جموں وکشمیر کے حالات

0

ایسالگتا ہے کہ جموں وکشمیر میں ٹارگیٹ کلنگ کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ انتظامیہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود یہ سلسلہ بند نہیں ہورہا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے کہ صرف ایک ماہ کے اندر ٹارگیٹ کلنگ کے 6واقعات رونما ہوگئے ۔تازہ معاملہ کلگام کے ایک بینک میں گھس کر برانچ منیجروجے کمار کو گولی مارنے کا ہے ، جس سے ان کی موت ہوگئی ۔اس سے قبل 12مئی کو بڈگام میں سرکاری ملازم راہل بھٹ ، 13مئی کو پلوامہ میں پولیس اہلکار ریاض احمد ،24مئی کو کانسٹیبل سیف اللہ قادری ،25مئی کو ٹی وی آرٹسٹ امرین بھٹ اور31مئی کو کلگام میں ہی ایک ٹیچر رجنی بالاکوگولی مارکر ہلاک کردیا گیا تھا۔یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ حملے ایک مخصوص مذہب یاکمیونٹی کے لوگوں پر کیے جارہے ہیں ۔جیساکہ کچھ معاملوں میں ہنگامے کے ذریعہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی بلکہ بلاتفریق مذہب وکمیونٹی ٹارگیٹ کلنگ کاسلسلہ چل پڑا ہے ۔ایسی بات بھی نہیں ہے کہ سرکار خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔انتظامیہ سرگرم ہے پھر بھی حملے بند نہیں ہورہے ہیں۔تازہ حملے کے بعد بھی خبر ہے کہ مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال، راکے سربراہ اورپی ایم اومیں وزیرمملکت جتیندرسنگھ کے درمیان اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی ۔کل بھی مرکزی وزیرداخلہ نے ایک اورمیٹنگ طلب کی ہے جس میں جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا شامل ہوں گے۔ اس میٹنگ میں ان حملوں کی روک تھام اورلااینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کے لیے نئی حکمت عملی تیار کی جائے گی اورنئے انتظامات کرنے پر غوروخوض کیا جائے گا۔ کیونکہ اس طرح کے حملوں سے سماج میں غلط پیغام جارہا ہے اورخوف ودہشت کا ماحول بن سکتا ہے ۔جو کسی کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتا ۔
اس طرح کے واقعات پر سماج کی طرف سے کس طرح کے ردعمل آرہے ہیں ، یہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہے ۔لوگ سڑکوں پر آگئے ہیں۔12مئی کو محکمہ ریونیو کے ملازم کشمیری پنڈٹ راہل بھٹ کے قتل کے بعد سے وادی میں کشمیری پنڈتوں کا مظاہر ہ جاری ہے ۔وزیراعظم روزگارپیکیج کے تحت ملازمت پانے والے کشمیر ی پنڈٹ 19دنوں سے مظاہرہ کررہے ہیں ۔یہ وادی میں سب سے طویل عرصے تک جاری رہنے والا مظاہرہ بن چکا ہے۔ان کشمیر ی پنڈتوں کو اپنے تحفظ کی فکر اس قدر لاحق ہوگئی ہے کہ وہ اپنا ٹرانسفر جموں بلکہ ریاست سے باہر کرانے کی مانگ کررہے ہیں، جو پریشانی کی بات ہے،بہرحال انتظامیہ ان کا ٹرانسفرجموں کرانے پر تیار ہوگئی ہے۔لیکن اس سے سوال تو ختم نہیں ہوگا اورمسئلہ حل نہیں ہوگا۔ دیگر مذاہب کے لوگوں پر جو حملے ہورہے ہیں،ان کو انتظامیہ کہاں ٹرانسفر کرکے تحفظ فراہم کرے گی؟ان حملوں کو روکنے یا ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔جس کے لیے یہ پتہ لگانا ہوگا کہ آخر یہ حملے کون لوگ کررہے ہیں؟ کیوں کررہے ہیں ؟اوروہ کیا چاہتے ہیں؟حملوں کو مذہبی رنگ دینے سے مسئلہ نہ کبھی حل ہوا ہے اورنہ حل ہوگا،بلکہ اس کی تہہ میں جانا ہوگا ۔تب ہی کوئی حل نکلے گا۔ یہاںسوال صرف کشمیری پنڈتوں کے تحفظ کا نہیں ہے بلکہ ہر کشمیر ی اور وہاں موجود باہر کے لوگوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے کاہے ۔جس پر بہت کم بات کی جاتی ہے ۔سب کو ساتھ لے کر سبھی میں اعتماد پیداکرکے ہی لوگوں میں تحفظ کا احساس پیداکیا جاسکتا ہے اورحملہ آوروں کے منصوبوں کوناکام بنایا جاسکتا ہے ۔
جموں وکشمیر میں نہ تو حملے نئے ہیں اورنہ ہی لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس۔جب حالات خراب ہوتے ہیں توحملے بڑھ جاتے ہیں، اس وقت بھی کچھ ویسے ہی حالات ہیں۔لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پھرحالات بہتر ہوجاتے ہیں اورحملے بند ہوجاتے ہیں۔ دراصل سماج میں جب حملے کے بعد بے چینی پھیلتی ہے اورلوگ سڑکوں پر آتے ہیں تو حملہ آوروں کے حوصلے اوربڑھ جاتے ہیں اوروہ اپنے حملوں میں تیزی لے آتے ہیں۔ پھر اعلیٰ سطحی میٹنگوں کادورچلنے لگتا ہے۔ لیکن جلد ہی حالات قابومیں آجاتے ہیں۔اس وقت بھی یہی امید ہے کہ انتظامیہ کی کوششوں سے جلد ہی حالات بہتر ہوجائیں گے اورریاست میں امن وامان کا ماحول بنے گا جس کی سب کو ضرورت ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS