واشنگٹن (ایجنسیاں) : چین اور اسلامی دنیا میں ایک ایسے وقت میں قربتیں بڑھ رہی ہیں جب دنیا میں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ چین گلف کوآپریشن کونسل یا جی سی سی کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر تبادلہ خیال کر رہا ہے اور سعودی عرب سے کچھ تیل چینی کرنسی یو آن میں خریدنے کے لیے سرگرمی سے بات چیت میں مصروف ہے۔یہ وہ باتیں ہیں جو چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز کے مطابق، چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے اسلام آباد میں ہونے والے اسلامی ملکوں کے اجلاس میں کیں، جس کے وہ مہمان خصوصی تھے۔یہ باتیں کتنی اہم ہیں؟ اگر ان پر عمل ہوتا ہے تو اس کے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات دنیا پر، خاص طور پر امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں پر کیا ہوں گے؟ کیا عالمی مالیاتی نظام پر بھی اس کا اثر پڑے گا، اور چین میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے سلوک پر بظاہر اسلامی ممالک کیوں خاموش نظر آتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں عالمی امور کے ماہرین کی آراء میں تنوع ہے۔ایلان برمن، واشنگٹن میں قائم امریکن فارن پالیسی کونسل کے سینئر نائب صدر ہیں۔ اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا سے چین کی بڑھتی ہوئی قربت ایک اہم اسٹریٹیجک شفٹ یا ایک بڑی تبدیلی ہے اور اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک تو امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت، جن میں گزشتہ تقریبا 76 برس کے دوران بڑی گرمجوشی رہی لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ گرمجوشی، سرد مہری میں بدل گئی ہے۔دوسرا یہ کہ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسی میں بقول ان کے تبدیلی، جہاں امریکہ کی دلچسپی کم ہوئی ہے اور اس خطے میں اس کی زیادہ دلچسپی نہیں رہی ہے اور اس کی زیادہ تر توجہ ایران کو انگیج کرنے پر مرکوز رہی ہے جو سعودی عرب کا حریف ہے۔ اس لیے خطے کے دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب نے بھی دوسرے اتحادی تلاش کرنے شروع کردیے ہیں۔
خیال رہے کہ یمن کی جنگ کے پیش نظر جس میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثیوں کے خلاف اور وہاں کی حکومت کی حمایت میں سرگرم ہے اور اتحاد کے طیارے یمن میں حوثیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر مسلسل بمباری کرتے رہتے ہیں جس میں بے گناہ شہری بھی مارے جاتے ہیں۔ اسی کے پیش نظر سعودی عرب کے لیے بعض امریکی ہتھیاروں کا حصول ممنوع کر دیا گیا تھا۔ لیکن حوثیوں کی حالیہ کارروایئوں اور حملوں کے پیش نظر حال ہی میں امریکہ نے سعودی عرب کے لیے ہتھیاروں کے نظاموں کی فراہمی کا اعلان کیا ہے۔ایلان برمن کا خیال ہے کہ اس دوران چین نے دنیا کے دوسرے ملکوں تک پہنچنے یا” گلوبل آوٹ ریچ پروگرام” اور اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے دائرے کو وسیع کرکے۔ بیشتر مسلمان ملکوں تک رسائی حاصل کی۔ اور وہ ملک جو پہلے ہی کسی نئے اسٹریٹیجک پارٹنر کی تلاش میں تھے، اس کے ہمنوا بننے لگے اور جی سی سی ملکوں سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے مذاکرات وغیرہ اسی کا حصہ ہیں،جن میں ظاہر ہے ابھی کافی وقت لگے گا۔اس نئی صورت حال کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ یوکرین کی جنگ اور اس کے نتیجے میں روس پر عالمی پابندیوں کے سبب تیل کی عالمی منڈی میں بحرانی کیفیت ہے، سعودی عرب اور یو ایای جیسے ممالک نے جو نئے پارٹنرز کی تلاش میں تھے، تیل کے نئے خریداروں کے لیے آگے آنے کی راہ ہموار کردی، اور چین اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرہا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کے طویل المدت اثرات کیا ہوں گے؟ اس کا انحصار یوکرین کی جنگ کے نتیجے اور امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی آئندہ پالیسیوں پر ہے۔
اکنامک فیڈریش آف پاکستان کے اکنامک ایڈوائزر ڈاکٹر ایوب مہر نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چینی وزیر خارجہ کی او آئی سی کانفرنس میں شرکت کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کیونکہ چین کواپنی بڑی مسلم آبادی کے سبب پہلے ہی او آئی سی میں مبصر کی حیثیت حاصل ہے اور موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں جب کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی زیادہ توجہ یوکرین کی جنگ پر ہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی عدم دلچسپی کے سبب ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے۔ اسے پر کرنے کے لیے چین تیزی سے اقدامات کر رہا ہے۔ اور جہاں تک جی سی سی ممالک کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کا تعلق ہے۔ تو تیکنیکی بنیادوں پر یہ معاہدہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ کیونکہ خطے کے جنوب میں واقع ملکوں یعنی سعودی عرب، بحرین متحدہ عرب امارات اور کویت وغیرہ کے درمیان پہلے ہی سے ایک فری ٹریڈ ایگریمنٹ مو جود ہیاور ان کے درمیان جو تجارت ہوتی ہے اس پر درامدی یا برامدی ڈیوٹی نہیں ہوتی۔اب اگر چین کا بھی ان سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہوتا ہے تو عالمی تجارتی ضوابط کے حوالے سے اس میں بہت ساری پیچیدگیاں پیش آئیں گی جنہیں دور کرنے میں کافی دقتیں پیش آ سکتی ہیں۔
سعودی عرب سے اپنی کرنسی یو آن میں کچھ تیل خریدنے کی چین کی تجویز کے اثرات کیا ہوں گے۔ ان کے مطابق یورپی ملکوں پر تو شاید اس کا اثر نہْ ہو، لیکن اگر اس طرح دوسری کرنسیوں میں تجارت کا سلسلہ بڑھا تو اس صورت میں ڈالر کی قدر پر یقیناً اثر پڑ سکتا ہے۔
خیال رہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ یا آئی ایم ایف میں جن ملکوں کی کرنسی کو پرائمری کرنسی کا درجہ حاصل ہے، وہ چھ ہیں او ر اب ان میں چینی کرنسی بھی شامل ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا تھا کہ چینی کرنسی میں تجارت چونکہ عالمی مالیاتی ادارے کے ضوابط کے مطابق ہے، جو عالمی مالیاتی نظام کا حصہ ہے۔ اس لیے یہ خیال کہ اس سے کوئی نیا یا متوازی عالمی نظام وجود میں آسکتا ہے، درست نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا خیال تھا کہ چین کی مسلم ملکوں سے قربت کے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں پر کوئی فوری اثرات تو نظر نہیں آتے کیونکہ حکومتی سطح پر تو چین اور مسلم ملکوں کے تعلقات میں قربت اور گرمجوشی پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن عوامی سطح پر بیشتر مسلمان ملکوں کے لوگ چین کے بجائے مغربی ملکوں کو ترجیح دیتے ہیں، اور چینی ثقافت اور معاشرت سے وہ اتنے مانوس نہیں ہیں جتنے مغربی ثقافت اور معاشرت سے ہیں۔ اس لیے اگر آنے والے ماہ و سال میں اسلامی ملکوں اور چین کے عوام کے درمیان ربط و ضبط میں اضافہ ہوا تو مغربی ملکوں پر اس کا زیادہ اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ آج بھی بیشتر مسلم ملکوں کی زیادہ بڑی تجارتی شراکت داری مغربی ملکوں ہی سے ہے۔ چین اس معاملے میں ابھی بہت پیچھے ہے۔ اس لیے طویل المدت اثرات کے بارے میں فوری طور پر پیشگوئی مشکل ہے۔
چین اورا یغور مسلمان
چین میں ا یغور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے اور اسی بنیاد پر چین کو بھی بعض دوسرے ملکوں کے ساتھ او آئی سی میں مبصر کی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ لیکن اپنی مسلم آبادی کے ساتھ چین کی بد سلوکی اور مبینہ طور ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود، جن کی چین تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ان کی تعلیم و تربیت کر رہا ہے۔ مسلم ممالک بظاہر خاموش نظر آتے ہیں جب کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اور مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیتے ہیں۔ ایلان برمن کا کہنا تھا کہ چین کے اسلامی دنیا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات صرف تجارت کے حوالے سے ہی نہیں ہیں بلکہ بات اس سے بھی آگے کی ہے۔ چین اپنی اویغور مسلم اقلیت کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، جو بقول ان کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نسل کشی ہے اور اسلامی دنیا اس پر جس طرح خاموش ہے، وہ چین کا بڑھتا ہوا معاشی اثرو رسوخ اور اسلامی ملکوں میں اس کی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے، جس نے انہیں خاموش کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر کا خیال مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ چین کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات کے سبب اسلامی ممالک اس پر برسر عام بات نہ کر رہے ہوں، لیکن سفارتی چینلز کے ذریعے اس معاملے پر اسلامی ملکوں کا یقینًا ًچین سے رابطہ ہو گا۔ اس کے علاوہ عوامی سطح پر اس معاملے پر برابر آوازیں اٹھتی رہتی ہیں اور وہ جن کو پریشر گروپ کہا جاتا ہے، وہ بھی اس معاملے کو اٹھاتے رہتے ہیں۔
دونوں ماہرین کا خیال ہے کہ فوری طور پر عالمی مالیاتی نظام میں کسی بڑی تبدیلی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ تاہم یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا کی ان دوسری کرنسیوں میں عالمی تجارت کا حجم بڑھ جائے جو بین لاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف کی پرائمری کرنسیوں میں شامل ہیں، یہ تبدیلی امریکی ڈالر کی قدر میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔
خلیجی ممالک کے ساتھ چین کی بڑھتی قربت کس بات کا اشارہ ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS