بی جے پی اور دوسری سیاسی پارٹیوں میں کیا فرق ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ سیاسی میدان میں بی جے پی کی کامیابی کا گراف دوسری پارٹیوں کے مقابلہ میں زیادہ اونچا اور کہیں زیادہ قابل اعتماد نظر آتا ہے۔ گزشتہ 7-8برس میں بی جے پی کی لاتعداد کامیابیوں کے ساتھ ساتھ ایسے کئی سوالات بھی خوب پیدا ہوئے ہیں۔ دراصل اس کی ایک بڑی وجہ بی جے پی کا ورک کلچر ہے جو پارٹی کے عروج پر وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ کے آنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ مؤثر اور منصوبہ بند ہوگیا ہے۔ اترپردیش کی ہی مثال لے لیجیے۔ دوسری سیاسی پارٹیاں جہاں ابھی بھی اپنی شکست کا تجزیہ ٹھیک سے نہیں کرپائی ہیں، وہیں بی جے پی نے 2024کے لوک سبھا الیکشن کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ یوگی کابینہ کی حلف برداری دراصل ان تیاریوں کا بگل ہی ہے۔ اسے 2024کے انتخابی جنگ کی حکمت عملی بھی کہہ سکتے ہیں۔
جمعہ کو جب ٹیم یوگی کی تصویر کھل کر دنیا کے سامنے آئی تو حکومت کی تشکیل میں ہورہی تاخیر کے سوال کا جواب بھی سامنے آگیا۔ دراصل نئی حکومت چلانے کے لیے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے جو کابینہ بنائی گئی ہے اس میں ذاتوں کی صف بندی اور علاقائی نمائندگی کا ایسا توازن قائم کیا گیا ہے جو 2024کی سیاسی راہ میں بی جے پی کے سفر کو سہولت آمیز اور کامیاب بناسکے۔ اسمبلی الیکشن میں ملا مینڈیٹ ہی اگر لوک سبھا انتخابات میں بھی برقرار رہتا ہے تو بی جے پی کو ریاست کی 80میں سے 51سیٹیں مل سکتی ہیں۔ 2014 میں یہ تعداد 71اور 2019میں 63تھی۔ یعنی اسمبلی الیکشن میں ملی جیت بھلے ہی تاریخی ہو لیکن 2024کے لیے ابھی محنت کی ضرورت ہے۔
اس کابینہ میں اس محنت کا خاکہ نظر آتا ہے۔ حکومت چلانے کے لیے جو سوشل انجینئرنگ کی گئی ہے اسے لوک سبھا الیکشن کی تیاریوں کی سب سے مضبوط بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی معاشرہ کے سبھی طبقات کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اسی رہنمائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ کی کیبنٹ تیار کی گئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں مشن-2024کو دیکھتے ہوئے او بی سی اور دلتوں کو اچھی خاصی نمائندگی دی گئی ہے۔ اس طبقہ کی اترپردیش کے ووٹ فیصد میں 50فیصد سے زیادہ کی حصہ داری ہے اور ہر سیاسی پارٹی انہیں اپنے پالے میں لانا چاہتی ہے۔ ویسے تو بی جے پی کے پاس محروم طبقہ سے آنے والے کئی چہرے ہیں لیکن یہاں دو ناموں کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہوں گا کیوں کہ انہیں کابینہ میں لینے کے دوررس معنی ہیں۔ پہلا نام کیشو پرساد موریہ کا ہے جنہیں ہار کے باوجود دوبارہ ڈپٹی سی ایم بنایا گیا ہے اور دوسرے ہیں سوتنتردیو سنگھ جنہیں بی جے پی کا ریاستی صدر ہوتے ہوئے بھی کابینہ میں لایا گیا ہے۔ یہ ایک لمبی سیاست کا اشارہ ہے۔ دراصل اترپردیش میں الیکشن چاہے اسمبلی کا ہو یا لوک سبھا کا، پسماندہ طبقہ کی سیاست کے لیے بی جے پی کو دوسری پارٹیوں کا منھ دیکھنا پڑتا رہا ہے۔ اس مرتبہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے اس طبقہ کی فلاحی اسکیموں کے دم پر فائدہ اٹھانے والے طبقہ کا ایک بڑا حصہ اپنے حق میں کیا ہے۔ اب بی جے پی لوک سبھا میں اس تجربہ کو آزما کر دیکھنا چاہتی ہے۔ بے بی رانی موریہ بھی ایسا ہی ایک نام ہے، جنہیں آنے والے دنوں میں مایاوتی کے متبادل کے طور پر اور جاٹو سماج میں بی جے پی کے چہرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
ٹیم یوگی میں برہمنوں کے ساتھ جو سوشل انجینئرنگ کی گئی ہے، اس نے ایک ساتھ مشن-2024کے کئی دائرے قائم کر کھول دیے ہیں۔ دنیش شرما کی جگہ برجیش پھاٹک کو ڈپٹی سی ایم بنانے سے یہ پیغام گیا ہے کہ بی جے پی کی جیت کی دھری کا کام کرنے والا سنگھ بھی اب اپنی پالیسی کے تعلق سے نرم پڑ رہا ہے۔ برجیش پاٹھک 2014میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر لوک سبھا الیکشن ہارے تھے اور اپنا پہلا الیکشن کانگریس میں جیتے تھے۔ بی جے پی میں تو ان کی انٹری 2017میں ہوئی ہے اور صرف پانچ سال میں ڈپٹی سی ایم کی کرسی تک ان کا پہنچنا بتاتا ہے کہ اب سنگھ بھی اس بات پر تیار ہوا ہے کہ موجودہ دور کی انتخابی سیاست میں لیڈران کی زمینی پکڑ ان کے نظریاتی پس منظر سے کہیں زیادہ اہم ہوگئی ہے۔ برجیش پھاٹک کو دنیش شرما کی جگہ ڈپٹی سی ایم بنایا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارٹی دنیش شرما کو بیچ میں چھوڑنے جارہی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ بی جے پی اب انہیں ایک بڑے کردار میں دیکھ رہی ہے اور یہ کردار بی جے پی کے ریاستی صدر کا ہوسکتا ہے۔
تیسرا اہم فیصلہ اروند شرما سے متعلق ہے، جن کا وزیر بنایا جانا برہمن ووٹروں کو خوش کرنے سے زیادہ یوگی کابینہ پر وزیراعظم نریندر مودی کے وژن کی چھاپ کا اشارہ ہے۔ اروند شرما وزیراعظم مودی کے معتمدافراد میں سے ایک ہیں اور 2021میں بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد سے قانون ساز اسمبلی کے رکن ہونے کے ساتھ ہی بی جے پی کے ریاستی نائب صدر بھی ہیں۔ ان کے یوپی پہنچنے کے بعد سے ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انہیں کابینہ میں شامل کرنے کے تعلق سے وزیراعلیٰ یوگی اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں کچھ ناچاقی ہے، لیکن اب جب کہ کابینہ میں ان کی باضابطہ انٹری ہوگئی ہے تو وہ تمام شکوک وشبہات ہی ختم نہیں ہوئے ہیں، بلکہ بڑا پیغام یہ بھی گیا ہے کہ جس طرح مودی-یوگی نے ایک ٹیم کی شکل میں اسمبلی الیکشن میں جیت درج کی ہے، وہی موافقت لوک سبھا میں بھی بی جے پی کو فتح دلانے کا کام کرے گی۔
2024کی تیاریوں کا پیغام صرف حلف برداری کے اسٹیج سے ہی نہیں دیا گیا ہے۔ وزرا کی فہرست میں شامل ناموں کے ساتھ ہی اسٹیج کے دوسری جانب اس تاریخی لمحہ کے گواہ بننے آئے انتہائی اہم مہمانوں کی فہرست پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یوپی کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی وزیراعلیٰ کی حلف برداری تقریب میں صنعت کاروں کی ایسی موجودگی نظر آئی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ صنعتی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پہلی مدت کار میں جو کام کیے ہیں، اب انہیں مزید تیزی سے منزل تک پہنچایا جائے گا اور ریاست میں طویل عرصہ سے چلے آرہے بے روزگاری کے مسائل سے نوجوانوں کو راحت دی جائے گی۔ 2024کے لیے نوجوانوں کی صف بندی کا یہ واضح پیغام ہے۔
لیکن کیا صرف ایک کمپیکٹ کابینہ بنا لینے بھر سے بی جے پی کے لیے 2024میں فتح کی راہ ہموار ہوجائے گی؟ شاید نہیں! اس کے لیے زمین پر کام کرنے اور نتائج دینے کی بھی ضرورت ہوگی۔ اور یہ اس ورک کلچر کے ہی بوتے ممکن ہوگا جس کا ذکر میں نے تحریر کے آغاز میں کیا ہے۔ ریاست اور مرکز دونوں جگہ جب حکومت اور تنظیم مل کر کام کریں گی، تو زمین پر تبدیلی بھی نظر آئے گی۔ بگل اس تبدیلی کی شروعات کی طرف ہی اشارہ ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
2024 کی انتخابی جنگ کا بگل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS