سیاسی جماعتوں نے 18جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخاب کیلئے اپنی اپنی حکمت عملی بنانی شروع کردی ہے۔ صدارتی انتخاب کیلئے الیکشن کمیشن نے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے اور ایک درجن امیدواروں نے اپنی نامزدگی بھی داخل کردی ہے۔ لیکن نہ تو حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی نے اب تک اپنے امیدوار کے نام کا اعلان کیا اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں کسی مشترکہ امیدوار پر متفق ہوپائی ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کیلئے نہ تو امیدوار کا تعین مشکل ہے اورنہ اسے کامیاب بنانا۔ امیدوار کے طور پر کئی نام اس کے زیرغور ہیں جن پر جلد ہی فیصلہ کرلیا جائے گا۔نیز اس انتخاب کیلئے مطلوب اکثریت کے بھی وہ کافی قریب ہے اوراسے جنوب کی کئی علاقائی سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہونے کی امید ہے۔ تاہم یہ بھی درست ہے کہ بی جے پی کے پاس 2017 کے صدارتی انتخابات کے مقابلے میں کم ایم ایل اے ہیں، لیکن ان کے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ۔حالیہ دنوں ہونے والے راجیہ سبھا انتخاب میں بی جے پی کے8امیدواروں کی جیت سے بھی بی جے پی کاحوصلہ بلند ہے ۔بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے پاس صدارتی انتخاب کے کل 10.86 لاکھ ووٹوں میں سے 5.26 لاکھ یعنی 48 فیصد ووٹ ہیں۔اڑیسہ کی بیجو جنتادل، آندھرا پردیش کی وائی ایس آر کانگریس اور تمل ناڈو کی اے آئی اے ڈی ایم کے پہلے ہی بی جے پی کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دینے کا وعدہ کر چکی ہیں۔ بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہمارے امیدوار کے الیکشن ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لیکن ان سب کے باوجود بی جے پی نے اپنا میدوار طے نہیں کیا ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر صدارتی امیدوار طے کرے، اس سلسلے میں وزیردفاع راج ناتھ نے اپوزیشن لیڈروں سے بات چیت بھی شروع کردی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی کدوکاوش کو دیکھنے کے باوجود یہ قدم اٹھایا ہے اور پہلے ہی مرحلہ میں اپوزیشن اتحاد کے اہم ستون سمجھے جانے والے لیڈروں کانگریس کے ملک ارجن کھڑگے، ممتابنرجی،‘اکھلیش یادو، نوین پٹنائک اورا دھو ٹھاکرے سے بات چیت کی ہے ۔
ادھر حزب اختلاف کسی ایک امیدوار کے نام پرا ب تک متفق نہیں ہوپایاہے۔ مشترکہ امیدوار کیلئے کانگریس کی پہل کا کوئی جواب دینے کے بجائے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سپریمو ممتابنرجی نے اپنی الگ راہ نکالی اور دہلی میں حزب اختلاف کی میٹنگ بلالی، اس میٹنگ میں بھی کسی ایک نام پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی غیر موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں کی اس میٹنگ میں16جماعتوں کے لیڈران شامل ہوئے، ممتابنرجی نے شرد پوار کے نام کی تجویز پیش کی لیکن شرد پوار نے پیرانہ سالی کا حوالہ دیتے ہوئے انتخاب لڑنے سے انکار کردیا۔اس کے بعد فاروق عبداللہ اورگوپال کرشن گاندھی کے نام سامنے آئے لیکن بات بن نہیں پائی ۔
صدارتی انتخاب کیلئے نامزدگی کی آخری تاریخ 29 جون ہے، اس سے پہلے پہلے ا میدوار کا تعین ہوجانا چاہیے ۔حزب اختلاف کی میٹنگ ختم ہوئے تین دن ہوچکے ہیں لیکن اب تک کسی ایک نام پرا تفاق رائے نہیں ہوپایا ہے۔کہاجارہاہے کہ اپوزیشن جماعتوں کا اگلا اجلاس 21 یا 22 جون کو ہونے کا امکان ہے۔لیکن اب اپوزیشن لیڈروں کو راج ناتھ سنگھ کا فون آنے کے بعد یہ میٹنگ ہوگی بھی یا نہیںاس پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے کیوں کہ اپوزیشن کی کئی ایسی جماعتیں ہیں جوممتابنرجی کی کوششوں سے متفق نہیں ہیں۔ان کی میٹنگ میں ٹی آرایس، اکالی دل حتیٰ کہ عام آدمی پارٹی کا کوئی نمائندہ بھی شامل نہیں ہوا۔ اروند کجریوال نے تو صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ امیدوار کا اعلان ہوجانے کے بعد ہی وہ اس پر غور کریں گے۔ آندھرا پردیش کے وزیراعلیٰ جگن موہن ریڈی بھی اس میٹنگ سے غیرحاضر رہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کو تو اس میٹنگ کیلئے دعوت ہی نہیں دی گئی تھی۔
حالانکہ صدارتی انتخاب اپوزیشن اتحاد کیلئے ایک سنہرا موقع تھا لیکن قومی لیڈر بننے کی جلدی میں ممتابنرجی اس اتحاد کیلئے مطلوب حکمت عملی پر پوری توجہ نہیں دے پارہی ہیں اور نہ ہی تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لاناچاہتی ہیں، ایسے میں یہ امکان کم ہوتاجارہاہے۔ اب اپوزیشن اتحاد اور صدارتی انتخاب کیلئے مشترکہ امیدوار کی تمام امیدیں4دنوں بعد ہونے والی میٹنگ پر ٹکی ہیں ۔راج ناتھ سنگھ کا اپوزیشن لیڈروں کو فون کیے جانے کے بعد اس پر بھی اوس پڑتی نظرآرہی ہے۔
[email protected]
صدارتی انتخاب اوربے سمت اپوزیشن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS