پنکج چترویدی
اپریل ماہ کے ابتدائی دنوں میں ہندوستان کے 12 ماہی گیر غلطی سے سری لنکا کی سرحد میں گھس گئے اور پکڑے گئے، انہیں کلینوچچی کی عدالت نے ایک ایک کروڑ کی ذاتی ضمانت پر چھوڑنے کے احکام دیتے ہوئے اگلی تاریخ 12 مئی رکھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان ماہی گیروں کی حیثیت ایک کروڑ کی ضمانت دینے کے لائق ہوتی تو وہ جان خطرے میں ڈال کر گہرے سمندر میں مچھلی پکڑنے کا کام نہیں کرتے ہوتے۔ بہرحال، اس پر سیاست جاری ہے۔ تمل ناڈو کے وزیراعلیٰ اسٹالن نے وزیر خارجہ جے شنکر سے اس معاملے میں دخل دے کر رہائی کے لیے قدم اٹھانے کی درخواست کی ہے۔ وہیں بی جے پی سے وابستہ ماہی گیروں کی تنظیم کا مطالبہ ہے کہ 1974 میں اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ذریعے ایک معاہدے کے تحت سری لنکا کو سونپے گئے پوک اسٹریٹ میں 285 ایکڑ کچّاتیوو جزیرے کو اگر واپس لے لیا جاتا ہے تو ہندوستانی ماہی گیروں کو جال ڈالنے کے لیے زیادہ جگہ ملے گی اور وہ سری لنکا کی سرحد میں غلطی سے بھی نہیں جائیں گے۔
یہ سچ ہے کہ رامیشورم کے بعد ہندوستانی ماہی گیروں کو انٹرنیشنل میری ٹائم باؤنڈری لائن (آئی ایم بی ایل) تقریباً 12 سمندری میل ملی ہے، جو بہت کم ہوتی ہے۔ اس میں بھی چھوٹی کشتیوں کے لیے پہلے پانچ سمندری میل چھوڑے گئے ہیں۔ یہاں پانچ سے 8 سمندری میل کے درمیان کا علاقہ چٹانی ہے اور مچھلی پکڑنے کے جال نہیں بچھائے جا سکتے۔ رامیشورم ساحل سے محض 8-12 میل کے درمیان تقریباً 1500 مشینی کشتیوںکے ذریعے ماہی پروری کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ہمارے تین ہزار سے زیادہ ماہی گیر سری لنکن فوج کے ذریعے پکڑے گئے، کئی کو گولی لگی اور مارے گئے-سیکڑوں برسوں تک جیل میں رہے۔ انسان تو واپس آ بھی گئے لیکن ان کی کشتیاں وہیں ضبط رہیں۔ یہ بات سرکاری اعداد و شمار قبول کرتے ہیں کہ ’جنوری 2015 سے جنوری 2018 کے درمیان 185 ہندوستانی کشتیاں سری لنکن بحریہ نے ضبط کیں، 188 ہندوستانی ماہی گیر مارے گئے اور 82 ہندوستانی ماہی گیر لاپتہ ہیں۔
ہندوستان اور سری لنکا میں خلیج بنگال کے کنارے رہنے والے لاکھوں کنبے صدیوں سے سمندر میں ملنے والی مچھلیوں سے اپنا پیٹ پالتے آئے ہیں۔ جیسے کہ مچھلیوں کو معلوم نہیں کہ وہ ملک کی سرحد میں گھس رہی ہیں ویسے ہی ہندوستان اور سری لنکا کی حکومتیں بھی طے نہیں کر پا رہی ہیں کہ آخر سمندر کے لامحدود پانی پر کیسے سرحد کی لکیر کھینچی جائے۔ حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان انٹرنیشنل میری ٹائم باؤنڈری لائن حدبندی کے لیے دو معاہدے 1974 اور 1976 میں ہوئے لیکن تمل ناڈو کے ماہی گیر معاہدوں کو قبول نہیں کر رہے ہیں۔ اس میں بڑی رکاوٹ کچّاتیوو جزیرہ ہے جسے معاہدے کے تحت سری لنکا کو دے دیا گیا۔ معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کے ماہی گیر کچّاتیوو کا استعمال آرام کرنے اور اپنے جال سکھانے کے ساتھ ساتھ وہاں سینٹ انتھونی مقدس مقام میں پوجا کرسکتے تھے۔ 1983 تک ایسا ہوتا بھی رہا- ایک تو اس وقت تک ہندوستانی ماہی گیروں کی تعداد کم تھی اور جافنا میں بدامنی بھی نہیں تھی۔
ہندوستان کے ماہی گیر طبقے کا اعتراض ہے کہ یہ معاہدہ ان سے پوچھے بغیر کر دیا گیا۔ ہمارے ماہی گیر کہتے ہیں کہ ایک تو جزیرہ چھن جانے سے اب انہیں اپنے ساحل پر آکر ہی اپنے کام کرنے پڑتے ہیں۔ پھر اس سے ان کا مچھلی پکڑنے کا علاقہ بھی کم ہو گیا۔ جب تب ہندوستانی ماہی گیر اس طرف چلے جاتے ہیں اور سری لنکا کی بحریہ ان کی کشتی توڑ دیتی ہے، جال بے کار کر دیتی ہے اور کئی بار گرفتاری اور حملے بھی ہوتے ہیں۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جب سے شہری بندرگاہوں پر جہازوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہوا ہے تب سے گودی کے کئی کئی کلومیٹر تک تیل رسنے، شہری سیور ڈالنے و دیگر آلودگیوں کی وجہ سے سمندری مخلوق کی زندگی خطرے میں پڑگئی ہے۔ اب ماہی گیروں کو مچھلی پکڑنے کے لیے بستیوں، آبادیوں اور بندرگاہوں سے کافی دور نکلنا پڑتا ہے۔ جو کھلے سمندر میں آئے تو وہاں سرحدوں کو تلاش کرنا تقریباً غیر ممکن ہوتا ہے۔ جب انہیں پکڑا جاتا ہے تو سب سے پہلے سرحد کی پہریداری کرنے والا کوسٹ گارڈ اپنے طریقے سے پوچھ گچھ اور جامہ تلاشی کرتا ہے۔ چونکہ اس طرح پکڑ لیے گئے لوگوں کو واپس بھیجنا آسان نہیں ہے، لہٰذا انہیں مقامی پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ان غریب ماہی گیروں کے پاس پیسہ کوڑی تو ہوتا نہیں، لہٰذا یہ ’گڈورک‘ کے نوالے بن جاتے ہیں۔ درانداز، جاسوس، مخبر جیسے مقدمے ان پر ہوتے ہیں۔
دونوں ممالک کے مابین ماہی گیر تنازع کی ایک بڑی وجہ ہمارے ماہی گیروں کے ذریعے استعمال کی جانے والی کشتیاں اور طریقے بھی ہیں، ہمارے لوگ بوٹم ٹرالنگ کے ذریعے مچھلی پکڑتے ہیں، اس میں کشتی کے تلے سے وزن باندھ کر جال پھینکا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس طرح سے مچھلی پکڑنے کو ماحولیاتی نظام کے لیے نقصان دہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح جال پھینکنے سے ایک تو چھوٹی اور نوزائیدہ مچھلیاں جال میں پھنستی ہیں، ساتھ ہی بڑی تعداد میں ایسی پانی کی مخلوق بھی ان کی شکار ہوتی ہیں جو ماہی گیروں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ سری لنکا میں اس طرح کی کشتیوں پر پابندی ہے۔ وہاں سمندر کی سطح سے گہرائی میں مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں اور اس کے لیے نئے طریقے کی جدید ترین کشتیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستانی ماہی گیروں کی معاشی حالت اس طرح کی نہیں ہے کہ وہ اس کا خرچ برداشت کر سکیں۔ تبھی اپنی روایتی کشتی کے ساتھ ہندوستانی ماہی گیر جیسے ہی سری لنکا میں گھستا ہے، وہ غیرقانونی طریقے سے مچھلی پکڑنے کا قصوروار بن جاتا ہے۔ ویسے بھلے ہی تمل اِلم تحریک کا خاتمہ ہو گیا ہو لیکن سری لنکا میں سیکورٹی فورسز ہندوستانی تملوں کو مشتبہ نظر سے دیکھتی ہیں۔
ہندوستان-سری لنکا جیسے پڑوسیوں کے مابین اچھے باہمی تعلقات کے تحفظ کے لیے ماہی گیروں کا تنازع ایک بڑی چنوتی ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کنونشن آن دی لاء آف سیز (یو این سی ایل او ایس) کے مطابق، کسی ملک کی گراؤنڈ لائن سے 12 سمندری میل کی دوری پر اس کا علاقائی پانی سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے ماہی گیروں کی کشتیاں کئی دنوں تک سمندر میں رہ کر کام کرنے لائق نہیں ہوتیں اور وہ اسی دن لوٹتے ہیں، اس لیے خلیج منار جیسے علاقے قریبی سمجھے جاتے ہیں اور یہاں کئی مرتبہ 12 سمندری میل والا حساب کام نہیں آتا۔
ویسے تو ایم آر ڈی سی یعنی میری ٹائم رسک رِڈکشن سینٹر کا قیام کر کے اس عمل کو آسان کیا جا سکتا ہے۔ اگر دوسرے ملک کا کوئی شخص کوئی قابل اعتراض اشیا جیسے- اسلحہ، مواصلاتی آلات یا دیگر خفیہ سسٹم کے بغیر ملتا ہے تو اسے فوراً رہا کیا جائے۔ پکڑے گئے لوگوں کی اطلاع 24 گھنٹے میں ہی دوسرے ملک کو دینا، دونوں طرف معقول قانونی مدد مہیا کروا کر اس کشیدگی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ سمندری سرحدی تنازع سے متعلق سبھی قوانین کا یو این سی ایل او ایس میں التزامات موجود ہیں جن سے ماہی گیروں کی زندگی کو جہنم بننے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ضرورت تو بس دل سے ان پر عمل کرنے کی ہے۔
[email protected]