انجنیئر خالد رشید علیگ
ادے پور میں کانگریس کا سہ روزہ ’نو سنکلپ چنتن شور‘ اختتام کو پہنچا اور ملک کے سبھی سیاسی تجزیہ نگار جو اپنے اپنے قلموں میں روشنائی ڈال کر اس کیمپ کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے تھے، ان کے قلموں کو کوئی مصالحہ دار چٹ پٹی خبر ہاتھ لگی نہ ہی کوئی ایسا غیر متوقع اعلان ہوا جو گودی میڈیا یا مین اسٹریم میڈیا میں سرخیاں بٹور سکتا۔ بی جے پی میڈیا جو ہر خبر میں اپنے مطلب کی خبر نکالنے میں مہارت حاصل کر چکا ہے، اسے بھی کچھ ایسی ہی مایوسی ہاتھ لگی جیسی MCD کے بلڈوزر کو شاہین باغ میں لگی تھی، لیکن چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے کیسے جائے۔ بی جے پی میڈیا نے ایک بار پھر کانگریس کو پاکستانی پارٹی ثابت کرنے کے لیے ترنگے سے بھگوا رنگ غائب کر دیا۔ لال قالین کو بھگوا رنگ کا بتا کر اسے بھگوا کی توہین قرار دے دیا۔ کل ملا کر جتنی سرخیاں کانگریس کے اس سہ روزہ اجلاس کو ملیں، اس سے کہیں زیادہ پرشانت کشور کے ایپی سوڈ کو مل چکی تھیں۔ بہرحال جو تین اہم با تیں اس اجلاس سے واضح ہوئیں ان میں پہلی تو یہ کہ کانگریس اپنے آپ کو جس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس راہل کا کوئی متبادل نہیں ہے اور بالآخر وہ کانگریس کے صدر ہوں گے لیکن اس نیک کام کا مہورت کب نکلے گا یہ بھی راہل اور سونیا ہی جانتے ہیں، لہٰذا اس اجلاس میں اس کی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی یعنی کانگریس کو ابھی کچھ دن اور عبوری صدر کے بھروسے رہنا ہوگا۔ دوسری اہم بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ کانگریس ابھی بھی اپنی سافٹ ہندوتو کی پالیسی پر تذبذب کا شکار ہے اور دو گروپ میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پارٹی کا ایک گروپ وہ ہے جو پارٹی کی پرانی سیکولر پالیسی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، اس کا خیال ہے کی بی جے پی کی ہندوتو کی گاڑی میں ایک اضافی ڈبہ بن کر لگ جانے سے بی جے پی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا، اگر عوام بی جے پی کی ہندو امیج کی وجہ سے اس کے ساتھ ہیں تو ان کو نرم ہندوتو متاثر نہیں کر سکتا، اس لیے کانگریس کو اپنی پرانی سیکولرزم کی پالیسی پر قائم رہنا چاہیے۔ جبکہ دوسرا گروپ اس خیال سے متفق نہیں، اس کے خیال میں کانگریس کو ہندوؤں کے زیادہ قریب نظر آناچاہیے، اس خیال کی ترجمانی چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ بھو پیش بگھیل نے اجلاس میں کی۔ اس سے پہلے بھی کانگریس کے کچھ لیڈر اس فارمولے کی وکالت کر چکے ہیں کہ کانگریس کو مسلم پارٹی بننے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں بھی دونوں فریق کو کسی واضح پالیسی کے اعلان کا انتظار تھا جو پھر ملتوی ہوگیا۔ تیسری اہم دوا جو کانگریس کی بیماری کے لیے تجویز کی گئی، وہ یہ ہے کہ کانگریس کو عوام سے رابطہ بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے کانگریس نے اپنی عبوری صدر سونیا گاندھی کے لیے ایک عوامی رابطہ یاترا کا بھی اعلان کیا جو کشمیر سے شروع ہوکر کنیا کماری میں ختم ہوگی۔ یہ یاترا عبوری صدر کیوں کریں گی، اس کی وضاحت کسی نے نہیں کی۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ یہ یاترا نیا صدر کرتا اور شاید آج کانکریس کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ کانگریس عوامی توجہ سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ سونیا گاندھی نے اپنے خطاب میں اس بات پر بھی زور دیا اور کہا کہ کانگریس کو عوام سے رابطہ بڑھانا چاہیے۔ یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ کانگریس کے عوامی روابط میں کمی آئی ہے۔ کانگریس کے تمام لیڈروں کی تشویش کی یہی وجہ ہے کہ پارٹی عوام سے دور ہوتی جارہی ہے۔ کانگریس کے اندر جی- 23 ہو یا کانگریس کے باہر وہ جمہوریت پسند لوگ ہوں جن کا یقین ہے کہ کسی بھی جمہوریت کے خاتمے کی پہلی سیڑھی یہی ہوتی ہے کہ اس ملک میں حزب احتلاف یا تو ختم جاتا ہے یااتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ اس کی آواز حکومت کے ایوانوں تک پہنچتی ہی نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی تھا کہ کانگریس G-23 کے حوالے سے بھی اس اجلاس میں کوئی اہم فیصلہ کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔جہاں تک کانگریس کی اپنی قیادت کا سوال ہے، اس کا اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہونا یقینا ایک فطری عمل ہے۔ کانگریس کی موجودہ قیادت کے ماتھے پر جو تفکر کی لکیریں ہیں، ان کو کم کرنے کے لیے چنتن شور نہیں بلکہ ایک ایسی کرشماتی قیادت کی ضرورت ہے جو اندرا گاندھی کی طرح ایسی صلاحیت رکھتی ہو جو غیر موافق حالات سے نہ صرف لڑنا جانتی ہو بلکہ ان کو اپنے حق میں موڑ لینے کا ہنر جانتی ہو۔ دراصل کانگریس کو بجائے کوئی نیا سنکلپ لینے کے اپنے ماضی پر ایک تفصیلی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی میں اختلافات ہونا کوئی غیر فطری عمل نہیں ہوتا اور جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے وہاں تو اختلافات کی لمبی فہرست موجود ہے۔ ملک کی تقسیم کے بعدکانگریس ستر بار اختلافات کے سبب تقسیم ہو چکی ہے لیکن اس وقت پارٹی کو اس بحران سے نکالنے کے لیے اندرا گاندھی جیسے طاقتور لیڈر موجود تھے۔ مثال کے طور پر 1969 میں نجلنگپا نے اندرا گاندھی کو پارٹی سے نکال دیا جو اس وقت ملک کی وزیراعظم تھیں۔ کانگریس کے تمام سینئر لیڈر اندرا گاندھی کے خلاف تھے لیکن اندرا گاندھی نے نہ صرف وی وی گری کو پارٹی کی مخالفت کے باوجود ملک کا صدر بنوایا بلکہ پوری سینئر قیادت کو ہی پارٹی سے نکال کر اس پر مکمل قبضہ کیا۔ صرف دو سال بعد ہی بنگلہ دیش بناکر بقول اٹل بہاری واجپئی درگا دیوی بن گئیں اور بقول ڈی کے بروا انڈیا ہی اندرا اور اندرا ہی انڈیا ہوگیا۔ آج کانگریس کو اگر کسی بات کا چنتن کرناچاہیے ،وہ یہ ہے کہ کانگریس کے پاس سخت فیصلے لینے والے لیڈر کیوں پیدا نہیں ہوتے۔ آج کانگریس کا سب سے بڑا مسئلہ کانگریس کی کمزور قیادت ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ پارٹی ایک ڈوبتا ہوا جہاز بن گئی ہے۔ کانگریس کی حکومت دو ریاستوں تک محدود ہو چکی ہے۔ کانگریس کے پاس اتنے ایم ایل اے بھی نہیں کہ وہ اپنے کچھ لیڈر راجیہ سبھا بھیج سکے، اسی لیے کانگریس میں ڈسپلن شکنی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صرف دو ریاستوں میں کانگریس کی حکو مت ہے، ان میں بھی راجستھان کب تک محفوظ رہے گا، کوئی نہیں جانتا۔ دوسرا اہم ایشو کانگریس کی ’آدھا تیترآدھابٹیر‘ کی پالیسی ہے۔ کانگریس کے کئی لیڈر مانتے ہیں کہ پارٹی کو سافٹ ہندوتو کی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ پرمود کرشنن اور بھوپیش بگھیل کہہ چکے ہیں۔ موجودہ چنتن شور میں بھی اسی قسم کی آوازیں سنائی دیں کہ پارٹی کو اس قسم کی پالیسیز اپنانی چا ہئیں کہ وہ ہندوؤں کے قریب نظر آئے جبکہ دوسرا گروپ وہ ہے جو سافٹ ہنداتو کا مخالف ہے ،اس کا کہنا ہے کہ پارٹی کو نہرو گاندھی کے متعین کردہ راستہ پر چلنا چاہیے۔ ایسی صورت میںکانگریس کو ایک مضبوط لیڈر کی ضرورت ہے جو پارٹی کے حق میں واضح اور سخت فیصلے لینے کی سکت رکھتا ہو۔ اس اجلاس کی ایک اور اہم بات پارٹی کے سابق صدر راہل کا خطاب تھاجس میں انہوں نے ایک بار پھروہی بات دہرائی کہ علاقائی پارٹیاں بی جے پی کا متبادل نہیں بن سکتیں۔ راہل کی بات کسی حد تک صحیح ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت راہل کو تسلیم کرنی چاہیے کہ اب ان کی پارٹی بھی ایسی حالت میں نہیں ہے کہ وہ بنا علاقائی پارٹیوں کے بی جے پی کامقابلہ کر سکے۔ اگر آنے والے 2024 کے انتخابات کی بات کریںتو ملک کی کم ازکم 225 سیٹیں ایسی ہیں جن پر کانگریس اورغیر بی جے پی کے درمیان سیدھا مقابلہ ہوگا جن میں سے 90% بی جے پی آسانی سے جیت لے گی باقی 230 پر علاقائی پارٹیاں ہی بی جے پی کو ٹکر دیںگی۔ اجلاس کے اختتام پر سونیا نے کہا: ’’We shall over come one day ‘‘یعنی ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔ کانگریس کے ساتھ ملک کے دوسرے جمہوریت پسندلوگ بھی اپنے دل میں یہی خواہش رکھتے ہیں کہ ملک میں ایک طاقتور حزب اختلاف ہو لیکن یہ سب کس طرح ہوگا، اس کا جواب کم سے کم کانگریس کی موجودہ قیادت کے پاس تو نہیں ہے، ویسے سیاست امکانوں کا کھیل ہے۔
rvr