ایساالگتا ہے کہ اسرائیل اس بات کا بطور خاص اہتمام کرتاہے کہ رمضان سے قبل اور رمضان کے دوران فلسطینیوں پر ایسے ظلم ڈھائے کہ وہ یہ مبارک مہینہ رنج والم اور مصائب کا ماتم کرتے ہوئے گزاریں۔پچھلے سال رمضان سے ایک روز قبل اسرائیل کی سفاک فوجوں نے ظلم ڈھایاجس کا بھولناآسان نہیں۔فلسطینیوں کے زخم اتنے زیادہ اور اتنے گہرے ہوگئے ہیں کہ کس کس کا ماتم کیجئے اور کس کس کو یاد کیجئے ۔ادھر مسلم ممالک اور عرب ممالک ہیں کہ وہ تمام سابقہ رقابتوں ، مظالم اور جنگوں کی اندوہناک تاریخ بھول کر ایسے سفاک ملک اور انتظامیہ کو گلے لگارہے ہیں جس کو اپنے قول وعمل پر ذرا بھی ندامت نہیں، بلکہ اس کی بربریت اور انسان دشمنی کے نئے سے نئے ریکارڈ بنارہی ہے۔گزشتہ روزفجر سے پہلے پولیس نے تین نوعمر نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔یہ نوجوان سیف ابولبدا (25)،صائب ابارہ(30)اور خلیل توالبا (24) تھے، جو عین رمضان سے قبل جارح فوج کی سفاکی کا تازہ ترین شکار بنے۔
اس وقت پورے عالمی منظر نامہ پر وہ خبریں گشت کررہی ہیں جس میں بتایاگیاہے کہ فسطینیوں کی مقبوضہ سرزمین پر بنائی گئی صہیونی ریاست اسرائیل کے ’سب بوکرفارمس‘ پر اسلام پرستی اور فلسطین کا دم بھرنے والے ممالک متحدہ عرب امارات ، بحرین، مراقش و مصراوراسرائیل اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں،جس میں مستقبل کے لائحہ عمل پر غور ہوا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں پر اسرائیل کے سب سے پہلے وزیراعظم بین گریون (Ben Gurion)رہتے تھے اور وہیں پر دفن ہیں۔یہ وہی بین گریون ہیں جنہوں نے 1948میں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا ،ان کی نسل کشی کی،اس سانحہ کو پوری دنیاالنکبۃ کے نام سے جانتی ہے، اس کے معنی ہوتے ہیں قتل عام۔عرب امریکہ اور اسرائیل کے حکام کے درمیان یہ ملاقات ٹھیک اس دن ہوئی جب 20سال قبل بیروت میں عرب لیگ کی پہلی سربراہ کانفرنس ہوئی تھی اور عربوں نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کریں گے۔یہاں یہ بات یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ یہ وہ دور تھا جب فلسطین کے مرد آہن یاسرعرفات مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی افواج کے فوجی محاصرے میں مقید تھے۔عرب لیگ کے مذکورہ بالا چوٹی اجلاس میں مذاکرات کے لئے جو شرط رکھی گئی تھی وہ یہ تھی کہ امن مذاکرات کے لئے ضروری ہے کہ اسرائیل فلسطینی مقبوضہ مقامات سے اپنی فوجیں واپس بلائے،مگر آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ تمام عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کررہے ہیں اور اسرائیل کی جابرانہ اور ظالمانہ رویہ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔فلسطینی لوگ اس صورتحال پر زیادہ صہیونیت کومتفکر ہیں کیونکہ ان کو یہ لگتاہے کہ اسرائیل کی اس حرکت (مذاکرات )سے دوام مل رہاہے اور اس کے حوصلے اور سفاکی بڑھتی جارہی ہے۔
پچھلے کئی ہفتوں سے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں زور وشور سے آرہی ہیں کہ کس طرح یوا ے ای اور اسرائیل حکام تعلقات کو استحکام بخشنے کے لئے دوطرفہ مذاکرات کررہے ہیں ۔ ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے شام کے صدر بشارالاسد سے ملاقات کی ہے۔یہ خبر ان معنوں میں خوش آئند کہہ جاسکتی ہیں کہ یہ ایک اہم عرب ملک شام اور خلیج کے کئی دیگر طاقتور ممالک کے درمیان مراسم بہتربنانے کی اہم کوشش ہے۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینٹ سے ملاقات کی۔یہ ملاقات بحر احمر کے ساحلی سیاحی مقام شرم الشیخ میں ہوئی۔اس بات چیت کی میزبانی مصر کے صدرعبدالفتح السیسی کررہے تھے۔مصر ان چند ممالک میں ایک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ مراسم کے لئے سب سے پہلے دروازہ کھولا تھااور اسرائیل وادی سینا سے ایک معاہدہ کے بعد ہی واپس ہواتھا۔
مغربی ایشیا ایک طویل عرصہ سے جنگ کامیدان بناہوا ہے۔ عرب ممالک یا تواسرائیل سے برسرپیکاررہے ہیں یا باہم دست گریباں رہے ہیں۔ شام کی خانہ جنگی اس دور کی سب سے تکلیف دہ ہے اورتقریباً یہی صورتحال یمن ، لبنان ،عراق میں بھی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا ممالک افراد ی معدنی اور قدرتی وسائل سے مال مالا ہیں مگر یہاں پرحکمرانوں ، قبائل کے سربراہوں کی ہوس اقتدار اور مفاد پرستی کی وجہ سے برادرکشی کا وہ سلسلہ چل رہاہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہاہے۔
اسرائیل- عرب مذاکرات :مصالحت یا مصلحت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS