عبدالماجد نظامی
جب سے حجاب کے خلاف فرقہ پرست طاقتوں نے کرناٹک میں محاذ آرائی شروع کی ہے تب سے آج تک یہ مسئلہ لگاتار سرخیوں میں بنا ہوا ہے۔ پہلے تو مسلم بچیوں کو حجاب کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں داخل ہونے سے روکا گیا تاکہ ان کی تعلیم کا سلسلہ موقوف ہوجائے اور ان کے سامنے ترقی کی راہیں مسدود رہیں۔ پھر معاملہ جب عدالت پہنچا تو امید کی جا رہی تھی کہ وہاں سے کوئی ایسا فیصلہ صادر ہوگا جو بھگوا رنگ والوں کی مذہبی جنونیت کو لگام لگانے میں معاون ہوگا اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ماحول سازگار ہوگا۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اس کے برعکس ہائی کورٹ نے حجاب کے مسئلہ پر اپنا جو فیصلہ سنایا، اس نے معاملہ کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا اور ایک طریقہ سے فرقہ پرست طاقتوں کے موقف کی تائید ہوگئی۔ عدالتوں کے اسی طرح کے فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں مستقل تیزی آ رہی ہے۔ مذہبی عبادت گاہوں پر دست درازی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ کرناٹک عدالت کا یہ فیصلہ صرف مسلمان بچیوں کے لیے ہی مایوس کن نہیں تھا بلکہ اس ملک کے ان تمام اصحاب علم و دانش کے لیے لمحۂ فکریہ تھا جنہوں نے اس ملک میں درپیش دستوری مسائل کے مناسب حل کے لیے ہمیشہ عدالت کی طرف امید سے دیکھا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد اس ملک میں جمہوری قدروں کے تحفظ سے متعلق ساری توقعات ختم ہوگئیں۔ اس کے برعکس نتیجہ یہ نکلا کہ کرناٹک میں روز بروز بڑھتی فرقہ واریت کے زہر کے خلاف ملک کے ممتاز صنعت کاروں اور خود بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈران نے آواز بلند کرنا شروع کر دیا۔ ابتداء میں یہ قیاس آرائی ہو رہی تھی کہ ایسی آوازوں کا شاید کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ نکلے۔ لیکن امید کی کرن تب ایک بار پھر نمودار ہوتی نظر آئی جب کرناٹک کے اعلیٰ دماغ مفکرین اور دانشوروں نے بھی پوری قوت کے ساتھ اس کلچر کے خلاف اپنی آواز اٹھانا شروع کر دیا۔ اس کا آغاز سب سے پہلے جناب جی راما کرشنن اور دیوانورمہادیون نے کیا۔ ان حضرات نے یہ اعلان کر دیا کہ کرناٹک کی حکومت اسکول اور کالج کے نصاب میں ان کی تحریروں کو آئندہ نہیں پڑھا سکتی ہے۔ ان کے فوراً بعد ہی ادیب اور پروفیسر جناب ایس جی سدّارامیا نے بھی یہ اعلان کر دیا کہ نویں کلاس کے کنڑ موضوع پر ان کی جو تحریریں اب تک داخل نصاب رہی ہیں، ان کے پڑھائے جانے کی اجازت اب حکومت کو نہیں ہوگی۔ ان دانشوران نے اپنے لیے گئے فیصلہ اور اختیار شدہ موقف کو بالکل واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ یہ فیصلہ دراصل تعلیم کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے کے خلاف ان کا احتجاج ہے۔ سدّارامیا نے صرف اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ داخل نصاب اپنی تحریروں کی تدریس کی اجازت واپس لے لی بلکہ راشٹر کوی ڈاکٹر جی ایس شیوارودرپا پرتسٹھان کی صدارت سے بھی استعفیٰ دے دیا اور ان کے ساتھ دیگر ممبران نے بھی استعفیٰ پیش کر دیا۔ اس قسم کے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ابھی بھی ایسی آوازیں اس ملک میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ پورے عزم کے ساتھ دستوری اصولوں کی حفاظت کے لیے قربانیاں پیش کر رہی ہیں۔ یہی وہ تاریخی قربانیاں ہیں جو اس ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھلسنے سے روکنے والی قوتوں کے طور پر یاد رکھی جائیں گی اور مستقبل کا مورخ جب اس دور کے مسائل کو لکھے گا تو ان کے نام کو جلی حروف میں لکھ کر ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ممتاز ہیروؤں میں انہیں شامل کرے گا اور وہ ملک کی سالمیت کی راہ میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دینے والے اعلیٰ فکر دانشوروں کے سرخیل میں شمار کیے جائیں گے۔ آئندہ نسل بھی اس بات کو یاد رکھے گی کہ اس ملک میں جب عدالتیں مستقل مایوس کر رہی تھیں تب باضمیر دانشوران زندگیٔ نو کے لیے نغمہ سنج ہو رہے تھے اور عوام میں امید کی نئی روح پھونک رہے تھے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]