چیف ویجیلنس کمشنر رہ چکے ہندوستان کے سینئر بیوروکریٹ این وٹھل نے ایک بار کہا تھا کہ بیوروکریٹس سیاستدانوں سے زیادہ کرپٹ ہوتے ہیں،کیونکہ سیاستدانوں کو عوام ایک مقررہ وقت کے بعد ہٹا سکتے ہیں، لیکن بیوروکریٹس اپنی سروس کی پوری زندگی میں کرپشن کرتے رہتے ہیں۔این وٹھل کایہ بیان ان کی زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے جس کا انہوں نے اظہار کردیا لیکن آزادی کے 75سال بعد بھی آج عوام اتنے مجبور ہیں کہ وہ بیورکریسی کے کرپشن کا شکار ہونے اور قدم قدم پر اس کاتجربہ کرنے کے باوجود اس کی شکایت نہیں کرپاتے ہیں۔کوئی ایک آدھ معاملہ اجاگر بھی ہوجاتا ہے تو بیوروکریٹس کی پوری برادری متحد ہوکر مزاحمت پراترآتی ہے اوربدعنوان سیاست داں بھی ان کے ہم رکاب ہوجاتے ہیں۔ معاملہ سردخانہ کی نذر ہوجاتا ہے اور شکایت کرنے والا پس زنداں کردیاجاتا ہے۔نچلی سطح کے بیوروکریٹس کو تو کہیں نہ کہیں لگام ڈالنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے لیکن بالائی سطح پر پس پردہ حکمرانی کرنے والے بیوروکریٹس ہر طرح کی گرفت سے آزاد ہیں اور ان کی اکثریت کارشتہ عوا م کے ساتھ آقااور غلام کا ہے۔
ملک کے ساتھ ایسا ہی رشتہ رکھنے والے ایک سینئر بیوروکریٹ کا واقعہ شہ سرخیوں میں ہے۔یہ بیوروکریٹس دہلی حکومت میں پرنسپل سکریٹری ہیں اور انہیں اپنے پالتو کتے کے ساتھ سیر کا چسکا ہے۔ یہ شام کے وقت سیر کو نکلتے ہیں اور مقامی تھیاگ راج اسٹیڈیم میں اپنے کتے کو ٹہلاتے ہیں لیکن وہاں ایتھلیٹ کی ہونے والی کوچنگ کی وجہ سے ان کی سیر کا مزہ کرکرا ہورہا تھا اس لیے ایتھلیٹ کو وہاں سے باہر نکال دیا گیا تاکہ وہ بیورکریٹ اپنے کتے کے ساتھ سیر کرسکیں۔ کھلاڑیوں اور کوچزکاکہنا ہے کہ انہیں شام 7 بجے ٹریننگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کیوںکہ ان سب کے جانے کے بعد ایک آئی اے ایس افسر اپنے کتے کے ساتھ سیر کیلئے وہاں آتا ہے۔تنازع اتنا بڑھا کہ وزیراعلیٰ اروند کجریوال کو سامنے آنا پڑا اورا نہوں نے دہلی کے تمام اسٹیڈیم رات10بجے تک عوام کیلئے کھولے رکھے جانے کی ہدایت جاری کردی۔ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوتاہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ مشتے نمونہ ازخردارے کے مصداق یہ واقعہ خود کو ہندوستان جنت نشان کا مالک و مختار سمجھنے والی بیوروکریسی کی آمرانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔
جمہوریت میں حکمرانی کے نظام کو ہموار طریقے سے چلانے کی ذمہ داری عاملہ پر عائد ہوتی ہے، جس میں عوام کے منتخب نمائندے پالیسی طے کرتے ہیں اوربیوروکریسی ان پر عمل درآمد کرتی ہے۔ اس طرح بیوروکریسی عاملہ کا ایک ناگزیر حصہ اورحکمرانی کا بنیادی محور ہے۔ لیکن اپنی اس حقیقت کے علی الرغم ہندوستان میں بیوروکریسی نے خود کو مالک و مختارسمجھ رکھا ہے اوراس کی وجہ ایک ہے کہ حکومتیں تو اکثر بدل جاتی ہیں لیکن انہیں چلانے والی بیوروکریسی جوں کی توں رہتی ہے۔ خود ہمارے وزیراعظم نریندرمودی بھی بیوروکریسی کے رویہ کے شاکی رہ چکے ہیں۔کچھ عرصہ قبل سول سروس ڈے کے موقع پر وزیراعظم نے کہاتھا کہ سینئر بیوروکریٹس نہ تو اپنے ماتحتوں کی بات سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی عوام کی اور یہی غلامی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ ایک طرح سے بیوروکریسی میں قرون وسطیٰ کی جاگیرداری نظر آتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب استحصال کا انداز بدل گیا ہے اور اس کامرکزی کردار ’بدعنوانی‘ہے۔
ا ب تو بیوروکریسی اتنی طاقتور ہے کہ سول سروس کوڈ میں دیے گئے بے تحاشہ اختیارات یہ صرف اپنے مفادات کیلئے استعمال کررہی ہے اور ملک کے غریب عوام کا استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی اسکیموں کیلئے مختص فنڈزکے بہائوکا رخ اپنے گھروں کی طرف کرلیا ہے۔جھارکھنڈ میں تعینات خاتون آئی اے ایس افسر پوجاسنگھل اس کی بدترین مثال ہیں جن کے گھر سے حالیہ دنوں ہی کڑوروں روپے نقد برآمد کیے گئے ہیں۔حکمرانی کے اس بنیادی محور بیوروکریسی نے ملک اور معیشت دونوں کو نقصان پہنچایا ہے اورا سی کانتیجہ ہے کہ ملک میں وافر وسائل ہونے کے باوجود چاروں طرف غربت، بے روزگاری اور مایوسی کا ماحول ہے۔
آزادی کے بعد ہم نے برطانوی نظام حکومت کی بہت سی چیزوں کو اپنایا، جس میں بیوروکریسی بھی شامل ہے۔جسے برطانوی راج سے مل رہا قانونی تحفظ آج بھی جاری ہے۔آزادی کے بعد بہت کچھ بدل گیا لیکن بیوروکریسی کی وضع و ساخت کی تبدیلی کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ بیوروکریسی ان ہی خطوط پر چلتی رہی جو انگریزوں نے اپنی حکومت کے تحفظ کیلئے بنائے تھے۔ دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ ہمارے آئین کی دفعہ311 بھی بیوروکریسی کے تحفظ میں سیسہ پلائی دیوار ہے۔اس دفعہ کے مطابق کسی بھی افسر کی جانب سے سروس کے دوران کیے گئے کام کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کیلئے متعلقہ ریاست یا مرکزی حکومت کی اجازت لینا ضروری ہے۔ اس قانونی شق کا غلط استعمال کرتے ہوئے بیوروکریسی جاگیرداری جیسی ہوگئی ہے اور عوام کو اپنا مزارع بنالیا ہے۔
آزادی کے75سال بعد بھی بیوروکریسی کو ضرورت کے مطابق ڈھال نہ پانا ہماری صریحاًناکامی ہے۔ اگر ہم ’ وشوگرو‘ کا کوئی حقیقی خواب رکھتے ہیں اور سب کو انصاف اور ترقی کے ثمرات ہمارا مقصد ہے تو ہمیں قانونی تحفظ کی ہر شق کو آئین سے قلم زد کرتے ہوئے بیوروکریسی کو ان کے اعمال اور ذمہ داریوں کیلئے مکمل جواب دہ بنانا ہوگا۔
[email protected]
بیوروکریسی یا جاگیرداری ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS