علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنی ذمہ داری بخوبی اداکررہی ہے

0

سید عتیق الرحیم
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی صرف اپنی اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے نہیں بلکہ اسلامی اقدار، تہذیب و ثقافت اور اپنی عمدہ روایت کی وجہ سے پوری دنیا میں ممتاز ہے یہ برہنہ حقیقت ہے کہ سر سید احمد خان نے اگر علیگڑھ تحریک کی ابتدا کر کے یہ ادارہ نہ قائم کیا ہوتا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی اقتصادی سیاسی حالت ناپید ہوتی، آج ہندوستان میں جہاں بھی مسلمان مختلف شعبوں و محکموں میں نظر آتے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسی ادارے سے ہوتا ہے، چاہے وہ علم و تحقیق کا شعبہ ہو یا ادب و صحافت کا، فلمی دنیا کا سفر ہو یا کھیل کے میدان کاغرض ملک کی ترقی کے جن جن میدانوں میںمسلمانوں کی نمائندگی رہی ہے اور کامیابی کے بلند آسمانوں سے جو بوندیں پڑ رہیں ہیں بلا شبہ وہ ابر اسی ادارے سے اٹھا ہے۔
سر سید زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کی بربادی اور زوال سے فکر مند رہتے تھے اور اسی فکر مندی اور پریشانی نے ان کو مسلمانوں کی ترقی کے لئے عملی جدوجہد شروع کرنے کا حوصلہ دیا انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی قوم کے مسائل کا حل تلاش کیا، اپنی تاریخ پر صرف اتراکر یا تقریر کر کے نفس کو مطمئن نہیں کیا بلکہ مضبوطی کے ساتھ مخالفت اور انجام کی پرواہ کئے بغیر میدانِ عمل میں اُتر گئے۔ آج ملک میں مسلمانوں کے حالات کیا ہیں وہ کسی بھی عقلمند اور باشعور شخصیت سے پوشیدہ نہیں ہیں،اطمینان کی بات یہ ہے کہ آج ان حالات میں بھی نیک نیتی کے ساتھ مثبت انداز میں مذکورہ مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں ہو رہی ہیں،وائس چانسلرپروفیسر طارق منصور کی سربراہی میںادارے کی تعلیمی سرگرمیاں عروج پر ہیں یہی وجہ ہے کہ وزارت تعلیم حکومت ہند کی سربراہی میں “نیک”نے اپنے سروے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اے پلس مقام عطا کیا ہے ۔
سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بڑے علمبردار تھے، انہوں نے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کی تحریک شروع کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہ انیسویں صدی کے بڑے مصلح اور رہبر تھے انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت عملی جدوجہد کی وہ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ ” سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اْن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اْن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اْنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں نوکریوں کے دروازے اْن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں ختم ہو چکی تھیں سر سید دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان مزدورخانساماں اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے، موجودہ وقت میں بھی ملک کی یہی صورت حال ہے مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزاموں میں جیل میں ڈالا جا رہا ہے ان کے املاک پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے ، ان کی عباد ت گاہوں اور تعلیمی اداروں پر حملہ کیا جا رہا ہے ایسے میں ملک کے مسلمانوں کے اندر اسی طرح خوف و حراس ہے جیسا سر سید کے دور میں تھا ایسے میں مسلمانوں کو صحیح راہ پر لانے کے لئے ان کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے کے لئے بہترین حکمت عملی کے ساتھ ان کی تعلیمی سطح کو مضبوط کرنا ضروری ہے ، فی الوقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ذمہ داری قوم کے تئیں بڑھ جاتی ہے اور یہ ذمہ داری موجودہ وائس چانسلر بخوبی نبھا بھی رہے ہیں ، دو سال کے بعد یونیورسٹی کیمپس مکمل طور سے کھلا ہے جہاں ایک طر ف مختلف نئے نئے پروفیشنل کورس شروع کئے گئے ہیں وہیں ملازمت کے بھی مواقع فراہم کئے جارہے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ان کے اوپر کچھ لوگ الزام لگا رہے ہیں لیکن جس طرح سر سید نے انگریز حکومت سے قریب ہوکر ملت کے مفاد میں اتنا بڑا تعلیمی ادارہ قائم کر لیا اسی طرح پروفیسر طارق منصور بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو محفوظ اور مضبوط کر رہے ہیں ۔
قابل ذکر ہے کہ سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اور ہر ملت کے لئے کام کرنے والوں کی صرف تنقید کرتے رہیں گے ا س وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔سر سید کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج تعلیم ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطرسر سید تمام عمر جِدوجْہد کرتے رہے اور اسی جد وجہد کے نتیجہ کی شکل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم ہوئی۔ جس سے مسلمان فیضیاب ہو رہے ہیں لیکن کیا آج ہم سوچنے پر مجبور نہیں ہو رہے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کے حالات پسماندہ ہو چکے ہیں؟ ایک بار پھر ملازمت میں ان کا فیصد حد درجہ نیچے پہنچ چکا ہے اور ان کی جائیدادوں اور املاک پر قبضے ہو رہے ہیں ، جیل کی سلاخوں کے پیچھے بے گناہ مسلم نو جوانوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے’’ذرا سوچئے‘‘ آخر ان حالات سے کیسے نکلا جا سکتا ہے ؟کیا ان حالات میں بھی یونیورسٹی اور ملک کے دانشواران صرف ذاتی مفاد کے لئے یونیورسٹی وائس چانسلر کی مخالفت میں اپنا وقت ضائع کریں گے جس طرح کئی سالوں سے دیگر وائس چانسلرس کی مخالفت کرتے رہے ہیں ، کبھی علاقائیت کے نام پر تو کبھی بیروکریسی لابی اور سائوتھ لابی کے نام پر اور ساتھ ہی وائس چانسلر کی مدت ختم ہونے سے پہلے حکومت وقت سے بے وجہ شکایتیںکرنا اور “پاور سیز”کرنے کا مطالبہ کیا آگے بھی کرتے رہیں گے جبکہ یونیورسٹی کے دانشوران اساتذہ اور ابنائے قدیم کی سابقہ ان غلطیوں سے ادارے کو اور ملت کو کافی نقصان پہنچا ہے ، ان حالات میں ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور یونیورسٹی کے طالب علم بھی رہے ہیں ، استاذ بھی رہ چکے ہیں اور ٹیچر ایسوسی ایشن کے ذمہ دار بھی رہ چکے ہیں ، ایگزیکیوٹیو کائونسل کے کئی بار ممبر بھی رہ چکے ہیں ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ مدتوں بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایسا وائس چانسلر ملا جو یہیں پید ا ہوا ، یہیں تعلیم حا صل کی یعنی سچا اور پکا علیگ تو ان سے زیادہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو کون سمجھ سکتا ہے اور کس کو اتنی محبت ہو سکتی ہے۔ آنے والے کچھ مہینوں میں نئے وائس چانسلر کی تقرری کا عمل شرو ع ہو جائے گا ایسے میں ہمیں سوچنا ہوگا جس طرح سے پچھلے پانچ سال ملک میں مسلمانوں کے حالات ناساز ہونے کے باوجود ادارے کو محفوظ رکھا ہے کیا پروفیسر منصور آئندہ بھی وقت کی اہم ضرورت نہیں ہیں؟
یاد رکھئے سر سید احمد خاں نے انیسویں صد ی میں مسلمانوں کے جس جمود کو محسوس کرتے ہوئے ان کی ترقی کے لئے عملی جدوجہد شروع کی تھی آج ہم ۲۱ ویں صد ی میں پہنچ گئے ہیں لیکن وہی جمود پھر قوم میں نظر آرہا ہے جس مشن میں ترقی ہونی چاہئے تھی قوم اسی جگہ( تنزلی کی طرف )پھر پہنچ رہی ہے ہمیں اس کے اسباب تلاش کرنے ہوںگے حقیقتوں سے آنکھیں ملانی ہونگی اپنی کوتائیوں کا احساس کرنا پڑے گا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے عملی جد و جہد کرنی ہوگی۔آج ہماری قوم کے زیادہ تر دانشواران کا مزاج صرف اور صرف منفی ہو گیا ہے اگر کوئی مخلص شخص قوم کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ادارے کو ترقی پر لے جا نا چاہتا ہے تو اس کی مخالفت کو ہم اپنا خوشگوار فریضہ سمجھتے ہیں خاص طور سے ادارے کے سربراہ کی مخالفت تو بعض اساتذہ اور علیگ برادری اپنا محبوب مشغلہ سمجھتے ہیں جبکہ ادادے کے سربراہ سر سید کی فکر پر نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ کام کر رہے ہیں ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلرپروفیسر طارق منصور بھی ایسے ہی لوگو ں کی سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں باوجود اس کے کہ ان کے اب تک کے پانچ سالہ دور کو ادارے کے عہد زریں سے تعبیر کیا جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا، یونیورسٹی کی مجلس عاملہ (یونیورسٹی کورٹ)کے سب سے سینئرممبر خورشید احمد خاں کے مطابق اپنے وائس چانسلر شپ کے اول روز سے ہی طارق منصور نے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے کہ یہ یونیورسٹی ہندوستان کی اول نمبر کے تعلیمی ادارے کی حیثیت سے منظر عام پر آئے اور اس میں کامیابی ملی بھی ، انہوں نے جہاں ایک طرف تعلیمی معیار کی بلندی، ریسرچ اور تحقیق کی قدر دانی اور محنتی اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی ہے کوئی بھی غیر جانب دار شخص اس اعتراف حقیقت سے گریز نہیں کر سکتا۔طارق منصور نے سر سید کے سچے اور مخلص جانشین ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایک طرف یونیورسٹی کو علمی بلندیوں سے ہمکنار کیا وہیں دوسری طرف یونیورسٹی کی تزئین کاری میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی خاص طور سے جامع مسجدکی تزئین کاری، یونیورسٹی قبرستان کو صاف ستھرا اور منظم کرنا اور تاریخی اسٹریچی ہال کو ازسرنو بحال کرنااور ٹایم کپسول، سینٹنری گیٹ کی تعمیر ایک اہم قدم ہے۔ سر سیدنے کہا تھا کہ’’میں چاہتا ہوں کہ قوم کے نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں فلسفہ و نیچرل سائنس دوسرے ہاتھ میں قرآن اور پیشانی پر لا الٰہ الااللہ کا تاج ہو‘‘اہم با ت یہ ہے کہ ملک کے حالات جیسے بھی ہوں جانشین سر سید طارق منصور نے سر سید کے اس مشن کو رکنے نہیں دیا دو سال کووڈ کے دوران یونیورسٹی بند رہی لیکن پھر بھی جس طرح آن لائن درس و تدریس اور انتظامی امور چلتے رہے اور کسی کا نقصان نہیں ہوا یہ ایک ایسی شاندار مثال ہے جس کو ہمیشہ سنہرے لفظوں میں یاد کیا جائے گا ۔
آیئے ہم یہ عہد کریں کہ ماضی کی کوتائیوںکو در کنار کر کے ایک تابناک مستقبل کی تعمیر کریں گے اور ۲۱ ویں صدی میں ایک بار پھر مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کے لئے عملی جدوجہد کرینگے اور تمام ذاتی اختلافات کی زنجیروں سے اپنے آپ کو آزاد کرتے ہوئے صحیح معنوں میں سر سید کے جانشین بنیںگے یہی قوم کے اس مسیحا کو سچا خراج عقیدت ہوگا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS