ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ہندوستانی سیاست کا یہ لازمی کردار بن گیا ہے کہ مفاد عامہ کے مسائل کو بھی فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ جیسے غیرقانونی مکانات کو گرانا اور مذہبی مقامات سے آنے والی انتہائی تیزآوازوں کو روکنا اپنے آپ میں فائدہ مند کام ہیں، لیکن انہی سے متعلق آج کل ملک میں مختلف فرقوں کے لیڈر اور سیاسی جماعتیں آپس میں دنگل پر آمادہ ہوگئی ہیں۔ ممبئی میں اب مہاراشٹر نو نرمان سینا نے دھمکی دے دی ہے کہ 3؍مئی(عید کے دن) تک اگر مہاراشٹر حکومت نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر نہیں ہٹائے تو وہ مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا کا پاٹھ کریں گے۔اگر یہ سینا سبھی مذہبی مقامات- مساجد، مندروں، گرجا گھروں، گرودواروں اور عبادت گاہوں پر ایسی پابندیوں کا مطالبہ کرتی تو یہ جائز ہوتا، لیکن صرف مساجد کو نشانہ بنانا خالص فرقہ پرستی ہے یا یوں کہیں کہ تھوک ووٹ کی سیاست ہے۔ اترپردیش کی یوگی حکومت نے اس کان پھوڑنے والی آواز کے خلاف مہم شروع کی تو اس نے کسی بھی مذہبی مقام کو نہیں بخشا۔ نہ صرف مندروں اور مساجد میں، اس نے جلوسوں پر بھی طرح طرح کی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ اسی طرح بلڈوزر ماما کی طرح مشہور ہوئے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان نے گزشتہ دنوں غیر قانونی مکانات کو گرانے میں کوئی امتیاز نہیں برتا۔ اس کے بلڈوزروں نے مسلمانوں کے جتنے مکان منہدم کیے، اس سے کہیں زیادہ ہندوؤں کے گھر گرائے۔ غیر قانونی مکانات کو گرانا تو ٹھیک ہے لیکن صرف فسادیوں کے ہی کیوں، تمام غیر قانونی مکانات کو گرانے کی یکساں مہم کیوں نہیں چلائی جاتی؟ مسمار کرنے سے پہلے انہیں آگاہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جو مکانات غلط طریقے سے گرائے گئے ہیں، ان مکانات کو پھر فوری طور پر دوبارہ تعمیر کرانا اور انہیں مناسب معاوضہ دیا جانا بھی ضروری ہے۔ غیر قانونی مکانات کی مسماری کا معاملہ ہو یا اونچی آواز پر کنٹرول کرنا ہو، کوئی بھی تفریق برتنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ جہاں تک مسجدوں سے آنے والی اذان کی آوازوں یا مندروں کی بھجن- منڈلیوں کے بجنے والے بھونپوؤں کا سوال ہے،دنیا کے کئی ممالک میں ان پر سخت پابندی ہے۔ ہمارے مسلمان ذرا سعودی عرب اور انڈونیشیا کی طرف دیکھیں۔ اسلام کے نقطہ نظر سے ایک سب سے اہم اور دوسرا، سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی مساجد میں لاؤڈ اسپیکر ہیں لیکن وہ ان کی 1/3آواز سے زیادہ نہیں چلا سکتے۔ انڈونیشیا میں اس طرح کی پابندیاں اور بھی باریکی سے لگائی گئی ہیں۔ نائیجیریا نے توکان پھوڑ آواز کی وجہ سے70گرجا گھروں اور20مساجد کو بند کر دیا ہے۔ ہوٹل اور بار بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ گاڑیوں کے ہارن کی آواز بھی محدود کردی گئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں بھی مذہبی لوگوں کو شور مچانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ یوروپ کے تقریباً دو درجن ممالک نے مذہبی علامتیں لگاکر باہر گھومنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ لیکن یہ ممالک ان پابندیاں کو عائد کرتے وقت اسلام اور عیسائیت میں فرق نہیں کرتے۔ جب پابندیاں سب کے لیے یکساں طور پر لگائی جائیں تبھی وہ محفوظ کہلاتی ہیں۔ مذہب کے نام پر جاری بے لگام ڈرامہ بازی اور دکھاوؤںکو روکنے میں بھی ان پابندیوں کا اہم کردارہوگا۔
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]