بئی (ایجنسیاں) : کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس اس وقت تک جوہری ہتھیار استعمال نہیں کرے گا جب تک اس کے وجود کو خطرہ نہ ہو۔ روسی خبر رساں ایجنسی TASS کے مطابق انہوں نے کہا کہ یوکرین میں آپریشن پلان کے مطابق جاری ہے۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ یہ صرف دو دن تک چلے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ساحلی شہر ماریوپول میں آپریشن کا بنیادی مقصد یوکرین کی تمام قومی اکائیوں کا خاتمہ ہے۔ انہوں نے صدر ولادیمیر پوتین اور ان کے فرانسیسی ہم منصب عمانویل میکروں کے درمیان ہونے والی فون کال کا بھی حوالہ دیا جس میں روسی یوکرائنی مذاکرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ پہلے دن میں کریملن نے اعلان کیا کہ فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے کے لیے ہونے والی بات چیت “جوہری” نہیں تھی۔ اے ایف پی کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ با چیت کا عمل جاری ہے، لیکن ہم مزید فعال، زیادہ ٹھوس مذاکرات دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت ہماری پسند کے مقابلے میں سست اور کم بامعنی تھی۔ ان کے ملک نے کیف کو کچھ دستاویزات کا ایک مسودہ سونپا، لیکن یوکرینیوں نے صرف ان میں سے کچھ کا جواب دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ملک یوکرینی فریق کے ساتھ مذاکرات کا خلاصہ شائع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اس طرح کے اقدام سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچے گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان سیاسی مذاکرات فوجی آپریشن کے 4 دن بعد 28 فروری کو شروع کیے گئے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک مذاکرات کے چار دور ہو چکے ہیں مگر ان میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
دوسری جانب امریکی وزارت دفاع پینٹاگن کے ایک سینئر ذمے دار کے مطابق امریکا روسی افواج کی نگرانی کر رہی ہے تا کہ ماسکو کی جانب سے حیاتیاتی یا کیمیائی مواد یوکرین منتقل کرنے کا انکشاف ہو سکے۔ مذکورہ ذمے دار نے منگل کے روز یوکرین کی صورت حال سے متعلق بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ اس چیز پر نظر رکھی جا رہی ہے کہ آیا روس کی جانب سے گولہ بارود مثلا میزائل و راکٹ میں کیمیائی یا حیاتیاتی مواد رکھا جا رہا ہے۔ اسی طرح روس کی جوہری نقل و حرکت کی بھی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ امریکی ذمے دار کا کہنا ہے کہ جوہری ہتھیار کے استعمال کے حوالے سے روسی بیانات نہایت خطرناک ہیں۔ یوکرین کے شہر ماریوپول کے حوالے سے امریکی ذمے دار نے بتایا کہ ماریوپول کو بم باری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روسی فوجی شہر کے اندر یوکرینی فوج کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں۔ تاہم یوکرین کی جانب سے شہر کے دفاع کے واسطے شدید مزاحمت ہو رہی ہے۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران میں بحیرہ آزوف میں 5 سے 7 بحری جہازوں نے ماریوپول کے اطراف بم باری کی۔ پینٹاگان کے سینئر ذمے دار نے بتایا کہ امریکیوں کے اندازوں کے مطابق روسی فوج کو غذائی اشیاء اور توانائی کی قلت کا سامنا ہے۔ بعض روسی فوجی شدید سردی کا شکار ہو کر لڑائی کے میدان سے باہر آ گئے۔ امریکی ذمے دار کے بیان کے مطابق روس نے اب تک یوکرین پر 1100 سے زیادہ میزائل داغے ہیں۔ گزشتہ 10 روز کے دوران میں شہریوں اور رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ کارروائی جنگی جرائم تک پہنچ سکتی ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ روس کا یہ جھوٹا الزام کہ یوکرین کے پاس حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیار ہیں ،،، روسی صدر ولادی میر پوتین کی اس نیت کو عیاں کرتا ہے کہ وہ خود یوکرین کے خلاف جنگ میں ان ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں۔
ہمارے وجود کو خطرہ ہوا تو ہم جوہری ہتھیار استعمال کریں گے: روس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS