آج اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ملک کاآئین اورجمہوریت خطرے میں: مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی (ایس این بی) : بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں جرائم کی روک تھام کی آڑمیں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو تباہ وبرباد کر دینے کی غرض سے بلڈوزرکی،جو خطرناک سیاست شروع ہوئی ہے، اس کے خلاف قانونی جدوجہد کےلئے ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم جمعیةعلماءہند نے،اس آمرانہ اور ظالمانہ سلسلے کو روکنے کےلئے مولانا ارشدمدنی کی خصوصی ہدایت پر سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی ہے ،جس میں جمعیةعلماءہند قانونی امدادی کمیٹی کے سکریٹری گلزاراحمد اعظمی مدعی بنے ہیں ، اس پٹیشن میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ ریاستوںکو حکم جاری کرے کہ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کے گھریا دکان کو مسمارنہیں کیا جائے گا۔ قابل ذکرہے کہ اترپردیش میں بلڈوزرکی سیاست پہلے سے جاری ہے، لیکن اب یہ مذموم سلسلہ گجرات اور مدھیہ پردیش میں بھی شروع ہوچکاہے، حال ہی میں رام نومی کے موقع پر مدھیہ پردیش کے کھرگون شہرمیں جلوس کے دوران انتہائی اشتعال انگیزنعرے لگاکر پہلے توفسادبرپاکیا گیا اورپھر ریاستی سرکارکے حکم سے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے مسلمانوں کے 16گھروں اور 29 دکانوں کو زمین دوزکردیاگیا،ان میں توکچھ مکانات ایسے بھی ہیں، جنہیں وزیراعظم کی خصوصی اسکیم (پردھان منتری آواس یوجنا)کے توسط سے تعمیر کیا گیا تھا اورایسے گھروں کو بھی زمین دوزکیا گیا ہے، جس کے گھرکے افرادپہلے سے ہی جیلوں میں مقیدہیں، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ کس طرح کی غیر قانونیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے عدلیہ کے امورمیں دخل اندازی ہو رہی ہے، ریاستی حکومت کے اس ظالمانہ رویہ کی انصاف پسند حلقوں کی جانب سے شدیدمذمت کی جارہی ہے۔ وہیں دوسری طرف مدھیہ پردیش سرکاراپنی اس ظالمانہ کارروائی کادفاع کررہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ملک بھرمیں نفرت اورفرقہ پرستی کا، جو وحشیانہ کھیل جاری ہے، اس پر اپنی گہری تشویش و دکھ کا اظہارکرتے ہوئے مولانا ارشدمدنی نے کہاکہ مذہبی شدت پسندی اورمنافرت کی ایک سیاہ آندھی پورے ملک میں چلائی جارہی ہے ، اقلیتوں اورخاص طورپر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی جگہ جگہ سازشیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم محلوںمیں اور مسجدوں کے عین سامنے اشتعال انگیزیاں ہورہی ہیں ، پولیس کی موجودگی میں لاٹھی ڈنڈے اورتلواریں لہراکر انتہائی دل آزارنعرے لگائے جارہے ہیں اورسب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، ایسا لگتاہے کہ جیسے ملک میں اب نہ توکوئی قانون رہ گیا ہے اورنہ ہی کوئی حکومت جو ان پر گرفت کرسکے۔ مولانامدنی نے کہا کہ فرقہ پرستوں کے ذریعہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہاہے اورمرکزی حکومت اس طرح خاموش ہے، جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں ہے۔رام نومی کے موقع پر ملک کی کئی ریاستوں میں بالخصوص مدھیہ پردیش کے کھرگون میں فرقہ وارانہ تشدد، اس کے بعد سرکار اور انتظامیہ کی طرف سے مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کے انہدام پرمولانا مدنی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو کام عدالتوں کا تھا اب حکومتیں کررہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کا دور ختم ہوگیا، سزا اور جزا کے تمام اختیارات حکومتوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے ہیں، اس کے منھ سے نکلنے والے الفاظ ہی قانون ہیں۔ گھر وں کو زمین بوس کرکے موقع پر فیصلہ کرنے کی آئین کی نئی ریت بن گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے اب نہ ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی جج درکار ہیں۔ کھرگون شہر میں، جس مجرمانہ ڈھنگ سے پولیس اور انتظامیہ نے غنڈہ گردی کرنے والوں کی تائید میںکاروائی کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون پر عمل در آمد ان کا مقصد نہیں رہا۔ پولیس اور انتظامیہ نے اگر تھوڑی بھی آئین کے ساتھ دفاداری دکھائی ہوتی تو نہ کرولی راجستھان میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا اور نہ ہی کھرگون میں ان کے مکانات اور تجارت کو ختم کیا جاتا۔انہوں نے کہاکہ ہماراہزاروں بارکا تجربہ ہے کہ فسادہوتانہیں ہے، بلکہ کرایا جاتا ہے اگرانتظامیہ اورارباب سیاست نہ چاہیں تو ہندوستان میں کہیں بھی فسادنہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مرتبہ تو پولیس ایکشن ہوتاہے ، کھرگون فسادمیں بھی پولیس کا یہی کردار رہاہے ، حکومتوں میں ایک چیز،جو مشترک نظرآتی ہے، وہ یہ کہ حملہ بھی مسلمانوں پر ہوتاہے ، مسلمان مارے بھی جاتے ہیں اورانہی کے مکانات ودکان کو جلایا جاتا ہے اورپھر انہی پر سنگین دفعات لگاکر گرفتاربھی کیا جاتاہے۔ المناک پہلویہ ہے کہ فسادات کے کسی ایک واقعہ میں بھی قانون وانصاف کے تقاضہ کو پورانہیں کیا گیا اورکسی قصوروارکو سزانہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ پورے ملک کے مظلوموں کو انصاف دلانے اور ملک کے آئین اور جمہوریت کو بچانے اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کےلئے ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ اس امیدکے ساتھ کہ دیگرمعاملوں کی طرح اس معاملہ میں بھی انصاف ملے گا۔ اس سے قبل سی اے اے ، این آرسی کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں پر یوپی حکومت نے، جو جرمانہ عائدکیا تھا، سپریم کورٹ اسے خارج کرچکی ہے اورحکومت کو اس کےلئے پھٹکاربھی لگاچکی ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ جب حکومت آئینی ذمہ داری اداکرنے میں ناکام ہوجائے اورمظلوموں کی آوازسن کربھی خاموش رہے توعدالتیں ہی انصاف کےلئے واحدسہارارہ جاتی ہیں۔ماضی میں ہمیں عدلیہ سے انصاف ملا ہے، اس لئے پورا یقین ہے کہ اس اہم معاملے میں بھی دوسرے معاملوں کی طرح عدالت عظمیٰ سے ہمیں انصاف ملے گااورعدالت سیکولرازم کی حفاظت کےلئے مضبوط فیصلہ کرے گی، تاکہ ملک امن وامان کے ساتھ چلتارہے اورمذہب کی بنیادپر کوئی تفریق نہ ہو، ہماری یہ قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی۔اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ حکمرانوںنے ڈر اور خوف کی سیاست کو اپنا شعار بنالیاہے، میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ڈر اور خوف سے نہیں، بلکہ عدل و انصاف سے ہی نیک نام اورعدل وانصاف کی حکومتیں چلا کرتی ہیں۔ ان حالات میں ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی آئینی واخلاقی ذمہ داری ہے ، کیونکہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے نہ کہ کسی ایک پارٹی فرقہ یا مذہب کا۔انہوں نے انتباہ کیا اگر ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ختم ہوئی اور مذہبی آہنگی کا تانا بانا ٹوٹ گیا اور سیکولردستورکو بے اثرکردیاگیا تو یہ بات ملک کےلئے انتہائی نقصاندہ ہو سکتی ہے۔ ملک کی ترقی کےلئے قانون اوردستورکی بالادستی ضروری ہے۔جمعیةعلماءہند سیاسی جماعتوں، ملک کے دانشوروں ، سماجی تنظیموں اورمختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے افرادسے پرزوراپیل کرتی ہے کہ وہ اپنے اثرات کا استعمال کرکے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول کوبچانے کی کوشش کریں ، جس نے ملک کی یکجہتی ، آئین ودستوراورسلامتی کےلئے شدیدخطرات پید اکردیئے ہیں۔ واضح رہے کہ ان معاملات میںسپریم کورٹ سے مداخلت کی گزارش کی گئی ہے کہ یکے بعد دیگرے ریاستیں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیرقانونی طریقوں سے مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں کی املاک کو نقصان پہنچا رہی ہیں، جس پر قدغن لگنا ضروری ہے۔ پٹیشن میں مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ اتر پردیش، مدھیہ پردیش اور گجرات ریاستوں کو فریق بنایا گیا، جہاں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔پٹیشن ایڈووکیٹ صارم نوید نے سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل سے صلاح و مشورہ کہ بعد تیار کی ہے، جبکہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کبیر ڈکشت نے اسے آن لائن داخل کیا ہے، اگلے چند ایام میں پٹیشن پر جلد سماعت کےلئے چیف جسٹس آف انڈیا سے گزارش کی جاسکتی ہے۔
مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزرچلانے کےخلاف جمعیةعلماءہند سپریم کورٹ پہنچی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS