ایک پرانے محاورے میں صدیوں سے اپنے ساتھ گھن کو بھی پسوانے کا الزام جھیل رہا گیہوں ان دنوں ایک نئے تنازع کا موضوع بن گیا ہے۔ دنیا کی گیہوں کی ضرورت پورا کرنے کے لحاظ سے روس اور یوکرین اہم ممالک ہیں لیکن وہاں جنگ چھڑی ہونے کے سبب سپلائی متاثر ہے جس سے پوری دنیا میں گیہوں کی قلت ہوگئی ہے۔ ایسے میں گیہوں کی کھپت کرنے والے ممالک ہندوستان سے اس کی تلافی کی امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن گیہوں کی برآمد سے ہندوستان کے انکار کے بعد ان ممالک میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
13مئی کو حکومت نے سبھی ذاتی گیہوں کی برآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس فیصلہ سے بین الاقوامی بازاروں میں گیہوں کی قیمتوں میں سنامی آگئی ہے۔ شکاگو میں بینچ مارک گیہوں انڈیکس 5.9فیصد تک بڑھ گیا، جو دو ماہ میں سب سے زیادہ ہے۔ بریڈ اور کیک سے لے کر نوڈلس اور پاستہ تک ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، کیوں کہ دنیا کے کموڈٹی بازاروں میں گیہوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ حالات سے بے حال کم سے کم 47ممالک نے ہندوستان سے گیہوں کی ڈیمانڈ کی ہے، کئی دیگر نے اشارہ دیا ہے کہ انہیں بھی اس کی ضرورت ہوگی۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ گیہوں کی مانگ کرنے والے ممالک کی فہرست کو مسلسل بڑھتے دیکھ کر تشویش میں مبتلا درآمدی ممالک ہندوستان سے اپنے دوطرفہ تعلقات کو بنیاد بناکر سفارتی درخواست کی ڈپلومیسی پر بھی اُتر آئے ہیں۔ تقریباً ایک درجن ممالک نے وزارت خارجہ سے رابطہ کرکے جاننا چاہا ہے کہ کیا ہندوستانی گیہوں کے لیے ان کی مانگ کو پورا کیا جائے گا؟
ایک طرف ضرورت مند ہیں جو ہندوستان کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں، تو دوسری جانب عالمی بازار کو اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرنے والے وہ ممالک بھی ہیں جو آنکھیں دکھا کر ہندوستان پر فیصلہ بدلنے کا دباؤ بھی ڈال رہے ہیں۔ جرمنی میں جی-7ممالک نے ایک میٹنگ میں ہندوستان کے فیصلہ پر تنقید کی ہے اور اس سے صورت حال کے کنٹرول سے باہر جانے کا انتباہ دیا ہے۔ 19مئی کو امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کے فیصلہ پر کم و بیش وہی باتیں دہرائیں جو جی-7ممالک نے کہیں۔
عالمی سیاست میں حالات کو پلٹ کر ’شیرش آسن‘ لگانے کا یہ نظریہ مثال کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے گیہوں کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کے فیصلہ پر جو امریکہ آج ناراضگی کا اظہار کررہا ہے، وہی امریکہ کبھی ہمیں ہماری گیہوں کی ضرورت پوری کرنے کے نام پر دھمکی دیتا رہا اور ’بھکاریوں کا ملک‘ بتایا کرتا تھا۔ یہ آزادی کے بعد کا وہ دور تھا جب ہم گیہوں کے لیے امریکہ پر منحصر تھے۔ 1964میں ملک میں سالانہ محض ایک کروڑ ٹن گیہوں پیدا ہوتا تھا۔ مانسون کے دغا دینے کی وجہ سے ہندوستان میں اناج کی پیداوار میں کمی آرہی تھی۔ سال 1964اور 1965میں ہندوستان کو خشک سالی تک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن یہی وہ وقت تھا جب خشک سالی کے سبب ہندوستان نے آخری بار اناج کا بحران دیکھا کیوں کہ سبز انقلاب کے بوتے ہندوستان نے 1970تک اپنی گیہوں پیداوار دوگنی کرلی اور پھر 1980آتے آتے اناج کی پیداوار میں پوری طرح خودکفیل ہوگیا۔ امریکہ کو واضح ہو کہ یہ اکیسویں صدی کا وہ دور ہے، جب ہم ’شپ ٹو ماؤتھ‘ کی حالت کو بہت پیچھے چھوڑ کر دنیا کا اہم گیہوں اور چاول پیدا کرنے والا ملک بن چکے ہیں۔ امریکہ کو یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ عالمی سیاست میں اپنی پہچان بنانے کے لیے بھی ہندوستان اب کسی کا محتاج نہیں رہا ہے، بلکہ آج ہندوستان کے ساتھ جڑکر دوسرے ممالک دنیا میں اپنی امیج بنانے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔ امریکہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اس لیے جی-7یا امریکہ یہ سمجھنے کی غلطی قطعی نہ کریں کہ ہندوستان ان کے دباؤ میں آکر برآمد کا فیصلہ بدل لے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے معاملہ میں چین نے ہندوستان کی حالت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو الزام دینے سے عالمی خوراک کے بحران کا حل نہیں نکلے گا۔ ویسے بھی ہندوستان بھلے ہی دنیا کا دوسرا سب سے بڑا گیہوں پیدا کرنے والا ملک ہو، لیکن وہ کبھی اس کا اہم برآمد کنندہ نہیں رہا کیوں کہ گیہوں کی زیادہ تر فصل گھریلو بازاروں میں فروخت کی جاتی ہے۔ بیشک روس پر پابندی سے قبل، ہندوستان نے اس سال ریکارڈ 10ملین ٹن گیہوں بھیجنے کا ہدف بھی رکھا تھا۔ یہ ایک طرح سے حالیہ یوروپ دورہ پر وزیراعظم نریندر مودی کے ’’بھارت دنیا کا پیٹ بھرنے کے لیے تیار ہے‘‘ والے بیان کی تصدیق کرنے جیسا ہی تھا۔ لیکن تب حالات دیگر تھے۔ ہمارے اہم گیہوں پیدا کرنے والی ریاستوں پنجاب، ہریانہ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں پڑرہی غیرمعمولی گرمی کے سبب پیداوار میں وسیع پیمانہ پر کمی آنے سے ہندوستان کو یہ فیصلہ لینا پڑا۔ فصل کا بڑا حصہ گرمی کے سبب خشک ہوگیا تھا اور کچھ معاملات میں انسانوں کے کھانے لائق بھی نہیں بچا تھا۔ نتیجتاً، گیہوں کی پیداوار کا جو سرکاری اندازہ پہلے 113.5ملین ٹن تھا، وہ اب کم ہوکر 105ملین ٹن رہ گیا ہے۔ ایسے میں حکومت نے برآمد پر پابندی کا ایک فیصلہ لے کر تین اہم مقاصد کو یقینی بنایا ہے۔ پہلا ملک کی فوڈسیکورٹی کو یقینی بنانا اور مہنگائی کو قابو میں رکھنا، دوسرا خوراک کی کمی کا سامنا کرنے والے ممالک کی مدد کرنا اور تیسرا سپلائر کے طور پر ہندوستان کی معتبریت کو قائم رکھنا جس کے لیے ہندوستان پابندی کے باوجود 13مئی سے قبل ہوئے برآمد کے معاہدے (ایکسپورٹ ایگریمنٹ) کو پورا بھی کررہا ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے ایک ایک اعتراض کو میرٹ کی بنیاد پر خارج کرتے ہوئے ہندوستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ گیہوں برآمد پوری طرح نہیں روکی گئی ہے، بلکہ اسے کنٹرول کیا گیا ہے۔ جن ممالک کو فوڈسیکورٹی کے لیے گیہوں کی ضرورت ہوگی، ان کی تجاویز کو ہندوستان ہمدردی کی بنیاد پر ترجیح بھی دے گا۔ حکومت کے اس دعوے میں بھی دم نظر آتا ہے کہ پابندی عائد کرکے اس نے دیگر ممالک کی طرح کوئی غیرمناسب یا سخت پالیسی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ یوکرین بحران اور اگلے سیزن کے لیے فصل خراب ہونے کے مدنظر کئی ممالک نے اپنی خوراک کی برآمد پر ایکسپورٹ ٹیکس کے طور پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ اسی طرح ہندوستان نے مغرب کو آئینہ دکھاتے ہوئے یہ بھی واضح کردیا کہ کم سے کم وہ ایسے حالات نہیں پیدا کررہا ہے جس میں گیہوں کا تنازع کووڈ ٹیکوں کی طرح غیربرابری کی لڑائی بن جائے جس میں امیر ممالک نے کووڈ ٹیکوں کی ایسی ذخیرہ اندوزی کی جس کے سبب غریب اور کم وسائل والے ممالک اپنی آبادی کو پہلی خوراک دینے میں بھی جھوجھتے نظر آئے۔ اس کے برعکس ہندوستان نے ہزاروں میٹرک ٹن گیہوں، آٹا اور دال کی شکل میں اپنے پڑوسیوں اور افریقہ سمیت کئی دیگر ممالک کو ان کی فوڈ سیکورٹی مضبوط کرنے کے لیے دیے ہیں۔ افغانستان میں بگڑتے انسانی حالات کے بیچ جہاں ہندوستان نے 50,000 میٹرک ٹن گیہوں بھیجا ہے، وہیں سری لنکا کو بھی اس کے مشکل وقت میں خوراک کی امداد سمیت دوسری مدد پہنچائی ہے۔ پڑوسیوں اور انسانیت کی مدد کے اپنے عزم سے ایک انچ بھی بے چین نہیں ہوتے ہوئے ہندوستان نے صاف گوئی سے دنیا کو یہ بھی باور کرادیا ہے کہ برآمد کا فیصلہ حکومت کی سطح پر ہوگا جیسا کہ عالمی بازار میں ہر ملک کرتا ہے۔ یہاں تک کہ گھریلو ضرورت ہوئی تو ہندوستان تمام سوالات کو طاق پر رکھ کر استثنیٰ کے طور پر انڈونیشیا سے گیہوں کے بدلے پام آئل کا سودا بھی کرے گا۔
گزشتہ کچھ وقت میں یہ دوسرا موقع ہے جب ہندوستان نے دنیا کو اپنی سفارت کاری میں تبدیلی کا اشارہ دیا ہے۔ اس سے پہلے یوکرین پر حملہ کے بعد روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کے باوجود اسلحہ اور تیل لینے کے فیصلہ پر بضد رہ کر ہندوستان دنیا کو واضح کرچکا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی اب غیرملک سے نہیں بلکہ ملک کی ضرورتوں اور قومی مفاد کے مطابق چلتی ہے۔ گیہوں پر چھڑی جنگ میں ہندوستان ایک مرتبہ پھر اسی ’رنگ‘ میں نظر آرہا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
گیہوں کے ساتھ ’گھن‘ نہیں پسنے دے گا ہندوستان
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS