عبدالسلام عاصم
آبادی میں اضافہ اور کنٹرول- دونوں کے اسبا ب اور وسائل ہیں۔ اب یہ ہم انسانوں پر منحصر ہے کہ ہم اضافے کے اسباب سے کس طرح پیش آتے ہیںاور کنٹرول کے وسائل کو کس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ جس طرح صفائی اور گندگی دونوں فطری نظام کا حصہ ہیں لیکن ہم گندگی کا دائرہ محدود سے محدود تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور صفائی کا دائرہ خواب گاہ سے رفع حاجت گاہ تک اس طرح بڑھاتے ہیں کہ( منظم اور خوشحال گھروںمیں)دونوں ضرورت گاہوں میں بس نام کا فرق باقی رہ جاتا ہے، ٹھیک اُسی طرح ہمیں آبادی کے مسئلے سے بھی پیش آنا ہوگا۔ یعنی گھر اور گھر سے باہر دونوں محاذوں پر ہماری دنیا آباد بھی رہے اور شاد بھی۔ یہی شعور ہمیں ملک کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ روکنے کی طرف قدم اٹھانے کی تحریک دیتا ہے۔ الحمد للہ نئی نسل بلا تفریقِ مذہب و ملت اب اس بات سے اتفاق کرنے لگی ہے کہ اگر بانجھ پن اور نامردی کے ازالے کیلئے علم سے رجوع کرنا مصلحت خداوندی میں مداخلت نہیں تو خاندانی منصوبہ بندی بھی دین/ دھرم کے تقاضوں سے کہیں متصادم نہیں ہے۔
انسانی زندگی کیلئے لازمی وسائل کی کمی اور زیادتی کا ادراک کرکے ایک توازن پیدا کرنا کوئی نیا علم نہیں۔ صنعتی انقلاب اور موجودہ آئی ٹی انقلاب سے پہلے کے زمانے کے لوگ بھی وسائل کے استعمال، تحفظ اور زیاں کے حوالے سے شعور سے کام لینے پر زور دیتے تھے۔ اس کی ایک روایتی جھلک دادی اماں کے اس مشورے میں بھی ملتی ہے کہ ’’کھانا ضائع نہ کیا کرو‘‘۔ والدہ کے زمانے میںایسی مداخلت نے یہ شعور پیدا کیا کہ ’’ پلیٹ میں کم کھانا نکالو اور ضرورت محسوس ہو تو اور لے لو‘‘۔ دادی اماں کے مشورے کو بے سوچے سمجھے مان لینے والے پیٹ بھر جانے کے بعد بھی بچا ہوا کھانا اس خوف سے کھا جایا کرتے تھے کہ کھانا ضائع نہیں کرنا ہے۔ نتیجے میں انہیں معدے کی تکلیف سے نجات کیلئے ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ آگے چل کر جب یہ ادراک عام ہوا کہ زیادہ کھا کر بیمار پڑنا اور علاج کرانا بھی وسائل کازیاں ہے تو لوگ اور محتاط ہونے لگے اور بچا ہوا کھانا پھینکنے میں عار محسوس کرنے کے بجائے یہ جان گئے کہ یہ عمل بھی خدا کی طرف سے کیڑے مکوڑوں اور دوسرے چھوٹے بڑے جانوروں کو رزق پہنچانے کے مقصد کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی لوگ اچھی بات جان کر اُس کا بھی غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، جس کا نظارہ شادی بیاہ اور مقتدرین کو خوش کرنے والی تقریبات میں کھانوں کے زیاں کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔
آبادی میںبے تحاشا اضافے اور اس پر قابو پانے کا تعلق بھی وسائل کے احسن یا بے ہنگم استعمال سے ہے۔ بلاشبہ خدا رازق ہے اور یہ رزاقی ہی اصل فطرت ہے جس کے تقاضوں کو سمجھنا وہ شعور ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف انسانوں کو دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ انسان کو خدا نے اپنی اولین نعمت کے طور پر ’’ علم‘‘ سے اس لیے نوازا ہے کہ وہ عطائی اختیارات کے بے ڈھنگے استعمال سے بچے۔ ابتدائی مرحلے میںانسان اور جانور دونوں کی آبادی کی افزائش کے مقصود من اللہ محرکات یعنی عمل اور ردعمل سے بڑھتی گئی۔ اس کے بعد فطرت نے زندگی کا سفر علم کی روشنی میں طے کرنے کی ہدایت سے سرفراز انسانوں کیلئے ایک نسل سے دوسری نسل کے سفر کو آگے بڑھانے والے عمل کا دائرہ راست اور بالواسطہ نسبت کے لحاظ سے محدود کرنا شروع کیاتاکہ رشتوں کی پہچان گڈمُڈ نہ ہوجائے۔ اس کا ایک مقصد ناطق اور مطلق حیوانوں میں فرق قائم کرنا بھی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ عہد میں گھراور گھر سے باہر ہم انسانوں کے اعمال کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ :
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
بہرحال بات چل رہی تھی رازق اور اس کی رزاقی کی تواکثر لوگ اس نیک عقیدے کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے اس حوالے سے مزید کچھ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں۔ حالانکہ خالقِ کائنات نے جہاں اپنی تخلیقی قوت کے ایک حقیرجُز پر قدرت بخش کر ہمیںبایولوجیائی طور سے زندگی خلق کرنے کا متحمل بنایا ہے، وہیں ساتھ ہی ساتھ اِس طاقت کے شعوری اور محتاط استعمال کا علم بھی بخشا ہے (عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ)۔ خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک اسی غور و فکر کا نتیجہ ہے جس کا مقصد نہ کسی کی رزاقی کو چیلنج کرنا ہے نہ خدائی منصوبے میں ایسا کوئی دخل دینا ہے جس سے مقصدِ کُن کی تکمیل میں کوئی رخنہ پڑے اور ہم فطرت سے متصادم ہوجائیں۔ البتہ خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت کرنے والوں نے جن کی تعداد اب تیزی سے محدود ہوتی جارہی ہے، خدائی منصوبے کو وہ نقصان پہنچایا ہے جس کا دوسرے مُضرت رساں عناصرشاید تصور بھی نہ کر پائیں۔
حالات کے تازہ موڑ پر اب ہندوستان، چین ، بنگلہ دیش اوربعض دوسرے ممالک بھی آبادی پر قابو پانے کے کل تک کے عزائم اور عملی اقدامات کو مزید موثر اور نشانہ بند بنانے پر غور کرنے لگے ہیں۔ اس رُخ پر کی جانے والی کوششوں کو متنازع بننے سے بچانے کے اقدامات کو بھی عصری ماحول سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جا رہا ہے تاکہ مقصد کی راہ سے بھٹکانے والی قوتیںزیادہ فعال نہ ہوسکیں۔ باوجودیکہ برصغیر میںذرائع ابلاغ خصوصاً برقی میڈیا اور سوشل میڈیا کی بے لگام سرگرمیوں سے اللہ پاک کی پناہ۔ غیر ذمہ دار خبرنگار امکانات کی ہر راہ میں اندیشوں کے خندق کھودنے سے کہیں باز نہیں آرہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ صرف بے پر کی اُڑائی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ غیر دوراندیشانہ باتیں کر جاتے ہیں اور پھر میڈیا کی ساری توانائی اسی کو اچھالنے میں لگا دی جاتی ہے۔ سماجی ذمہ داری بھی تو کوئی چیز ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جو معبد سے میخانے تک آلودہ ہو کر رہ گیا ہے۔ میڈیا کو کتنا محتاط ہونا چاہیے! کیا فرزانوں کو اِس کا علم نہیں ہے۔ ایک دوسرے کی مذہبی حکایات کا مذاق اُڑانے اور عام زندگیاں خطرے میں ڈالنے والے بیانات اچھالنے سے کیا جی نہیں بھرا تھا کہ آبادی پر قابو پانے اور نہ پانے والے حلقوں کی کسی طرف سے مبینہ نشاندہی پر سبھی جوابِ آں غزل کے ساتھ میدان میں اتر پڑے۔ قوم کو درپیش اصل مسائل کو پس پشت ڈال کر ذرائع ابلاغ جس طرح ایسی باتوں میں لوگوں کو اُلجھانے کا کاروبار کر رہا ہے، کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ انسانوں سے زیادہ حشرات الارض کی طرح بڑھتی میڈیا کی بے ہنگم آبادی پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
ایسے میںسماجی، سیاسی، تہذیبی اور اقتصادی سبھی شعبوں کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے بے لگام میڈیا کا لگام کسنے کے رُخ پر مقتدر اداروں کے اشتراک سے آئینی اور قانونی پہل کریں اور میڈیا کو پہلی فرصت میں ایسے عناصر سے نجات دلائیں جنہوں نے ایک ہنگامے پر ملک و ملت کی ساری رونقوں کو موقوف کر رکھا ہے۔ ایسا جب تک نہیں کیا جاتا تب تک خبروں اور افواہوں کا فرق سمجھنے سے قاصر عام آدمی دین اور دنیا کے کاروباریوں کے ہتّھے چڑھتا رہے گا۔ ملک کی امن پسند اکثریت پر یہ باور کرانا ضروری ہوگیا ہے کہ صرف قتل و غارتگری ہی نہیں آبادی میں بے تحاشا اضافہ سے بھی زندگی کی ناقدری ہوتی ہے۔ میڈیا چاہے تواس کی تفہیم کو آسان بھی بنایا جا سکتا ہے اور مشکل بھی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]