عبیداللّٰہ ناصر
اترپردیش اسمبلی کے الیکشن میں یوگی کے بلڈوزر نے بی جے پی کو جو کامیابی دلائی، اس کے بعد بلڈوزر بی جے پی کے لیڈروں کا پسندیدہ ہتھیار ہوگیا اور دیگر ریاستوں میں بھی اس کا چلن عام ہو گیا کیونکہ مدھیہ پردیش سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی کے الیکشن ہونے والے ہیں اور آج کے سیاسی اور سماجی ماحول میں مسلم دشمنی الیکشن میں کامیابی کی سب سے بڑی ضمانت ہے اور بلڈوزر کے ذریعہ اسے مزید کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دو چار مسلمانوں کی عمارتیں بلڈوزر سے گروا کے ووٹوں کی اچھی فصل کاٹی جاسکتی ہے۔ بی جے پی کا جو لوڈر جتنا بڑا دشمن ہو، مسلمانوں کے خلاف جتنا زیادہ زہر اگل سکے، پارٹی میں اس کی ترقی کے امکان اتنے ہی روشن ہوجاتے ہیں۔ آسام کے ہیمنت بسوا سرما سے لے کر کرناٹک کے بومئی تک اسی فارمولہ پر عمل کر رہے ہیں یہاں تک کہ اب تک ایک اعتدال پسند اور اٹل برانڈ سیاست کے لیے جانے جانے والے مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ شیوراج چوہان بھی اسی راہ پر چل پڑے ہیں۔ چوہان کے سامنے دوہرا چیلنج ہے، مودی امت شاہ کی بی جے پی میں اپنے لیے جگہ بنائے رکھنے کے لیے اور اپنے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے اپنی کرسی بچائے رکھنے کے لیے انہیں با دل نخواستہ اٹل جی کا راستہ چھوڑنا پڑ رہا ہے کیونکہ وزیراعلیٰ کی کرسی پر نظر جمائے نروتم مشرا شیو راج چوہان کو پٹخنی دینے کے لیے جارح ہندوتوکی راہ اپنائے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی میں دوسروں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔شہروں کے نام بدلنے ہوں یا محکمہ پولیس میں صدیوں سے رائج اردو الفاظ کو ہٹانے کا فیصلہ ہو، سب نروتم مشرا لے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہندوتووادیوں کے وہ پسندیدہ لیڈر بن گئے ہیں۔ کھرگون میں رام نومی کے جلوس کے دوران ہوئے تشدد کے واقعات کے بعد جس گھر سے پتھر آیا، اسے پتھر کا ڈھیر بنا دیں گے، ان کا بہت مقبول ڈائیلاگ بن گیا اور پھر یہ کر کے دکھانے کے بعد تو وہ اپنی مقبولیت کے ہمالیہ پر پہنچ گئے ہیں۔
کھرگون میں تشدد کی اطلاع پاتے ہی ایک مطلق العنان حکمراں کی طرح نروتم مشرا نے اعلان کیا تھا کہ جس گھر سے پتھر آئے ہیں، انہیں پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیں گے اور یہ کر کے بھی دکھا دیا۔سرکار کے بلڈوزروں نے ایک طرفہ کارروائی کرتے ہوے مسلمانوں کے درجنوں مکانوں اور دکانوں کو زمیں دوز کردیا۔ یہ ٹھیک ویسی ہی کارروائی ہے جیسی آزادی سے پہلے ہوتی تھی کہ زمیندار، تعلق دار، راجہ مہا راجہ اپنی کسی رعایا سے ناراض ہوئے اور اپنے لٹیتھوں کو بھیج کر اس کے مکان یا کھیتوں میں آگ لگوا دی۔ کھرگون میں در حقیقت مسلمانوں کے مکان اور دکان نہیں گرائے گئے ہیں، ہندوستان کا عدالتی نظام زمین دوز کیا گیا ہے، انصاف کے مندر پر بلڈوزر چلایا گیا ہے۔ بنا مناسب عدالتی کارروائی کے اس طرح کا انصاف کسی مہذب سماج میں نہیں چل سکتا، یہ تو صرف جنگل کا نظام ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نظام ہے۔ اب حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ جو مکان توڑے گئے ہیں وہ ناجائز زمینوں پر تھے تو برسہا برس سے تعمیر ہوئے ان مکانوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی تھی۔ فساد کے دوران ہوئے پتھراؤ کے بعد ہی یہ بہیمانہ کارروائی صاف ظاہر کرتی ہے کہ مکان ناجائز زمینوں پر تعمیر ہونے کی بنا پر نہیں زمین دوز کیے گئے بلکہ نروتم مشرا کے حکم کی تعمیل میں زمیں دوز کیے گئے ہیں۔ ہمارے آئینی نظام میں ہی نہیں دنیا بھر کے آئینی اور قانونی نظام میں سزا دینے کا اختیار کسی حکومت کو نہیں بلکہ صرف عدالتوں کو ہے اور عدالتوں میں ہر ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن کھرگون کے معاملہ میں حکومت خود ہی پولیس اور خود ہی منصف بن گئی۔ اگر یہ مکان غیرقانونی طور سے تعمیر ہوئے تھے تو اول تو انہیں تعمیر ہی کیوں ہونے دیا گیا پھر اتنے دنوں تک انتظامیہ کانوں میں تیل ڈالے کیوں بیٹھی رہی، پھر ان کو زمیں دوز کرنے سے قبل مالک مکان کو کوئی نوٹس کیوں نہیں دیا گیا۔ اب حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ ان کو چھ ماہ قبل ہی نوٹس دیا گیا تھا لیکن اس کا کوئی ثبوت منظرعام پر نہیں لا رہی ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ پچھلی تاریخوں کے نوٹس تیار کیے جارہے ہیں اور کہا جائے گا کہ یہ نوٹس ان کے مکانوں پر چسپاں کر دیے گئے تھے۔ اس کا مقصد ممکنہ مقدمہ بازی کی صورت میں عدالتوں کو گمراہ کرنا ہے۔ دوسری جانب اگر یہ مکان نروتم مشرا کی دھمکی کے مطابق پتھراؤ کی پاداش میں گرائے گئے ہیں تو یہ اور بھی غیر قانونی ہے کیونکہ تعزیرات ہند کی کسی دفعہ میں ملزم کے مکان کو گرانے کی سزا نہیں رکھی گئی ہے یہاں تک کہ پھانسی کی سزا پانے والے مجرم کا بھی مکان نہیں منہدم کیا جاتا، پتھراؤ تو معمولی جرم ہے۔ واضح رہے کہ مکان اور ذریعہ معاش ہر ہندوستانی شہری کا بنیادی حق ہے اور کسی بھی صورت میں اس کے بنیادی حقوق کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ کھرگون میں عوام کے اس بنیادی حق پر بھی ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ آنجہانی راجیو گاندھی کی شروع کی ہوئی اندرا آواس یوجنا سے لے کر نریندر مودی کی وزیراعظم رہائش اسکیم تک کا مقصد عوام کو ایک چھت دینا رہا ہے۔ وزیراعظم کی ہی پارٹی کی مدھیہ پردیش حکومت نے ان کی اس اسکیم کو بھی سبو تاژ کیا ہے۔جو مکان منہدم کیے گئے ہیں، ان میں حسینہ فخرو نامی ایک بیوہ خاتون کا اسی اسکیم سے ملی رقم سے تعمیر مکان بھی شامل ہے تو کیا کھرگون کے افسر اتنے اندھے تھے کہ ناجائز زمین پر تعمیر ہونے کے لیے امدادی رقم دے دی۔جن تین اور لوگوں کے مکان منہدم کے گئے ہیں وہ گزشتہ کئی مہینوں سے جیل میں بند تھے، وہ لوگ پتھراؤ میں کیسے شامل ہوئے۔قانون کے مطابق باپ کے جرم کی سزا بیٹے کو نہیں دی جا سکتی لیکن یہاں پتھراؤ میں اگر کوئی شامل بھی تھا تو سزا اس کے پورے گھر کو، عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو سب کو دی گئی۔ اقتدار کے نشے میں دھت مدھیہ پردیش حکومت کو یہ بھی نہیں پتہ کہ اجتماعی سزا جنیوا کنونشن برائے انسانی حقوق کی قرار دادوں کے خلاف ہے۔ ایک سبکدوش پولیس افسر ناصر خان کا مکان بھی زمیں دوز کیا گیا اور ان کی پولیس والوں نے بے دردی سے پٹائی بھی کی اور وہ چلاتے رہے کہ وہ بھی ریٹائرڈ پولیس افسر ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم سرکار کی سرپرستی میں اور میڈیا کے تعاون سے چوبیسوں گھنٹے جاری رہتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ان کا یہاں کچھ نہیں بچا ہے، وہ گولوالکر کے مطابق یہاں دوسرے درجہ کے شہری ہیں، ان کے کوئی حق یہاں نہیں بچے ہیں، یہاں تک کہ انصاف کے حق سے بھی وہ محروم کیے جا رہے ہیں۔ عوام کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری عدالتوں پر ہے لیکن عدالتوں میں جو ہو رہا ہے اس کے بعد کسی مسئلہ کو عدالت لے جانے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کیا عدالت اس کے ساتھ انصاف کرے گی کیونکہ اب عدالتیں مسلمانوں سے متعلق معاملات میں فیصلہ کرتی ہیں۔ انصاف نہیں بابری مسجد سے لے کر حجاب کے حالیہ تنازع تک یہی تلخ حقیقت سامنے آئی ہے۔ کیا آج سے پندرہ بیس سال پہلے یہ ممکن تھا کہ مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دی جائے، بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کا نشانہ طے کیا جائے اور عدالت خاموش تماشائی بنی رہے، ازخود نوٹس نہ لے اور ایسے غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر انسانی اعلان کرنے والے کھلے عام آزاد گھومتے رہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود عام آدمی کے پاس عدالت کی پناہ میں جانے کے علاوہ اور کوئی متبادل بھی تو نہیں ہے، دوسرے ابھی سب ختم بھی نہیں ہوا ہے اگر مقدمہ سنجیدگی، ایمانداری، آئینی تقاضوں کو اجاگر کرتے ہوئے لڑا جائے تو انصاف مل بھی جاتا ہے۔ ابھی سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کو وہ رقم ان لوگوں کو واپس کرنے کا حکم دیا ہے جو انہوں نے ہرجانہ کے طور پر بہت سے لوگوں سے وصول کی تھی اور وہ 99فیصدمسلمان ہی تھے۔ جمعیۃ علماء ہند نے کھرگون معاملہ سمیت کئی معاملوں کو لے کر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے۔ ادھر ساکیت گوکھلے صاحب نے بھی کھرگون کے ڈی ایم کو نوٹس دیا تھا اور اب وہ ہائی کورٹ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جمعیۃ نے درجنوں مسلم نوجوانوں کو جو دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں سڑ رہے تھے، انہیں عدالتوں کے ذریعہ ہی آزادی دلائی ہے۔ اس کے علاوہ بلڈوزر انصاف تو خود عدالتی نظام پر ہی سوال کھڑے کر رہا ہے، اس لیے عدالتوں کو اپنی عزت، اہمیت اور افادیت برقرار رکھنے کے لیے بھی اس پر قدغن لگانا ہوگا۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ عدالتی نظام کے تحفظ، شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی و اس کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے اس پر جلد اور ایسا فیصلہ دے گا تاکہ پھر کوئی اقتدار کے نشے میں بدمست شخص نظام قانون سے کھلواڑ کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔
اس کے ساتھ ہی ملت اسلامیہ ہند اگر چاہ لے تو وہ کھرگون کے تمام متاثرین کے مکان دوبارہ بنوا سکتی ہے، گجرات اور مظفر نگر میں اس نے یہ کر کے دکھا بھی دیا ہے۔ ملت اپنا قومی مذہبی فریضہ سمجھ کر اگر کھرگون کے متاثرین کا مکان بنوادیتی ہے تو یہ فرقہ پرست مسلم دشمن عناصر کے منھ پر زور دار طمانچہ ہوگا۔ ملت کو اپنی غیرت، حمیت اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہی ہوگا۔
کانگریس سمیت قریب قریب سبھی سیکولر پارٹیوں کے ٹاپ لیڈروں نے ایک مشترکہ اپیل جاری کر کے ملک میں نفرت کے اس ماحول اور اس پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی پر تشویش ظاہر کی ہے لیکن ظاہر ہے ان پر اس اپیل کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے، اس کا سیاسی فائدہ انہیں مل رہا ہے، بھلے ملک کا سماجی شیرازہ بکھر رہا ہے ان کی بلا سے۔ وہ قطعی اس مہم کو روکنے اور اس ماحول کو بدلنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے، ان کی طرف سے اگر کوئی بیان آئے گا بھی تو وہ محض خانہ پوری ہوگا، ان کے کارکن جانتے ہیں کہ ان کا ما فی الضمیر کیا ہے۔ بی جے پی کو نفرت کی اس کھیتی کے سیاسی نقصان کا جب تک احساس نہیں ہوگا تب تک وہ اس کے خلاف نہیں جائے گی اور فی الحال اس کا کوئی امکان نہیں دکھائی دیتا۔
ملک تباہی کے دہانہ پر کھڑا ہوا ہے۔ یہ مذہبی منافرت، یہ اکثریت میں ہونے کا گھمنڈ، قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے اور بچ نکلنے کا یقین یہ سب ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کو اس کے خلاف بیداری مہم چلانا ہوگی محض بیان جاری کر دینے سے کام نہیں چلے گا۔ آر ایس ایس نے دماغوں میں نفرت کا جو زہر بھر دیا ہے، اس کو صاف کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے لیکن آر ایس ایس کے خلاف نظریاتی لڑائی راہل گاندھی کے علاوہ اور کوئی لیڈر لڑتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے، خود کانگریس میں بھی وہ اس معاملہ میں الگ تھلگ پڑتے دکھائی دے رہے ہیں، ہر محب وطن کو ان کے ہاتھ مضبوط کرنا چاہیے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]