ڈاکٹر فریدہ خانم
چیئرپرسن سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی
عطاء بن یسار تابعی (103ھ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے صحابی رسول عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ نے تورات کا مطالعہ کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو صفات تورات میں آئی ہیں ان میں سے کچھ بتایئے۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے جو کچھ بیان کیا، اس کا ایک جزء یہ ہے: خدا کی قسم! رسول اللہ کی تورات میں بالکل بعض وہی صفات آئی ہیں، جو قرآن (48:8) میں مذکور ہیں۔جیسے کہ ’’ اے نبی! بیشک ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ اوراُمی (اَن پڑھ) قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بداخلاق ہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور وغل مچانے والے، وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا، بلکہ معاف اور در گزر کرے گا (صحیح بخاری)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کے مشن کو جاننے کے لیے یہ ایک اہم حدیث ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بنیادی صفات معلوم ہوتی ہیں۔ ایک آپ داعی الی اللہ ہیں۔ دوسرے آپ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے۔ اس حدیث میں بظاہر رسول کی صفات بیان کی گئی ہیں، مگر وہ ہر انسان کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔
صحیح البخاری کے ایک شارح احمد بن اسماعیل الکورانی (وفات 893ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: اس میں اشارہ ہے کہ آپ دین، انسانیت اور اخلاق کے اعتبار سے کامل تھے۔
’’اے نبی! بیشک ہم نے تم کو شاہد اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ مولانا وحید الدین خاں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ اظہار حق کنندہ (حق کا اظہار کرنے والا ) کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترین مفہوم ہے۔ پیغمبر کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ وہ حقیقت کا اعلان و اظہار کر دے۔ وہ واضح طور پر بتا دے کہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں کن لوگوں کے لیے خدا کا انعام ہے اور کن لوگوں کے لیے خدا کی سزا۔ ایسے ایک شاہد حق کا کھڑا ہونا اس کے مخاطبین کے لیے سب سے زیادہ سخت امتحان ہوتا ہے۔ان کو ایک بشر کی آواز میں خدا کی آواز کو سننا پڑتا ہے۔ ایک عام انسان کو خدا کے نمائندہ کے روپ میں دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک انسان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتے ہوئے یہ سمجھنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس اعلیٰ معرفت کا ثبوت دیں ان کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا اجر ہے اور جو لوگ اس امتحان میں ناکام رہیں ان کے لیے سخت ترین سزا(تذکیر القرآن)۔
’’اُمی قوم کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ حفاظت کا مطلب سیاسی حفاظت نہیں ہے، بلکہ ابدی نجات کے اعتبار سے حفاظتی بندوبست کرنا ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ ہے: وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول انھیں میں سے اٹھایا، وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے۔ اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اور وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے (62:2)۔
’’میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے‘‘ کی شرح ابن حجرنے ان الفاظ میں کی ہے ۔(ترجمہ): (یعنی، اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں، کیوں کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرتے ہیں، اور ناپسندیدہ چیز کے مقابلے میں صبر کرتے ہیں) فتح الباری۔
’’تم نہ بداخلاق ہو، نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شورو غل مچانے والے‘‘ اس کے تحت ایک شارح حدیث لکھتے ہیں کہ وہ نرم رو، شریف النفس ہیں، وہ بد اخلاق نہیں اورنہ غیر مہذب کہ بازار میں شور مچائیں، بلکہ لوگوں کے لیے نرم اور خیرخواہ ہیں۔
’’وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لے گا‘‘ اس کی وجہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: بیشک اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا ہے، لیکن برائی کو اچھائی سے مٹاتا ہے، بیشک برائی برائی کو ختم نہیں کرتی ہے۔
دعوت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی میتھڈ اختیار کیا اور فکری مہم کے ذریعہ ذہنوں کو بدلا۔ جیسا کہ حضرت عائشہ کے مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ انسانوں میں اسلام کی قبولیت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ قرآن میں سب سے پہلے وہ سورتیں نازل ہوئیں، جن میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے تو حرام اور حلال کے احکام اترے۔(صحیح البخاری)
عرب اگرچہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں مگر طویل عرصہ گزر جانے کی وجہ سے وہ اپنی سماجی روایت میں کنڈیشنڈ ہو چکے تھے۔ ان کو ڈی کنڈیشنڈ کرنے کا عمل اسی وقت ممکن تھا، جب کہ فکری مہم کے ذریعہ ان کے اندر تبدیلی لائی جائے۔
عربوں میں آنے والی اس انقلابی تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے مولانا وحید الدین خاں صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ نزول کے اعتبار سے قرآن کا پہلا لفظ ’پڑھ‘ (اقرا) ہے۔ چودہ سو سال پہلے قرآن میں اقرا کا حکم آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خدائی کلام ہے۔ جب پہلی وحی اتری اس وقت عرب میں بہت سے مسائل تھے۔ مثلاً کعبہ میں 360بت، رومیوں اور ایرانیوں کی عرب علاقوں میں سیاسی دخل اندازی، راستوں کا محفوظ نہ ہونا، سماج میں مختلف قسم کے جرائم، اسی طرح پانی کی قلت ، وغیرہ۔ ایک شخص جس کو صرف انسانی نظر حاصل ہو، وہ اسی قسم کے ظاہری مسائل میں الجھ جائے گا۔ ایک انسانی مصلح اگر اٹھتا تو وہ صرف حال کے دائرہ میں سوچتا، جب کہ اقرا ابدی دائرہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔حال کے اعتبار سے عرب میں مسائل ہی مسائل تھے۔ مگر قرآن میں جو پہلی آیت اتری اس میں اس قسم کے مسائل کا ذکر نہیں تھا۔ رسول اکرم ؐ نے علم کا پیغام دیا جو ابدی اہمیت کا حامل تھا۔ جو حال سے لے کر مستقبل تک انسان کے کام آنے والا تھا۔ اور جو اپنے وسیع انطباق کے اعتبار سے دوسرے تمام شعبوں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل خواہ کتنا ہی زیادہ ہوں، ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے عمل کا آغاز ہمیشہ علم اور شعوری بیداری سے کرنا چاہیے۔ یہ نہایت اہم خدائی اصول ہے‘‘ (ماخوذ)۔
یہ تمام حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ ایک بااصول انسان تھے۔ آپ کی شخصیت حالات کے ردعمل کی پیداوار نہ تھی۔ بلکہ اعلیٰ ربانی اصول کی پیداوار تھی۔ آپ کا اعلیٰ اخلاق کا حامل ہونا، آپ کے اس دعویٰ کے عین مطابق ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ کسی بھی سماج کے لیے اچھے اخلاق اور اعلیٰ کردار کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ افراد کے اندر اچھا اخلاق ہونا کسی سماج کو اچھا سماج بناتا ہے۔ اور افراد کے اندر برے اخلاق کاموجود ہونا کسی سماج کو برا سماج بنا دیتا ہے۔ اخلاق دراصل، داخلی احساس کا خارجی اظہار ہے۔ داخلی سطح پر کوئی انسان جیسا ہوگا، اس کا اثر اس کے خارجی برتاؤ پر پڑے گا۔ اعلیٰ اخلاق سے مراد وہ اخلاق ہے ، جب کہ آدمی دوسروں کے رویہ سے بلند ہو کر عمل کرے۔ اس کا طریقہ یہ نہ ہو کہ برائی کرنے والوں کا جواب برائی سے دیا جائے اور بھلائی کا جواب بھلائی سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق یہی اعلیٰ اخلاق تھا۔