پل پل بدلتے سیاسی حالات میں کوئی بھی پیش گوئی مشکل ہو جاتی ہے جیسے مہاراشٹر کے سیاسی حالات کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا فی الوقت مشکل ہے۔ مہاراشٹر کے ڈپٹی اسپیکر نے ایکناتھ شندے سمیت 16 ایم ایل ایز کو نوٹس جاری کر کے 27 جون تک جواب مانگا ہے۔ نوٹس میں پوچھی گئی یہ بات، کہ ’کیوں نہ آپ کی رکنیت رد کر دی جائے‘، مہاراشٹر کی سیاست کو کیا رخ دے گی، یہ کہنا مشکل ہے، کیونکہ ابھی الیکشن کمیشن اور عدالتوں کا موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ باغی ایم ایل ایز نے 28 جون تک گواہاٹی میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شندے گروپ کے ایم ایل اے، دیپک کیسرکر کا کہنا ہے کہ ’مہاراشٹر گئے تو فسادات کا ڈر ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اصل شیو سینا انہیں کے گروپ کے پاس ہے مگر سنجے راؤت نے کہا ہے کہ ’بالاصاحب نہیں، اپنے باپ کے نام پر ووٹ مانگیں۔‘ادھو ٹھاکرے نے ممبئی میں پارٹی کی اعلیٰ سطح کی میٹنگ کی۔ اس میں جو 6 نکات پاس ہوئے ہیں، ان کے مطابق، شیوسینا بالاصاحب کی ہے اور انہیں کی رہے گی، کسی کو بالاصاحب کا نام استعمال نہیں کرنے دیا جائے گا، ایکناتھ شندے سے شیوسینا کے لیڈر کا عہدہ چھین لیا جائے، باغی ایم ایل ایز کے خلاف کارروائی کا اختیار ادھو ٹھاکرے کا ہوگا، مراٹھی تشخص اور ہندوتو پر شیو سینا اور جارح رویہ اختیار کرے گی، کورونا میں ادھو کے کام اور دھاراوی ماڈل کی تعریف پر شکریہ ادا کیا گیا اور برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں شیوسینا کو فتح سے ہم کنار کرانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
یہ سوال جواب طلب ہے کہ یہ حالات کیوں بنے؟ مگر یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ سیاست میں کوئی چیز مستقل نہیں ہوتی۔ کب کون کس سے ناراض ہو جائے، اس ناراضگی کی وجہ کیا بن جائے، یہ سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے اگر یہ نہیں سمجھ سکے کہ بالاصاحب ٹھاکرے کے بہت قریبی رہے ایکناتھ شندے ان کے لیے مسئلے کھڑے کر دیں گے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ یوں بھی یہ پہلا موقع نہیں ہے جب شیوسینا کے کسی لیڈر نے پارٹی کے خلاف بغاوت کی ہے۔ چھگن بھجبل نے شیوسینا سے سیاسی زندگی شروع کی تھی۔ 1991 میں وہ اس سے الگ ہوکر کانگریس سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے بعد کانگریس لیڈر شرد پوار نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی بنائی تو بھجبل ان کے ساتھ چلے گئے۔ نارائن رانے نے بھی شیو سینا سے ہی سیاسی کریئر کی ابتدا کی تھی۔ منوہر جوشی کے ہٹنے کے بعد انہیں وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا۔ 2005 میں رانے کانگریس میں داخل ہو گئے۔ پھر اس سے بھی الگ ہوگئے، مہاراشٹر سوابھیمان پکش بنائی مگر بھارتیہ جنتا پارٹی میں اس کا انضمام کر کے اس میں شامل ہو گئے۔ سنجے نروپم بھی شیوسینا میں تھے، بعد میں کانگریس میں چلے گئے مگر ایکناتھ شندے نے شیو سینا کو ایسے وقت میں جھٹکا دیا ہے جب اس کی پوزیشن پہلے جیسی نہیں ہے۔ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن کے 2017 کے الیکشن میں بھی شیو سینا ہی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی اور 84 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی مگر بی جے پی بھی 82 سیٹیں جیت کر اس سے کافی پیچھے نہیں تھی۔ بی جے پی اگر ایکناتھ شندے کی مدد سے مہاراشٹر میں حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی ہے مگر برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بھی اس کی بڑی کامیابی ہوگی اور شیوسینا کے لیے یہ ایک بڑا جھٹکا ہوگا، کیونکہ اس کا بجٹ 8 ہندوستانی ریاستوں، اروناچل پردیش، سکم، تریپورہ، ناگالینڈ، میزورم، میگھالیہ، منی پور، گوا، سے زیادہ ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ایکناتھ شندے کی شیو سینا سے بغاوت کا فائدہ خود انہیں یا ان کے ساتھیوں کو کتنا ہوگا اور کتنے خسارے میں شیوسینا رہے گی، البتہ بدلتے سیاسی حالات سے بی جے پی فائدہ ضرور اٹھانا چاہے گی۔ برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن کا الیکشن جیتنا اور سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنا بھی بی جے پی کے لیے کم سے کم متذکرہ 8 ریاستوں میں حکومت بنانے جیسا ہی ہوگا، ادھو ٹھاکرے کے لیے یہ وقت سخت امتحان کا ہے۔ اس میں کامیابی پر ہی ان کے سیاسی کریئر اور ان کی پارٹی کے مستقبل کا انحصار ہے، اس لیے وہ، ان کے بیٹے اور سنجے راؤت یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ جھٹکوں سے شیو سینا ہل سکتی ہے، بکھر نہیں سکتی، اس کی بنیاد بہت مضبوط ہے مگر اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہی ہو پائے گا کہ شیوسینا کس پوزیشن میں ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی اچھی پوزیشن رہنے سے ہی مہاوکاس اگھاڑی کا وجود قائم رہے گا۔
[email protected]
ہمارے واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 bit.ly/35Nkwvu