سیف انور سنبھلی ،ریسرچ اسکالر
شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی۔
اوستاؤ سمان اوغلو معروف بہ شیخ محمود آفندی ترکیہ کے ایک بڑے عالم دین ، مفکر ،مصلح ، مذہبی رہنما اور ایک مشہور و معروف صوفی تھے۔ آپ نے تمام عمر درس و تدریس ، تعلیم و تعلم ، دعوت و تبلیغ ،ارشاد و نصیحت،تزکیۂ نفس اور تربیت باطنی میں صرف کی۔ترکی کا شاید ہی کوئی علاقہ ہو جہاں کے لوگ شیخ آفندی کی دعوت و عزیمت کے عظیم چشمہ سے سیراب نہ ہوئے ہوں۔ ہزاروں لوگ ہدایت سے سر فراز ہوئے۔ بے شمار ملی و قومی تنظیموں کی سرپرستی فرمائی ۔اہل ترکیہ کی مذہبی زندگی میں شیخ آفندی نے نہایت مضبوط و مستحکم نقوش مرتب کئے ہیں۔آپ صوفی سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد جب ترکیہ میں عربی زبان اور اسلامی علوم پر سخت پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ توکچھ علماء گاؤں میں درختوں کے نیچے رازداری سے بچوں کو عربی اور دینی علوم کی تعلیم دیتے تھے۔فوج کی آمد پر یہ بچے کھیتوں میں اس طرح منتشرو مشغول ہو جاتے گویا کھیتوں میں کام کر رہے ہوں۔ ان طالب علموں میں شیخ محمود آفندی بھی شامل تھے۔ آپ نے اس طرح تعلیم حاصل کی تھی ۔۱۹٥٤ء میں شیخ آفندی اسماعیل آغا مسجد میں بطور امام مقرر ہوئے ۔ اور پھر ۱۹٩٦ء تک اما م رہے۔ امامت کے منصب پر آپ تعلیم و اشاعت، دعوت وتبلیغ ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ رویل سینٹر فار اسٹریٹجک ریسرچ کی طرف سے شائع ہونے والی دنیا کے پانچ سو (۵۰۰)بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست (۲۰۲۲)میں آپ٣٤ ویں نمبر پر تھے۔
پیدائش و تعلیم
شیخ آفندی کی پیدائش ۱۹۲۹ء کو ترکیہ کے صوبے ترابزون کے اوفان نامی گاؤں میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد ماجد علی آفندی گاؤں کی مسجد کے امام تھے ۔آپ کی تعلیم و تربیت دینی ماحول میں ہوئی ۔کم عمری میں حفظ کیا اور پھر شیخ تسبیحی زادہ سے نحو و صرف اور دیگر علوم عربیہ کی تحصیل فرمائی ۔شیخ دورسون فوزی آفندی سے دینیات ،تفسیر ، حدیث فقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ اور شیخ محمد راشد عاشق آفندی کی خدمت میں رہ کر قراء ت اور علوم قرآنی کا علم حاصل کیا ۔آپ نے سولہ برس کی عمر میں علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کر لی تھی۔
سلسلہ نقشبندیہ
آپ کا تعلق مشہورصوفی سلسلہ نقشندیہ سے تھا ۔اس میں آپ نے اجازت شیخ احمد آفندی مابسیونی سے حاصل کی تھی۔اس کے علاوہ ملٹری سروس کے دوران ان کی شناسائی آپ کے شیخ و مرشد علی حیدر احسخوی سے ہوئی ۔شیخ آفندی نے ان سے علوم ومعارف و روحانی کمالات حاصل کئے ۔ترکیہ میں سلسلۂ نقشبندیہ کی ترویج و اشاعت میں آپ نے غیر معمولی خدمات انجام دی ہیں۔فی الوقت آپ کے مریدوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد ہے۔ترکیہ میں ان کی خانقاہ و مسجد ، ان کے مریدوں کی جانثاری ، محبت و عقیدت ، ان سے مشابہت کا جذبہ کا جو نقشہ ڈاکٹر راشد ساز نے اپنے سفر نامہ میں کھینچاہے ، وہ یقیناقابل ذکر ہے۔اس سے ترکی میں شیخ آفندی کی مقبولیت ، شہرت و اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔شاذ رقمطراز ہیں
‘‘ ۔۔۔شمالی دروازہ سے چار شنبہ بازار کی طرف آئیے اور اسمٰعیل آغا مسجد کی سمت چل پڑیے۔دفعتاً آپ کو محسوس ہوگا کہ لوگوں ک چہرے بشرے اور ان کے لباس وآہنگ تبدیل ہوتے جا رہے ہیں ۔گول پگڑی نما ٹوپیاں، چہرے پر داڑھیوں کی بہار،لمبے مشرقی لباس ، ہاتھوں میں تسبیحیں ، جو بسا اوقات سڑک چلتے میں بھی گردش میں رہتی ہیں۔یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہیں کہیں قریب میں دعوت و تبلیغ یا در س و ارشاد کا کوئی مرکز پایا جاتا ہے۔نقشبندی صوفیوں کے مرکز کی حیثیت سے اسمٰعیل آغا مسجد کو وہی حیثیت حاصل ہے جو نظام الدین (دہلی) میں مولانا الیاس کی صوفی تحریک ایمان کے مرکز کی حیثیت سے بنگلے والی مسجد کو حاصل ہے۔ ’’(روحانیوں کے پایۂ تخت استنبول میں گیارہ دن)
خدمات
شیخ آفندی جدید ترکیہ کے سب سے بڑے مصلح ، مجدد اور ایک عظیم داعی و دینی رہنما تھے۔آپ نے ترکیہ میں اسلام کے نشأۃ ثانیہ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔سخت حالات میں تحفظ شریعت ، احیائے سنت ، تدریس قرآن اور اشاعت اسلام کا رہائے نمایاں انجام دیا ۔اس راہ میں آپ نے سخت مشکلوں کا سامنا کیا لیکن کبھی عزم و حوصلہ کو متزلزل نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ صبر و استقامت سے کام لیا۔آپ نے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی عملی مثال پیش کی۔آپ نے تفسیر قرآن ، اصلاحی خطبات ، خانقاہ کے روحانی ماحول، صوفیانہ نصیحتوں کے ذریعہ ترکیہ میں لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کیا ۔ ترکی سماج پر انہوں نے گہرے مذہبی اثرات مرتب کئے ہیں ۔
شیخ آفندی کی تصنیفی خدمات کا شاہکار ،ا ٓپ کی تفسیر ‘‘’روح القرآن ’’ہے۔ یہ ترکی زبان میں قرآن کا ترجمہ وتفسیر ہے۔یہ تفسیر ۱۹ جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔اس کے علاوہ آپ کی تصنیفات میں ‘رسالہ قدسیہ’ (یانیالی مصطفیٰ عصمت کے کام کاترجمہ و وضاحت ہے )، ۲جلدیں)،‘قرآن کے فضائل اور پڑھنے کے آداب’ اور آپ کے ‘خطبات’(۹ جلدیں)، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
رجب طیب ایردوغان اور شیخ آفندی
صدر ترکیہ رجب طیب ایردوغان کے بھی شیخ آفندی سے قریبی تعلقات قائم رہے۔ایردوغان وقتا ً فوقتاً شیخ کے یہاں حاضر ہوتے اور ان سے روحانی فیض حاصل کرتے تھے۔۲۰١٤ء میں صدارتی انتخابات سے ایک رات قبل صدر ایردوغان نے شیخ آفندی کی خانقاہ ایک مشہور دورہ کیا تھا۔ دونوں کے باہمی روابط اس قدرگہرے تھے کہ شیخ آفندی کے جنازہ میں صددر ایردوغان نے شرکت کی اور ان کے جنازہ کو کاندھا بھی دیا۔
ہندوستانی علماء سے عقیدت و محبت
شیخ محمود آفندی ہندوستانی علماء سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ شیخ احمد سرہندی کو‘ مجدد الف ثانی ’سمجھتے تھے اور نقشبندی سلسلہ سے تعلق ہونے کی وجہ سے ان سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔علمائے دیوبند سے بھی محبت و تعلق رکھتے تھے، بانی دیوبند مولانا قاسم نانوتوی کو چودھویں صدی کا مجدد کہتے تھے۔ آپ نے اپنی تفسیر میں مولانا اشرف علی تھانوی کو شیخ المشائخ اور مولانا زکریا کاندھلوی کو امام، محدث اور علامہ لکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۳ء میں شیخ آفندی کو ‘مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ’ سے بھی نوازا گیا تھا۔
انتقال
شیخ آفندی کا انتقال ۲۳ جون ۲۰۲۲ء کو ۹۳ برس کی عمر میں شہر استنبول میں ہوا۔نماز جنازہ ٢٤جون ۲۰۲۲ء کو بعد نماز جمعہ فاتح جامع میں ادا کی گئی ۔ استنبول کے ضلع ایوب سلطان کے ساکز آجی قبرستان میں شیخ علی حیدر آفندی کے قر یب آپ کی کو دفن کیا گیا ۔ عالم اسلام کے بڑے بڑے علماء نے شیخ آفندی کی وفات پردکھ کا اظہار کیا اور آپ کے انتقال کو عالم اسلام اور خصوصاً ترکیہ کے لئے بڑاخسارہ قرار دیا۔
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu