ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
یہ بات جون 2016 کی ہے جب اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر میڈیا میں ہر طرف نظر آ رہے تھے اور یہ اعلان کر رہے تھے کہ ایران کے سفارتی عملے سعودی عرب کی سر زمین سے اگلے 48 گھنٹوں کے اندر روانہ ہو جائیں۔ ادھر ایران سے بھی سعودی سفارتی کاروں کو نکال کر متحدہ عرب امارات لے آیا گیا تھا۔ ایسا کیا ہوا تھا کہ اچانک اس قدر جلدی میں سارے سفارتی تعلقات ختم کر لئے گئے اور آج تک ان کی بحالی نہیں ہوپائی ہے۔ دراصل اس پورے واقعہ کا ایک پس منظر ہے جو سعودی عرب کے اعتبار سے گرچہ نیا نہیں تھا لیکن اگر سعودی۔ ایران تعلقات کی نوعیت اور چالیس سال سے زائد عرصہ سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری رقابت کو دھیان میں رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس قدر اہمیت کا حامل وہ واقعہ ہے جو 2016 میں وقوع پذیر ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ عادل الجبیر کے مذکورہ بالا بیان سے صرف ایک دن قبل سعودی عرب کی وزارت داخلہ نے 47 لوگوں کی پھانسی کا اعلان کیا تھا۔ ان میں چار افراد شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ان لوگوں پر الزام تھا کہ 2003 سے لے کر 2006 تک جو دہشت گردانہ حملے سعودی عرب میں ہوئے تھے ان میں یہ سب ملوث پائے گئے تھے۔ سعودی عرب کے مطابق ان سب کا تعلق عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تھا۔ اگر بات صرف القاعدہ کے ممبران کی پھانسی تک محدود رہتی تو شاید سعودی۔ ایران سفارتی تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن معاملہ سنگین اس لئے ہوگیا کہ جن چار شیعہ حضرات کو پھانسی دی گئی تھی ان میں ایک نام شیخ نمر النمر کا بھی تھا جس کا تعلق سعودی کے مشرقی صوبہ قطیف سے تھا۔ شیخ نمر کے نام سے معروف اس شیعہ عالم کے شیدائیوں میں سعودی عرب کے شیعوں کے علاوہ ایران کے شیعوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ شیخ نمر پر نوجوانوں کو بھڑکانے، ہتھیار رکھنے اور ملک میں بدامنی پھیلانے جیسے الزامات کے علاوہ ان پر آل سعود کے سخت ناقد ہونے کا بھی الزام تھا۔ 2011 میں جب عرب دنیا کے اندر ہر طرف عرب بہاریہ کی گونج سنائی دے رہی تھی تب شیخ نمر نے بھی قطیف میں احتجاجی ریلیاں نکال کر آل سعود کے خلاف سخت نعرہ بازی کی تھی۔ یہ چونکہ ایک بڑا شیعی عالم تھا جس نے دس برس تک ایران میں تعلیم حاصل کی تھی اور شیعوں کے درمیان گہرا اثر رکھتا تھا۔ لہٰذا اس کی پھانسی نے ایرانیوں کو مشتعل کر دیا۔ سعودی عرب نے نمر النمر کے معاملہ پر ایرانی ردعمل کو اپنے داخلی معاملوں میں مداخلت سے تعبیر کیا اور کسی بھی طرح سے اس بات کو قبول نہیں کیا کہ جس شخص پر اتنے سنجیدہ الزامات لگے ہوں اس کے دفاع میں کوئی دوسرا ملک کود پڑے۔ البتہ سعودی عرب کی دلیل کا اس مشتعل ایرانی شیعی بھیڑ پر کوئی اثر نہیں پڑا جو اپنے غصہ کا اظہار کرنے کے لئے تہران میں واقع سعودی سفارت خانہ پہنچ گئی تھی جہاں اس نے سفارت خانہ کو آگ لگادیا اور سعودی عرب کے مطابق اہم سفارتی دستاویزات اور کمپیوٹر کو لوٹنا شروع کر دیا۔ سعودی عرب نے اس واقعہ کے لئے سیدھے طور پر ایران کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور میڈیا کو بتایا کہ سعودی سفارت کاروں کی جانب سے مسلسل تعاون مانگنے کے باوجود ایرانی حکومت کے ذمہ داروں نے اسے نظر انداز کر دیا جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سعودی سفارتی عملوں کو جان بوجھ کر جنونی بھیڑ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے ایران پر لگائے گئے اپنے الزامات میں اس بات پر خاص طور سے زور دیا تھا کہ 1979 کے خمینی انقلاب سے لے کر آج تک ایران کی یہ تاریخ رہی ہے کہ یہاں سفارتی عملے محفوظ نہیں رہتے جیساکہ خمینی انقلاب کے فوری بعد امریکی سفارت خانہ کے ساتھ پیش آیا تھا اور اس کے بعد 2011 میں برطانوی سفارت خانہ کو ایرانی جنونی بھیڑ کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ سعودی عرب کا یہ الزام درست ضرور ہے لیکن اس کے پیچھے پیچیدہ تاریخی اسباب ہیں جن کی تفصیلات سے مشرق وسطی پر نظر رکھنے والے غیر جانب دار قارئین بخوبی واقف ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران اور سعودی تعلقات کی تاریخ میں یہ سب سے خراب دور تھا کیونکہ 2015 میں یمن پر ایران کے تربیت یافتہ حوثیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں فضائی حملہ شروع کر دیا گیا تھا۔ دوسری طرف شام میں بشار الاسد نے اپنے ہی عوام کے خلاف محاذ کھول رکھا تھا اور بدترین جنگی جرائم کے ارتکاب میں ملوث تھا اور ایران و روس کی مدد سے اپنی کرسی بچانے میں کامیاب رہا تھا کیونکہ ایران کا اثر و رسوخ شام میں بھی اتنا ہی زیادہ تھا جتنا کہ یمن میں بڑھ رہا تھا۔ نمر النمر کو جب پھانسی دی گئی تھی اس مرحلہ میں شام کے معاملہ پر بات چیت کا سلسلہ جاری تھا جس میں سعودی عرب اور ایران دونوں اہم رول ادا کر رہے تھے۔ نمر کی پھانسی سے اس بات چیت کے متاثر ہونے کا خدشہ بالکل فطری تھا۔ تیسری طرف عراق میں ایران کے قدم بہت جم چکے تھے کیونکہ داعش کو ختم کرنے میں ایران کے تربیت یافتہ ملیشیا بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے اور اس جنگ میں انہیں کامیابی بھی مل رہی تھی۔ امریکہ کے ذریعہ صدام حسین کو راستہ سے ہٹائے جانے کے بعد عراق میں ایران کا رسوخ کس قدر بڑھ گیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عام طور پر مشرق وسطی پر لکھنے والے صحافیوں میں یہ بات گردش کرتی رہتی تھی کہ امریکہ نے عراق سے صدام کو ہٹاکر اس کو ایران کے حوالہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے کامیابی کے ساتھ امریکہ اور چار دیگر طاقت ور ملکوں کے ساتھ نیوکلیئر مسئلہ پر گفتگو کرکے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ ایران آئندہ نیوکلیئر بم تیار نہیں کرے گا اور اس سلسلہ میں امریکی شرطوں کو مان بھی لیا تھا۔ اس کا فائدہ ایران کو یہ پہنچنے والا تھا کہ اس پر عائد اقتصادی پابندیاں تدریجی طور پر ختم ہو جاتیں اور بہتر مستقبل کی راہیں ہموار ہو جاتیں۔ گویا ایران کے نقطہ نظر سے یہ ایک ایسا مرحلہ تھا جس میں معلوم ہوتا تھا کہ ایران کو ہر محاذ پر آسانی سے کامیابی مل رہی ہے۔ ایران کی موہوم کامیابیوں کا یہی وہ پس منظر تھا جس میں ایک ایرانی ذمہ دار نے یہ بیان تک دے دیا کہ اب چار عرب راجدھانیاں ایران کے کنٹرول میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ بیروت کے علاوہ جہاں حزب اللہ ایران کے مفاد کی حفاظت برسوں سے کر رہا ہے ایرانی ذمہ دار کا اشارہ دمشق، صنعاء اور بغداد کی طرف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب نمر النمر کے معاملہ پر ایرانی ردعمل سامنے آیا تو سعودی۔ ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کا جو بھرم اب تک قائم تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔ لیکن کیا آج وہ حالات باقی ہیں؟ کیا آج بھی ایران یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ عرب ممالک کی چار راجدھانیاں ہمارے قبضہ میں ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 6 برسوں میں مشرق وسطی میں بڑی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ کو ختم کر دیا تھا جس کو بائڈن کی صدارت میں دوبارہ بحال کرنے کے لئے ویانا میں گفتگو جاری ہے لیکن اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ لبنان، عراق اور شام میں ایران کے اثر و رسوخ کو بلندی تک پہنچانے والا ایرانی جنرل قاسم سلیمانی امریکی ڈرون حملہ میں قتل کیا جا چکا ہے اور اس کا کوئی متبادل ایران کو اب تک نہیں مل سکا ہے۔ لبنان اپنے سیاسی اور اقتصادی بحران میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ اپنے لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی عزت سے نہیں دے سکتا اور اس میں خلیجی ممالک سے تعلقات بگاڑنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ یمن کے اندر بھی اب حوثیوں نے محسوس کر لیا ہے کہ بم و بارود سے اس مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا اور اسی لئے اقوام متحدہ کی قیادت میں جنگ بندی کے مسودہ پر دستخط کر چکا ہے اور سیاسی طور پر یمن مسئلہ کے حل کی راہ نکالنے میں اپنا تعاون پیش کر رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عراق جہاں ایران کا اثر و رسوخ نسبتاً زیادہ بڑھ گیا تھا اس کے ساتھ بھی سعودی عرب نے تیس برس کے بعد 2019 میں اپنے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں اور خود عراقی لیڈرشپ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی فٹبال بننے کے بجائے دونوں کو قریب لانے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی ہے جس میں عراق کے حالیہ وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کا رول بطور خاص قابل ذکر ہے۔ اب تک عراق کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان پانچ مرحلہ کی گفتگو ہو چکی ہے اور آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہوجاتی ہے اور سفارتی تعلقات بحال کرنے میں حقیقی دلچسپی دکھائی جاتی ہے تو یہ مشرق وسطی کے لئے ایک نئے اور سنہری دور کا آغاز مانا جائے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں