زین شمسی
جب باہرکی دنیا میں بہتی ہوائیں گرم ہوتی ہیں تو ٹرین کے اے سی ڈبے بھی سردی کا احساس نہیں کرا پاتے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ دہلی میں رام نومی کے موقع پر جہانگیر پوری کا سانحہ سامنے آیا، اب یہ لکھنے کی ضرورت تو شاید نہیں ہے کہ وہ کیسے ہوا اور اسے ہونا ہی تھا اور اس واقعہ کے پیچھے کس طرح کے نظریات کام کر رہے ہیں، یہ ساری باتیں ہر اس آدمی کو معلوم ہیں جو اخبارات اور یوٹیوب نیوز دیکھتے رہتے ہیں۔لیکن اس سانحہ کے دوسرے ہی دن میں وکرم شیلا کے اے سی ڈبے میں تھا اوردہلی سے گھر واپس جا رہا تھا۔ اچانک پیچھے سے ایک بھونڈی آواز آئی کہ ملے یعنی مسلمانوں کو اوقات میں رکھنا ہی ہوگا۔ یہ آواز میرے کانوں میں گونجی اور یکایک مجھے اپنے ایک دوست کی بات یاد آگئی کہ یار میں تو ٹرین میں چلنے سے ڈرتا ہوں اس لیے پیسہ چاہے جتنا بھی لگ جائے فلائٹ سے ہی سفر کرتا ہوں، خیر اس آواز کو نہ سننے کی کوشش فضول تھی کہ وہ جو بھی تھا میرا ہم سفر تھا اور جہاں تک ریزرویشن چارٹ میں اندراج تھاوہ نوجوان آدمی بھاگلپور تک میرے ساتھ رہنے والا تھا۔ میں نے خاموشی سے اللہ پاک سے خیر کی دعائیں کیں اور اس کی باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ وہ پھر بولا آپ لوگ نہیں جانتے کہ یہ لوگ چار شادیاں کرتے ہیں اور بیس بچے پیدا کرتے ہیں۔ کام تو ملتا نہیں ہے اس لیے بازار بھائو بھی گرا دیتے ہیں۔ وہ وہی سب باتیں کر رہا تھا جو مسلمانوں کے خلاف وہاٹس ایپ یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ مجھے غصہ بھی آرہا تھا اور میں یہ سوچ بھی رہا تھا کہ اب پھر سے اسی طرح کے حالات بنائے جا رہے ہیں جب ہر جگہ خوف کا ماحول ہو، کیونکہ جس طرح وہ بے خوف ہو کر نفرت اگل رہا تھا، اس سے یہی خیال ہوا کہ ابھی ابھی وہ کسی کیمپ سے سیکھ کر آیا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس سے تبادلہ خیال کروں، لیکن اس طرح کی ذہنیت سے بحث و مباحثہ فضول ہوتا ہے کہ دماغی طور پر وہ کسی اور کے قبضہ میں ہوتا ہے، لیکن اچانک اسی جگہ سے ایک آواز آئی کہ بھائی صاحب آپ کا کوئی جاننے والا مسلمان ہے، آپ کا کوئی دوست مسلمان ہے۔ اس نے کہا ہاں میں جہاں پر رہتا ہوں وہیں پر ایک مسجد ہے اور کئی مسلمان ہیں جن سے میری شناسائی ہے ، سوال ہوا کہ ان لوگوں میں سے کوئی ہے جس نے ایک سے زیادہ شادی کی ہوں۔ وہ بولا نہیں۔ تو پھر آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں۔ کسی نے سمجھا دیا اور آپ سمجھ گئے۔ مجھے تو کوئی نہیں سمجھا پایا۔ اس نے کہا ہاں وہ لوگ نہیں کرتے لیکن اور سب لوگ کرتے ہیں۔ بحث آگے برھ گئی تھی۔ اس لڑکے نے کہا کہ پانچ سال میں ان لوگوں کی آبادی ہم لوگوں سے کئی گنا زیادہ ہوجائے گی۔ اپر برتھ پر بیٹھے ایک شخص نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بھارت میں مسلمانوں نے کتنے سال حکومت کی۔سات سو سال میں وہ بھارت میں اکثریت نہیں بن پائے تو اب پانچ سال میں کیسے بن جائیں گے۔ بہرحال بجرنگ دل میں نیا نیا شامل اس نوجوان کا برین واش ہوتا رہا اور گاڑی اپنی رفتار سے چلتی رہی اور میں اپنی سوچ کی پٹری پر گامزن تھا۔وہ دلت تھا اور ہندو احیا کی بات کر رہا تھا۔ مظفر نگر میں درگاہ پر بھگوا جھنڈا پھہرا کر ہندو احیا کا نظارہ دکھانے والا بھی دلت ہی تھا۔آج کل دلت کو ہندو اُتتھان کے لیے بھرتی کیا جا رہا ہے۔ رام نومی کے موقع پر اذان کے وقت بھجن کیرتن کے لیے لگائے گئے لاؤڈ اسپیکر کی آواز تیز کرنا اسی منصوبہ کا حصہ ہے اور اذان کے وقت ہی ہنومان چالیسا کا پاٹھ ضروری قرار دینا اسی منصوبے کی توسیع ہے۔ ملک کو مکمل طور پر تقسیم کرنے کا سلسلہ یکایک تو نہیں بڑھا ہے مگر شدت اختیار کر جانا یوں ہی نہیں ہے۔ اخبار میںستیش آچاریہ کا کارٹون اس منصوبہ پر سے پردہ اٹھاتا ہے کہ جب ایک سادھوی یہ کہتی ہے کہ مجھے ہر گھر سے ایک بچہ چاہیے جو ہندو احیا کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دے تو گھر کا امیر مالک یہ کہتا ہے کہ میں نے اپنے بچے کو ڈاکٹری اور انجینئرنگ کے لیے وقف کر دیاہے، لیکن میں آپ کو واپس نہیں کروں گا، میں اپنی نوکرانی کے بچے کو اس کام کے لیے وقف کر دوں گا۔ بات سیدھی سی ہے کہ دلت اور غریب طبقے کے بچوں کو مجرم بنا کر امیر اور اعلیٰ طبقہ ہندوتو کو فروغ دینے میں لگا ہے اور سیاست داں مہنگائی اور بے روزگاری جیسی آفت سے نجات پانے کے لیے ایک ایسی فضا تیار کر رہے ہیں جس میں بلڈوزر بھی ان کا ہو اور معصومیت بھی ان کی ہو۔
جہانگیر پوری کی مسلم ٹیوٹر زینت میڈم کا کہنا ہے کہ رام نومی کے موقع پر ہوئے فسادات کے بعد بھی ان کے پروفیشن پر کوئی آنچ نہیں آئی ہے۔ ایک بھی ہندو بچہ ایسا نہیں ہے جو ان کی کلاس کو چھوڑ رہا ہے یا بچوں کے سرپرسست انہیں میرے یہاں آنے سے روک رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ وہ بچے نہیں ہیں جو دلت اور کمزور طبقے کے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہیں بھارت کو سنوارنا ہو یا نہ ہو خود کو سنوارنا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ حالات اسی طرح کے رہیں گے ، لیکن جب تک رہیں گے بہت کچھ ہم سے چھین لے جائیں گے۔ کھرگون کایہ واقعہ بہت خطرناک ہے۔ مدھیہ پردیش بی جے پی اکائی کے صدر وی ڈی شرما کی بیوی استوتی مشرا نے ایک ٹوئٹ کیا کہ انہیں دوا کی ضرورت تھی اور جب وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ دوا لینے میڈیکل اسٹور س کی طرف روانہ ہوئیں ، تمام اسٹورس بند تھے سوائے ایک مسلم دکاندار تھے جنہوں نے نہ صرف مجھے دوا دی بلکہ بہترین سلوک کیا۔ رات کے بارہ بج رہے تھے اور انہوں نے میرا خیال کیا۔ انہوں نے یہ بات لکھ کر ہندو-مسلم یونٹی کا ہیش ٹیگ لگا دیا۔ ان کا ٹوئٹ آتے ہی ہنگامہ برپا ہو گیا کہ بی جے پی صدر کی بیوی ہندو-مسلم اتحاد کی بات کیوں کر رہی ہیں۔ اور ایسے ماحول میں جب سیکولرزم ، بھائی چارہ اور ہم آہنگی سے ملک کو مشکل سے نکالا جا رہا ہے۔ یہ ٹوئٹ ہندوتو کے خلاف ہو رہا ہے۔ استوتی نے اپنا یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا۔یہ واقعہ اپنے آپ میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے کہ کس طرح ہندوستان کی مضبوط وراثت تبدیل ہو رہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]