ہر دور میں حکومتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے ملک کو زیادہ سے زیادہ مستحکم بنائیں مگر دفاع پر خرچ ایک حد سے زیادہ بڑھ جائے تو تشویش پیدا ہونا فطری ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ یعنی سپری (SIPRI) کی یہ رپورٹ اسی لیے باعث تشویش ہے کہ پہلی بار 2021 میں دنیا کا دفاعی خرچ سب سے زیادہ رہا۔ گزشتہ برس دنیا بھر کے ملکوں نے دفاع پر 2.1 ٹریلین ڈالر خرچ کیا۔ خرچ کے معاملے میں امریکہ پہلے، چین دوسرے اور وطن عزیز ہندوستان تیسرے نمبر پر رہا۔ 2020 کے مقابلے 2021 میں دفاعی خرچ میں 0.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ ایک فیصد سے کم ہے، اس کے باوجود زیادہ اس لیے ہے، کیونکہ گزشتہ برس بھی دنیا کے بیشتر ممالک کورونا سے پریشان تھے، ہیلتھ سیکٹر میں ان کا خرچ بڑھا ہے، بڑی تعداد میں لوگوں کے بے روزگار ہونے سے بے روزگاری سے نمٹنا بھی ان کے لیے ایک مسئلہ رہا ہے، مہنگائی ایک الگ چنوتی بن کر ابھری ہے، اقتصادی سرگرمیاں 2020 سے پہلے کی طرح جاری نہ رہنے سے اقتصادی شرح نمو کافی متاثر ہوئی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود دفاع کی مد میں 0.7 فیصد کا اضافہ ہوجانا یہ اشارہ ہے کہ اگر حالات بہتر ہوتے تو یہ اضافہ کہیں زیادہ ہوتا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ اضافہ اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا کے 59 فیصد لوگ روزانہ 5 ڈالر بھی نہیں کما پاتے۔ دنیا کے لیے مفلسی کتنا بڑا ایشو ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ 25000 لوگ روزانہ بھوک سے مر جاتے ہیں مگر عالمی لیڈران انسانیت کی اچھی اچھی باتوں سے عالمی برادری کو بہلاتے رہتے ہیں، ان کے لیے مفلسی سے دنیا کو نجات دلانا نہ کبھی سنجیدہ ایشو تھا اور نہ ہی آج ہے۔ عراق جنگ کے بعد اس سوال نے اہمیت اختیار کرلی ہے کہ کیا ہر اس بے قصور ملک کی تباہی ممکن ہے جو طاقتور نہ ہو، کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے آج تک وہی ممالک نشانہ بنتے رہے ہیں جو دفاعی طور پر زیادہ مستحکم نہیں تھے۔ ایک بار کیوبن میزائل کرائسس کے وقت امریکہ اور سوویت یونین کے متصادم ہونے کے آثار بنے تھے مگر دونوں ملکوں کے لیڈروں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ملک اگر عراق جیسا کمزور ملک ہوتا تو کیا جنگ پھر بھی نہ ہوتی؟ عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے سے پہلے اچھی طرح یہ معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی کہ اس کے پاس واقعی عام تباہی کے ہتھیار ہیں یا نہیں۔ شمالی کوریا کی طرح اگر عراق بھی طاقتور ہوتا تو جونیئر بش، صدام حسین سے گفت و شنید میں اسی طرح دلچسپی لیتے جیسے ان کے بعد کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ-اُن سے گفتگو میں دلچسپی دکھائی، چنانچہ دفاعی خرچ میں اضافہ ہونا فطری ہے، البتہ یہ بات ضرور ناقابل فہم ہے کہ طاقتور ممالک بھی اگر دفاع پر خرچ کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پھران کے لیڈران انسانی بہبود اور عالمی امن کی باتیں کیوں کرتے ہیں؟
2021 میں عالمی دفاع پر کیے گئے خرچ میں سے 62 فیصد خرچ تو صرف 5 ممالک نے کییاور 38 فیصد خرچ دنیا کے بقیہ ممالک نے کیے۔ عالمی دفاع پر 62 فیصد خرچ کرنے والے ممالک امریکہ، چین، ہندوستان، برطانیہ اور روس ہیں۔ ان ٹاپ 5 ملکوں کے بعد دفاع پر خرچ کے معاملے میں جرمنی چھٹے، جاپان ساتویں، آسٹریلیا آٹھویں، ایران نویں اور نائیجیریا دسویں نمبر پر رہے۔ ان ٹاپ 10 ملکوں میںدفاع پر امریکہ کا خرچ بہت زیادہ رہا۔ 2021 میں اس نے 801 ارب ڈالر خرچ کیا۔ اس کے بعد چین نے 293 ارب ڈالر خرچ کیا جبکہ ہمارے ملک ہندوستان نے 76.6 ارب ڈالر خرچ کیا۔ گزشتہ 10 برس میں ہمارے ملک کے دفاعی خرچ میں 33 فیصد کا اضافہ ہوا ہے مگرچین کے دفاعی خرچ کے مقابلے یہ 3 گنا سے بھی کم ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کی خستہ حالی کے باوجود ہتھیاروں سے دنیا بھر کے ملکوں، بالخصوص طاقتور ملکوں کی بڑھتی دلچسپی دنیا کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اگر ہتھیار جمع کررہے ہیں تو ظاہر ہے، وہ اس کا استعمال بھی کریں گے اور ضروری نہیں کہ وہ حملے کی صورت میں ہی استعمال کریں، خود ساختہ دشمن یا اصل دشمن کو مزہ چکھانے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں اور دونوں ہی صورتوں میں یہ بات طے ہے کہ جان انسانوں کی ہی جائے گی،مارے جاندار ہی جائیں گے۔
[email protected]
دنیا کے دفاعی خرچ میں اضافہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS