ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
گزشتہ روز ہمارے ملک میں ایسے دو واقعات ہوئے ہیں، جن پر ہندوستان کے مذہبی پیشواؤں اور رہنماؤں کو خصوصی طور پر فکر مند ہونا چاہیے۔ پہلا واقعہ حیدرآباد اور دوسرا گجرات میں ہوا۔ حیدرآباد میں ناگارجو نامی ایک ہندو نوجوان کو اس لیے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے سلطانہ نامی مسلمان لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ گجرات کے ایک گاؤں میں کچھ ہندوؤں نے دو دیگر ہندوؤں پر اس لیے حملہ کردیا کیونکہ وہ اپنی پوجاپاٹھ کو لاؤڈ اسپیکر پر سنا رہے تھے۔ واضح ہو کہ یہ حملہ نہ تو مسلمانوں پر ہندوؤں کا تھا اور نہ ہی ہندوؤں پر مسلمانوں کا! مذکورہ بالا دونوں حملے مختلف وجوہات کی بنا پر ہوئے اور ان کی وجوہات بھی مختلف ہیں لیکن دونوں میں بنیادی مماثلت بھی ہے۔ دونوں حملوں میں ہلاکتیں ہوئیں اور دونوں کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے۔ وہ وجہ ہے-عدم برداشت! گاؤں کے کچھ لوگوں نے نادانستہ یا جان بوجھ کر لاؤڈ اسپیکر لگا دیے تو اس سے کون سا آسمان ٹوٹ رہا تھا؟ انہیں روکنے کے لیے مار پیٹ اور گالیاں دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر لاؤڈ اسپیکر کی آواز واقعی اونچی تھی اور اس سے آپ کے کام میں کچھ حرج ہو رہا تھا تو آپ پولیس تھانے میں جا کر شکایت بھی کرسکتے تھے لیکن کسی کی آواز پر قابو پانے کے لیے آپ اس کی جان لے لیں، یہ کہاں کی انسانیت ہے؟ اس کے پیچھے کی باریک وجہ پڑوسیوں کا تکبر بھی ہوسکتا ہے۔ کسی ادنیٰ ہمسایہ کی یہ ہمت کیسے ہوگئی کہ وہ پوجاپاٹ کے نام پر سارے محلہ میں اپنے نام کے نگاڑے بجوائے؟ اگر حملہ آور دوسروں سے قانون پر اتنی سختی سے عمل کروانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے اپنے پڑوسی کو قتل کرکے کون سے قانون کی پاسداری کی ہے؟ جہاں تک ایک مسلمان لڑکی کا ایک ہندو لڑکے سے شادی کا سوال ہے تو دونوں کی دوستی کافی عرصے سے تھی۔ وہ شادی کسی مذہب کی تبدیلی کی مہم کے تحت نہیں کی گئی تھی۔ وہ خالص محبت کی شادی تھی۔ لیکن آج ہندوستان میں کوئی بڑا لیڈر یا بڑی تحریک ایسی نہیں ہے جو بین مذہبی اور بین ذات کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہو۔ ہم لوگ اپنے مذاہب اور جاتیوں کی سخت بیڑیوں میں ابھی تک جکڑے ہوئے ہیں۔ جو شخص ان سخت بیڑیوں سے آزاد ہے وہی سچا مذہبی شخص ہے۔ وہ ایشور کا سچا بھکت ہے۔ اگر ایشور ایک ہے تو اس کی پوری اولاد کیسے مختلف ہو سکتی ہے؟ ان کی رنگت، رہن سہن،کھان پان ملک اور زمانہ کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ ایک ہی باپ کے بیٹے ہیں تو ان میں تفریق کیسے کرسکتے ہیں؟ اگر آپ ان میں تفریق کرتے ہیں تو واضح ہے کہ آپ مذہبی ہیں ہی نہیں۔ آپ ایک نہیں بلکہ کئی خداؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کا ایک سنجیدہ مطلب یہ بھی ہے کہ ایشور نے آپ کو نہیں، آپ نے ایشور کو بنایا ہے۔ ہر ملک اور زمانہ میں لوگوں نے اپنے پسندیدہ ایشور کا تصور کرلیا ہے۔ ایسے لوگ حقیقت میں ایشور کے مخالف ہیں۔ ان کے رویے کو دیکھ کر دلیل پسند لوگ خدا کی حاکمیت پر شک کرنے لگتے ہیں۔
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]