عبدالسلام عاصم
دو فرقوں میں اختلاف جب شدید نفرت میں بدل جائے اور نفرت تشدد کی راہ ہموار کردے تو عددی اعتبار سے کمزور فرقے کے خاموش بیٹھے سمجھ داروں پر یہ ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ وہ بلا تاخیر سامنے آ کر اپنے فرقے کے عام لوگوں کو جو بہ کثرت جذباتی ہوتے ہیں،(ردعمل پسند) نام نہاد ذمہ داروں، خاص طور پر رجعت پسندوں کے ہتھے چڑھنے سے بچائیں۔ چیرہ دستی کے عہد بہ عہد سفر کے تازہ موڑ سے کم نقصان کے ساتھ گزرنے کی بظاہر یہی واحد صورت رہ گئی ہے، جسے برو ئے کار لا کر ایک طرف نام نہاد ملی ذمہ داروں کو سمجھا بجھا کر چپ کرایا جائے، دوسری طرف نفرت کی خلیج پاٹنے کی کوشش کو مربوط بنانے کیلئے دوسرے فرقے کے باشعور اور بیدار مغز لوگوں کے ساتھ مل کر رابطے کا ایک پُل تیار کیا جائے ۔ان کوششوں کو بے خلل رکھنے کیلئے ایک ذہنی ڈھال بھی تیار کی جائے یعنی درونِ فرقہ عوام اور خواص سے ایک ساتھ رجوع کر کے انہیں یہ بھی بتایا جائے کہ کسی بھی نزاع میں بظاہر ظالم اور مظلوم دونوں بباطن ایک دوسرے سے شاکی ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف دونوں کی ہر شکایت صحیح ہو، لیکن ایسا بھی نہیں کہ سارا جھگڑا کسی ایک کی طرف سے کھڑا کیا گیاہو اور دوسرے کو کسی اصلاح کی ضرورت نہیں ، بس انصاف مطلوب ہو!!
اِس ادراک کے ساتھ آئیے دیکھتے ہیں کہ موجودہ پریشانی سے باہر نکلنے کیلئے کن روایتی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے اور کیا کچھ نیا کیا جا سکتا ہے۔ ایک خرابی جسے دور کرنے کی سخت ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگ/ حلقے ڈسکورس میں بھی دو ٹوک لہجہ اختیار کرتے ہیں ، جیسے ’’کیا خود سپردگی کردوں!‘‘ ۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اِس طرح کا لہجہ معاملہ فہمی میں قطعی معاون نہیں ہوتا بلکہ کمزور پڑنے والے کو ایکدم سے یو ٹرن لینے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ جاری تنازع میں ہلاکت خیز تشدد کی آمیزش، توڑ پھوڑ، گرفتاری اور انہدامی کارروائیوں کے بعد گزشتہ دنوں ایسا ہی ہوا۔ ملک کی بعض اقلیتی مذہبی مجالس اور عبادت گاہوں کی طرف سے یہ اپیل جاری کی گئی کہ اہانت آمیز بیانات پر احتجاج ختم کر دیا جائے۔
برقی ذرائع ابلاغ کا جال پھیلنے، انٹرنیٹ انقلاب آنے اور سوشل میڈیا کی ہر کس و ناکس تک بے روک رسائی سے قبل بھی لوگ متنازع بیانات میں اُلجھتے تھے۔ اجودھیا تنازع کے انہدامی موڑ سے گزرنے والوں کے ایسے کئی بیانات نے پیچیدگیاں پیدا کی تھیں۔ اُس زمانے میں اپنے موقف یا بیان کی مدافعت میں لوگ یہ کہتے تھے کہ اُن کا بیان سیاق و سباق سے الگ کر کے یا توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ یہ مدافعت کہیں درست تو کہیں غلط ثابت ہوتی تھی گویا میڈیا کا ایک حلقہ کل بھی غیر ذمہ دار تھا۔ اب زمانہ آڈیو /ویڈیو کلیپنگ کا ہے۔اِن کلیپنگس کے ساتھ بھی شاطرانہ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے، جو کبھی فوراً تو کبھی بعد از خرابی بسیار پکڑ لی جاتی ہے۔ اس گرفت میں پہلے یہ دیکھا جاتا تھا کہ کہیں کوئی ایڈیٹنگ تو نہیں کی گئی! اب لوگ باگ اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ یعنی آڈیو یا ویڈیو کے صرف اُس حصے کو پیش کر دیتے ہیں جو مقصد پورا کر رہا ہو۔ ایسے میں کسی بھی بحث کا پورا ماحول نئے دیکھنے/ سُننے والوں کے سامنے نہیں آپاتا ۔ پھر کیا ہوتا ہے! یہ ہم سبھی کوئی دوہفتے سے دیکھ رہے ہیں۔ چند با اثر لوگوں کی شرارت اور اُس شرارت کی چند جذباتی لوگوں کی طرف سے ناعاقبت اندیشانہ گرفت نے تہذیبی تصادم کے خطرے سے دوچار معاشرے کو اچانک ایک ایسے نقصان سے دوچار کر دیاہے جس سے بچنے کیلئے دور اندیشانہ فیصلوں سے کام نہیں لیا گیا تومحدود /یکطرفہ سوچ اور ترکی بہ ترکی مزاج رکھنے والے حالات کو مزید بے قابو بنا سکتے ہیں۔
