اے- رحمان
اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ ایک یکساں سول کوڈ ملک اور صوبے (یو پی)کے لئے ضروری ہے لہٰذا صوبائی حکومت اس موضوع پر سنجیدگی سے غورر کر رہی ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں ضروری اقدامات کئے جائیں گے۔ اترا کھنڈ میں اس سلسلے کے ’ضروری اقدامات‘ شروع کئے جا چکے ہیں اور مرکزی حکومت پہلے ہی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے چکی ہے جو کامن سول کوڈ کا بنیادی خاکہ تیار کر رہی ہے۔ مگر اس پیش رفت نے کچھ ایسے سوال کھڑے کر دیے ہیں جو سنگین طور سے پیچیدہ بھی ہیں اور تحقیقی نقطۂ نظر سے دلچسپ بھی۔ ملک میں ہر مذہب اور مسلکی فرقے کے اپنے عائلی قوانین ہیں جنہیں ’پرسنل لا‘ کہا جاتا ہے اور جو تمام کے تمام متعلقہ مذاہب اور فرقوں کی شریعت یا عقائد پر مبنی ہیں۔کیاکسی ایک مذہب یا فرقے کے رسم و رواج یا عقائد کو یکساں سول کوڈکی بنیا د بنا کر اسے بقیہ شہریوں پر نافذ کیا جائے گااور کیا بقیہ شہری اسے قبول کریں گے؟ ایسا ہونا ناممکنات میں ہے اور اس لئے ہے کہ خود ہندو پرسنل لا کے تین اہم دبستاں ہیں اور تینوں ایک دوسرے سے مختلف اور بعض پہلوؤں سے باہم متصادم ہیں۔ شمال مشرق کی ریاستوں اور جنوبی ہند میں ان تینوں سے مختلف مذہبی عقائد پر مبنی بے شمار معاشرتی ضابطے ہیں اور تقریباً ہر خطے میںگوناگوں مقامی مذہبی رسوم و رواج ہیں سو الگ۔ اس کا حل تو یہی ہو سکتا ہے کہ سویڈن کی طرح بھارت یعنی ہندو راشٹر قطعی لا مذہب ہو اور سارے سول یعنی عائلی قوانین سیکولر اور سائنٹفک ہوں، لیکن ہندوستانی معاشرہ روایت زدہ اور روایت پرست ہے اور اکثریت کے معاشرتی رویے اورقبولِ عام اخلاقیات بھی مذہبی عقائد پر مبنی ہے لہٰذا یہ بھی ناممکن ہے۔اس صورتِ حال کے اسباب کا تاریخی اور تحقیقی تجزیہ بعض اہم حقائق سامنے لاتا ہے۔ ہندو معاشرے میں اصلاح اور ہندو ازم کے احیا کی تحریکیں تقریباً ڈیڑھ سو سال پیشتر باقاعدہ شروع ہو گئی تھیں لیکن دنیا سے ہندو ازم کو بحیثیت مذہب سوامی وویکا نند نے متعارف کرایا جب 1893 میں انہوں نے شکاگو میں منعقد عالمی مذاہب کے اجتماع (Parliament of World Religions )کو خطاب کرتے ہوئے اپنی مشہورِ زمانہ تقریر کی جس میں ہندو ازم کو انسانی رواداری کا علم بردار بتایا گیا۔ وویکا نند نے کہا کہ ہندو تمام مذاہب کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں اور پوری دنیا کو ایک خاندان سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت تک بنگال کا ایک کٹّر ہندو براہمن چندر ناتھ باسو ’’ہندوتو‘‘ کا نظریہ اور اصطلاح وضع کر چکا تھا۔ (یہ الگ بات ہے کہ ساورکر کو نمایاں کرنے اور ہندتو کا سہرا اس کے سر باندھنے کے لئے آر ایس ایس نے باسو کو حاشیے پر ڈال دیا ہے)۔1923 میں ساورکر نے ’’ہندتو کی مبادیات‘‘ (Essentials of Hindutva ) شائع کی۔مزے کی بات یہ ہے کہ ساورکر لا مذہب اور منکر خدا (athiest ) تھا اور اس نے ایک سے زائد مرتبہ لکھا ہے کہ ہندوتو کا ہندو ازم یا کسی بھی مذہب سے کوئی علاقہ نہیں۔یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ بیشتر ہندو مورخین اور علما ئے مذہب و روحانیت نے ہندو ازم کو مذہب کے بجائے ایک طرزِ حیات قرار دیا ہے اور ہمارے سپریم کورٹ نے بھی اپنے سات فیصلوں میں اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
1927 میں برطانوی فلسفی اور ادیب برٹرنڈ رسل نے لندن کی نیشنل سیکولر سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں ’’ میں عیسائی کیوں نہیں ہوں‘‘ (Why I am not a Christian ) عنوان کے تحت خطبہ دیا جو بعد کو اسی عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو کر مشہور زمانہ ہوا۔اس کے درجنوں ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں اور بے شمار زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ہے۔رسل نے اپنے مقالے کی ابتدا میں تشریح کی ہے کہ لفظ عیسائی(Christian ) سے کیا مراد ہے اور خدا نیز حیات بعد ممات پر اس کا عقیدہ کیوں نہیں ہے۔اس نے ڈارون کے نظریۂ ارتقا کی حمایت کرتے ہوئے اسے درست ٹھہرایا ہے۔ساورکر نے رسل کی کتاب سے متاثر ہو کر 1928 میں جب اپنی کتاب دوبارہ شائع کی تو اس کا عنوان تھا ’’ہندوتو : ہندو کون ہے‘‘۔(Hindutva: Who is a Hindu )۔مہاتما گاندھی خود کو کٹّر ہندو کہتے تھے لیکن بت پرستی کے خلاف تھے۔ اپنی کتاب ’’ میں ہندو کیوں ہوں ‘‘ (Why I am a Hindu ) میںہندو ازم کی بحیثیت مذہب انہوں نے ایک مختلف تشریح کی تھی جس میں یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ہندو ازم میں محدودیت نہیں ہے اور ہندو رہتے ہوئے بھی آدمی کسی بھی پیغمبر کی پرستش کر سکتا ہے یا کسی بھی مذہب کے اصولوں کی پیروی کر سکتا ہے۔اپنے ہفتہ وار ’’ینگ انڈیا‘‘ کے 27 ۱کتوبر 1927کے شمارے میں انہوں نے ’ورن آشرم دھرم‘ کی جو تفسیر کی اس نے آر ایس ایس والوں کو ان کا دشمن بنا دیا تھا۔
برٹرنڈ رسل کی ہی کتاب سے تحریک پاکر صدرِ شعبۂ فلسفہ، پٹنہ یونیورسٹی پروفیسر رمیندر نے ’’ میں ہندو کیوں نہیں ہوں ‘‘ (Why I am not a Hindu ) عنوان سے کتاب لکھی جو 1993 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کے ابتدائی صفحات میں پروفیسر رمیندر لکھتے ہیں۔لفظ ’’ہندو‘‘ کا بہت غلط استعمال ہوا ہے۔الگ الگ قسم کے لوگوں نے اسے الگ الگ معنی میں استعمال کیا ہے۔مثال کے طور پر کچھ لوگ اب بھی کبھی کبھی ’ہندو‘ لفظ کو ’بھارتی‘ کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ان معنی میں میں بھی ہندو ہوں کیونکہ میں اپنے بھارتی ہونے کی حقیقت سے انکار نہیں کرتا ۔مگر یہ اس لفظ کا صحیح استعمال نہیں ہے۔ بہت سے بھارتی جیسے مسلمان، عیسائی، یہودی،پارسی یہاں تک کہ بدھسٹ ،انسانیت پرست اور لا مذہب ملحد بھی نہ تو خود کو ہندو کہتے ہیں نہ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ہندو لفظ کی لچک دار تشریح سے سب کو ہندوؤں میں شامل کر لینا کہاں تک مناسب ہے؟ یہ لفظ ’مسلمان‘ ،’عیسائی‘، ’بدھ‘ ، ’جین‘ جیسے الفاظ کے زمرے میں آتا ہے نہ کہ ’ برطانوی‘،’جاپانی‘،’ روسی‘ جیسے الفاظ کے زمرے میں۔‘‘(ہندوتو کا منشا یہی ہے)آگے چل کر اپنی کتاب میں پروفیسر رمیندر نے مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے کہ وید ’آکاش وانی‘ (صدائے الٰہی یا ندائے غیب) نہیں ہیں اس لئے وہ ان پر عقیدہ نہیں رکھتے۔انہوں نے منو سمرتی کے بھی پرخچے اڑا کر اسے معاشرے کے لئے ضرر رساں قرار دیا ہے۔ کئی قومی اعزازات سے سرفراز،دلت حقوق کے پاسدار کارکن،سیاسی نظریہ ساز اور دانشور پروفیسر کانچا الائیا شیفرڈ نے بھی ’’میں ہندو کیوں نہیں ہوں‘‘ (Why I am not a Hindu ) نام سے کتاب لکھی جو 1996 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کو مبصرین نے ’جدید کلاسک‘ کا درجہ دیا ہے۔پروفیسر کانچا خود دلت نہیں ہیں لیکن دلت حقوق کے تحفظ اور معاشرے سے چھوت چھات کے خاتمے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔براہمن تفوق کی مخالفت اور دلتوں سے وابستگی کے اظہار کی خاطر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ ’Shepherd ‘ (چرواہا) کا لاحقہ لگایا ہوا ہے۔وہ خود کو ’شودردانشور‘ کہتے ہیں اور مذکورہ کتاب میں انہوں نے جس طور ’ہندوتو‘ فلسفے، ثقافت اور سیاسی معیشت کے نظریے کی دھجیاں اڑائی ہیں وہ پڑھنے سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ 2018 میں ششی تھرور کی کتابWhy I am a Hindu ’میں ہندو کیوں ہوں‘ شائع ہوئی جس میں ششی نے ہندو ازم اور ویدوں کے فلسفے کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ہندو ازم کوفیاض، وسیع الذہن،وسیع القلب اور آفاقی رواداری کا حامل قرار دے کر ’ہندوتو‘ کو ہندو ازم کی نفی کہا ہے۔ انہوں نے ہندو واد(ازم) اور ہندوتو دونوں کے معنی بیان کرتے ہوئے ’بھارتیتا‘ (بھارتی ہونا)کے حقیقی مفہوم کو واضح کیا ہے۔ انہوں نے پچھلے کچھ عرصے میں سامنے آئے ہندوتو کے نا روا اور متشدد رویے پر سخت تنقید بھی کی ہے۔بالفاظ دیگر ششی نے بھی وہی کام کیا ہے جو پروفیسر رمیندر اور پروفیسر کانچا نے اپنی اپنی کتابوں کے ذریعے انجام دیا۔فرق بس یہ ہے کہ وہ ہندوتو کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے ذاتی ہندو عقائد پر قائم رہے ہیں۔
مذکورہ بالا تحریروں اور کتابوں کے علاوہ بھی ہندوتو کے مو جودہ نظریئے کے خلاف بے شمار مواد دستیاب ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوتو کی موافقت میں آر ایس ایس کے کٹّر نظریہ سازوں کے علاوہ شاید ہی کسی ہندو دانشور نے خامہ فرسائی کی ہو جبکہ اس نظریے اور ’ہندو راشٹر ‘ کے تصور کے خلاف دفتر کے دفتر ملتے ہیں۔آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ منو سمرتی ہندو راشٹر کا آئین ہو گا۔اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ منو سمرتی میں درج ذات پات کے نظریے اور معاشرے کی چار ذاتوں میں تقسیم پر قوانین مبنی کئے جائیں گے۔ظاہر ہے یکساں سول کوڈ بھی انہی خطوط پر قائم ہو گا۔تجزیہ بتاتا ہے کہ مسلمان اور دیگر فرقوں سے قطع نظر خود ہندو معاشرے میں تقریباً 70 فیصد افراد منو سمرتی کو قبول نہیں کرتے۔نہ بحیثیت مذہبی عقیدے کے اور نہ بحیثیت معاشرتی ڈھانچے کے۔تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو راشٹر کا مذہب کیا ہو گا جس پر یکساں سول کوڈ کی بنیاد رکھی جا سکے۔اس کا جواب یا تو وقت دے گا یا حکومت وقت کا بنایا ہوا یکساں سول کوڈ۔
[email protected]