دیا جائے گا کہ ایسا قانون لانے کی اشد ضرورت تھی اوراپوزیشن کی مخالفت، منفی سوچ اور وقت ضائع کرنے کے سبب قانون سازی کے عمل میں تاخیر کرنا ممکن نہیں تھا اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اپوزیشن بار بار پارلیمنٹ کا وقت ضائع کرتی اور بغیر ضرورت اس بات کی مانگ کرتی رہتی کہ متعلقہ بل پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا جائے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ متعلقہ قانون بن ہی نہیں پاتا جس سے مفاد عامہ پر منفی اثر پڑتا جبکہ پارلیمنٹ کا زیادہ سے زیادہ وقت کا استعمال ملک کے مفاد میں ہونا چاہیے۔یہ وہ صورت حال ہے جس میں حکومت کو مجبوری میں بل پاس کرنا ہی پڑتا ہے۔ یہ الزام کوئی نیا نہیں ہے۔ ہر دور حکومت میں اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ہم نے خود یہ دیکھا ہے کہ ایک ایک دن میں 10-10بل منظور کیے گئے ہیں اور خاص کر پارلیمنٹ کے اجلاس کے آخری دن۔اس سلسلے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ ہر بل کسی نہ کسی پارلیمانی کمیٹی کو جانا چاہیے۔ بیشتر بل ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ منسلکStatement of objects and reasons-SOR میں ان اغراض و وجوہات کو واضح طور پر درج کر دیا جاتا ہے جن کے باعث کوئی قانون بنانا پڑتا ہے اور ان کے نام سے بھی بہ آسانی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجوزہ قانون کس لیے بنایا جارہا ہے۔ البتہ بحث اس بات پر ہوسکتی ہے کہ آیا مجوزہ قانون اس نوعیت کا ہے یا نہیں کہ اسے کسی پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا جائے یا نہ بھیجا جائے مگر یاد رہے کہ جب قانون بن جاتا ہے تو ہر اس شخص کے لیے، جس پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، یہ لازم ہے کہ وہ اس کی مکمل طورپر پابندی کرے خواہ وہ قانون اسے پسند ہو یا نہ ہو۔البتہ اس کے لیے قانونی دادرسی کی راہ ہمہ وقت دستیاب ہے اور وہ مجوزہ قانون کے جواز کو متعلقہ نظیری عدالت یعنی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں ناپسندیدگی کا اظہار عدالت سے رجوع کرکے ہی کیا جاسکتا ہے یا پرامن احتجاج کے ذریعہ نہ کہ تشدد کا راستہ اختیار کرکے۔
جہاں تک حالیہ مانسون اجلاس کی بات ہے، اس ضمن میں حزب اختلاف کی اس مانگ کو قبول کرتے ہوئے کہ کوئی بھی بل بغیر بحث کے منظور نہ ہو،حکومت اجلاس سے قبل منعقدہ کل جماعتی میٹنگ میں اس بات کا پہلے ہی یقین دلاچکی ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر بحث کے لیے تیار ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپوزیشن سے بھی مکمل تعاون کی خواہاں ہے اوروہ بھی یہ نہیں چاہتی ہے کہ کوئی بھی بل بغیر بحث کے منظور ہو۔ جہاں اپوزیشن اپنے احتجاج کو، جو واک آؤٹ کی شکل میں ہو یا کسی دیگر طریقے سے، اپنا حق سمجھتی ہے وہیں برسراقتدار جماعت اسے پارلیمانی کارروائی میں ان کی دیدہ دانستہ دخل اندازی سے تعبیر کرتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے مستقبل قریب میں اس بات کی بھرپور کوشش کریں گے کہ پارلیمنٹ کا وقت ضائع نہ ہو اور مجوزہ قوانین کے بلوں پر ایوان بالا و ایوان زیریں دونوں میں بھرپور و پر سکون بحث ہو۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]