بین فرقہ منافرت کے تازہ ایپی سوڈ میں دیکھا جائے تو عددی اعتبار سے کمزور فرقے کے بزعم خود نمائندوں نے یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات کا معروضی جائزہ لینے اور مطابقت کے ساتھ قدم اٹھانے کے بجائے اپنی ساری دلچسپیاں اور سرگرمیاں اُن ویڈیوز کو عام کرنے تک محدود رکھیں جوناعاقبت اندیش جذباتی لوگوںکو انجام کار سڑکوں پر لے ہی آئیں ۔اس طرح مذمت سے پُرتشدد احتجاج تک کا سفر بے لگام آگے بڑھتا گیا ۔ورنہ کل بشمول اردو میڈیا نے کسی خبر کو عام کرنے کے نتیجے کی پروا کیے بغیرسُرخیوں میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی دوڑ میں ملک کو کتنا پیچھے چھوڑ دیا ہے، اس کا اندازہ لگانا غیر ذمہ داروں کے بس کا روگ نہیں۔
غیر صحت مند بین مذاہب اختلاف کا یہ عصری منظرنامہ بظاہر ایک سال یا ایک دہائی میں ہر گز بدلتا نظر نہیں آتا۔ علم اور عقیدے میں ایک بعد المشرقین یہ ہے کہ عقیدہ ٹس سے مس نہیں ہوتا اور علمی بحث کبھی ختم نہیں ہوتی۔ مثلاً اگر عقیدے کی پاسداری میں دونوں فرقے کے مذہبی نمائندے کبھی کسی مشترکہ پلیٹ فارم سے یہ اعلان بھی کر دیں کہ ہندوؤںکے کسی عمل سے ویدوں اور اپنیشدوں میں متشرح ہندو مذہب کو نہ پرکھا جائے اور مسلمانوں کے کسی عمل کو قرآن پاک و پیغمبر صلعم کے اسلام کی ترجمانی پر محمول نہ کیا جائے تو اِس اعلان سے اہلِ علم ہرگز مطمئن نہیں ہوں گے اور اُنہیں یہ سوال کرنے سے کوئی نہیں روک پائے گاکہ ’’اگر ایسا ہے تو پھر مذہبی تعلیمات پر کون عمل کرے گا!‘‘
اس بحث میں اب چونکہ جارحیت بُری طرح حاوی ہو گئی ہے، اس لیے امکانات کا کوئی بھی دروازہ فوری طور پر کھلتا نظر نہیں آتا۔ البتہ وسوسے اور اندیشے ہی تادیر دامن گیر رہ سکتے ہیںکیونکہ رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگی میں ہم دوسروں سے بہت زیادہ پچھڑ کر رہ گئے ہیں۔ یہ محض ایک واقعہ یا دوسروں کیلئے عبرت کی چیز نہیں، ہمیں ایمانداری سے صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ پچھڑ کر رہ جانے والوں میں ہم سب سے آگے کیوں ہیں! اورہمیں کِن عناصر نے محض اس دوڑ کا حصہ بنا کر رکھ دیا ہے!! سنبھلنے کے لیے اب بھی وقت ہے۔قلیل مدتی ازالے کیلئے ہمیں سنجیدہ غور و فکر سے کام لیتے ہوئے سب سے پہلے اس بے ہنگم دوڑ سے باہر نکلنا ہوگا۔ جذبات پر روشن خیالات کو ترجیح دیناہوگا، خواہ وہ اُدھار ہی کیوں نہ لینا پڑے۔یہ کام وسیع تر اشتراک عمل کے بغیر ممکن نہیں اس لیے معاملہ فہم لوگوں کو آگے بڑھا یا جائے۔
طویل مدتی قدم سب سے پہلے تعلیمی میدان میں اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اِس ادراک کے ساتھ کہ تعلیمی سفر کے آغاز میں خالص نظریاتی تعلیم ذہنی کشادگی کیلئے انتہائی مُضرت رساں ہوتی ہے، اُسے ابتدائی اور بلوغت کی دہلیز پار کرنے سے پہلے کے درمیانی درجات کا حصہ نہ بنایا جائے، بلکہ آئندہ کیلئے اٹھا رکھا جائے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچوں کو دین سے ناواقف رکھا جائے ۔دین ہی تو ہر اہلِ مذہب کی شناخت ہے لیکن اس واقفیت کو ابتدا میں اتنی وسعت نہ دی جائے جو بچوں کے اندر ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے کی جگہ ردّ و قبول کے جذبے کو ایکدم سے تحریک دینا شروع کر دے۔نئی نسل کو تفریق پسندانہ نظریاتی تعلیم کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کیلئے لازمی ہے کہ ابتدائی تعلیم کے دوران درس و تدریس کو مذاہب کے تعارف اور بین مذاہب احترام تک محدود رکھا جائے۔ جداگانہ پہچان معصوم ذہنوں میں اس طرح مستحکم نہ کی جائے کہ ان کا ذہن سوچنے سے زیادہ ماننے والا بن کر رہ جائے اور پھر وہ کبھی اس سے باہر نہ نکل سکیں۔
ناقوس و اذاں دونوں کا مقصد ہے جگانا
فطرت کے تقاضوں کو خوش انجام بنانا
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]