خواجہ عبدالمنتقم
کسی جمہوری حکومت میں زبان خلق کو نقارۂ خدا تبھی سمجھا جا سکتا ہے جب وہ آئینی پیمانوں پر پوری اترتی ہو۔ ہمارا آئین سب کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن شائستگی کو قربان گاہ کے حوالے کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بھی شخص کو،خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبۂ حیات سے ہو ،بدزبانی یا بدکلامی اور غیرشائستہ زبان کے استعمال کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور اگر کوئی منصب دار،خوا ہ اس کی وابستگی کسی مذہبی ادارے،تنظیم یا جماعت سے ہی کیوں نہ ہو ،اس طرح کی روش اختیار کرتا ہے تو اسے خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ قانون تو اپنا کام کرتا ہی ہے۔ اب معاشرہ میں حساسیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہر شخص کو بولتے اور لکھتے وقت اس مفروضہ پر عمل کرنا ضروری ہو گیا ہے ’پہلے سوچو پھر بولو‘۔اس مفروضہ میں ترمیم کرکے یہ شکل دینا بھی غلط نہ ہوگا ’ پہلے سوچو پھر قلم اٹھاؤ‘۔
کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ایسی نوبت ہی نہ آئے اور اگر آ جائے تو ممکنہ حد تک صبر سے کام لیا جانا چاہیے۔ کس کس سے لڑیں گے؟حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جتنا لوگ اپنے اپنے مذہب کے قریب آتے جا رہے ہیں، اتنا ہی اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ ہر مذہب کی مقدس کتابوں سے اور اخلاقیاتی ادب سے حلم وبرداشت اور صبر واستقامت کا پیغام ملتا ہے۔ بڑا پن کمزور کو سہارا دینے میں ہے نہ کہ اس پر ستم ڈھانے میں۔ہم نے 1959 میں ہائر سیکنڈری کے ایک معصوم طالب علم کی حیثیت سے بورڈ کے امتحان میں پرچہ میں مضمون لکھنے کے لیے دیے گئے مختلف عنوانات میں سے یہ عنوان چنا تھا ’کسی بیکس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مار ا + جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا ‘مگر اس وقت اس کی معنویت ہماری اس نو عمری میں ظاہر سی بات ہے اس سے مختلف ہوگی جو آج ہے۔ ویسے بھی اس زمانہ میں نہ لوگوں کی زبان سے اور نہ مختلف پروگراموں میں اس قسم کے غیر پارلیمانی الفاظ، جن کا دہرانا بھی ہمیں زیب نہیں دیتا اور جن کا آ ج ٹی وی چینلوں پربے خوف استعمال ہو رہا ہے، سننے کو نہیں ملتے تھے۔
انسانی حقوق کے تحفظ میں، جن میں شائستہ زبان کا استعمال بھی شامل ہے، میڈیا ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی رپورٹنگ سے سماج پر برا اثر نہ پڑے اور ملک میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا نہ ہو اور مختلف فرقوں وگروپوں کے بیچ کوئی تناؤ نہ پیدا ہو۔میڈیا کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار قانون کے اصول کا اطلاق ان پر بھی ہوتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے کسی بھی حصے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کواجاگر کرے۔ دنیا کے تمام ممالک میں میڈیا سیاست دانوں اور ارباب حکومت سے متعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کو عوام کے سامنے لاتا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سیاست دانوں سے متعلق بہت سے معاملات ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچے، اس میں کچھ سیاست دانوں کو سزا بھی ملی، ان کی بدنامی بھی ہوئی اور ان کو سیاسی نقصان بھی پہنچا۔میڈیا کو کسی بھی ملزم اور انتظامیہ کی بابت کوئی بھی رپورٹ تیار اور مشتہر کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی ملزم تب تک بے گناہ ہوتا ہے جب تک وہ مجرم ثابت نہیں ہوجاتا۔ کسی بھی ملزم، مجرم یا مبینہ مجرم کے حوالے سے اس بات کا تعین یا فیصلہ کرنے کے لیے کہ اس نے جو جرم کیا ہے اس کی نوعیت کیا ہے جن بنیادی باتوں پر غور کرنا پڑتا ہے وہ ہیں اس کی نیت، ارادہ، غرض، منشا اور مجرم کا ذہن۔ جہاں تک غرض کا سوال ہے اس سے وہ احساسات و تاثرات مراد ہوتے ہیں جو قوت عمل کو کسی فعل کے ارتکاب کے لیے اکساتے ہیں یعنی انسان کی درپردہ خواہشات مثلاً جذبۂ انتقام کی تسکین، ذاتی عناد وغیرہ۔
ہمارے آئین کی دفعہ19 کے تحت کسی بھی فردیا جماعت کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور اس حق میں افکار وتصورات کو دوسروں تک پہنچانا بھی شامل ہے لیکن آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آئین کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ مبینہ ملزم یا ملزمان کی نیت کیا تھی، اس کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ اس سلسلہ میں میڈیا ٹرائل سے بچا جائے۔ لارڈ ریڈ کمیشن کے سربراہ اور ماہر دستوریات Lord Ried کا کہنا ہے کہ کسی خاص مدعے کی بابت قبل از وقت فیصلہ جیسی کوئی بات نہ صرف اس لیے قابل اعتراض ہے کہ اس کی وجہ سے اس خاص معاملے پر اثر پڑتا ہے، بلکہ اس لیے بھی قابل اعتراض ہے کہ اس کے اور بہت سے ذیلی اثرات وجود میں آتے ہیں۔ میڈیا کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت کے روبرو زیر سماعت کسی معاملے کی رپورٹنگ سے قبل پوری معلومات حاصل کرے اور ان معلومات کو غیر جانبدارانہ طریقے سے عوام کے سامنے رکھے اور اگر وہ عدلیہ کی تنقید کا خواہاں ہے تواس کی تنقید کی نوعیت ایسی ہو جس سے ملزم کی بے گناہی کے قیاس کو بھی ضرر نہ پہنچے اور عدالت کی بھی توہین نہ ہو۔
ہر مہذ ب انسان سے خواہ وہ سیاسی ہو یا غیرسیاسی یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس کے اخلاق و شمائل میں حلم وبرداشت، صبر ، راست گفتاری، حسن سلوک، دشمنوں کے ساتھ رحم، صلح میں نرمی وغیرہ جیسی خوبیاں ہونی چاہئیں اوراسے کبھی بھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور کبھی دل آزاری اور ایذا رسانی کی حرکت نہیں کرنی چاہیے مگر چند سیاسی رہنماؤں ، سماجی کارکنوں وثقافتی و مذہبی تنظیموں سے وابستہ افراد کی تو بات ہی کیا، ا ب تو مذہبی رہنماؤں کی زبان بھی کبھی کبھی بہک جاتی ہے جبکہ ان کی نرم گفتگو و شیریں زبانی کی تو مثالیں دی جاتی تھیں مگر اب چند افراد کی لغزش زبان اور لہجۂ تلخ نے سنجیدہ افراد کو بھی یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے:
’یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے‘
تشدد کے جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں وہ یقینی طور پر، کچھ استثنائی واقعات کو چھوڑ کر، نفرت آمیز پروپیگنڈہ اور نفرت آمیز تقاریر و بیا نات کا ہی شاخسانہ ہوتے ہیں۔یہ مانا کہ آئین کی دفعہ 19(1)(الف)میںیہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ تمام شہریوں کو تقریراور اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہوگا مگر اسی دفعہ کے فقرہ(2) میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ اس قسم کی آزادی پر بھارت کے اقتدار اعلیٰ اور سالمیت، مملکت کی سلامتی، امن عامہ، شائستگی یا اخلاق عامہ کی اغراض کے لیے یا توہین عدالت کا ازالہ یا حیثیت عرفی یا کسی جرم کے لیے اکسانے کے تعلق سے معقول پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔اسی طرح آ ئین کی دفعہ 51-A کے تحت ہر شہری کا دیگر بنیادی فرائض کے ساتھ ساتھ یہ فرض بھی ہے کہ وہ آئین پر کاربند رہے اور کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے عوام کے مابین یکجہتی اور بھائی چارے کو زک پہنچے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]