عزیز قریشی
کم نہیں ہوتی بھٹک جانے سے شانِ کارواں
یہ تو منزل کی ہی قسمت ہے کہ منزل دور ہے
اترپردیش کے اسمبلی الیکشن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور جمہوریت دشمن طاقتوں اور سیکولر مخالف عنا صر کے مقتل میں جہاں آزادی، بنیادی حقوق اور جمہوریت مخالف حکومتوں کی طاقت کا جادو ہمارے سروں پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ میں دل کے ایوان میں گم شدہ شمعوںکی قطار لیے اس نئے بدبخت نورِ خورشید سے اکتائے ہوئے یہ دیکھ رہا ہوں کہ فرقہ پرستی،تنگ نظری اور انسانیت کو ٹکڑوں میں بانٹنے والی طاقتوںکے سمندر میں جہاں طوفانی لہریں اپنا راگ الاپ رہی ہیں،ایک نوجوان شیر بہادری ، شجاعت اور ہمت کے ساتھ ا ن کا اکیلا مقابلہ کر رہا ہے اور وہ اکھلیش یادو ہیں۔
اتر پردیش میں الیکشن کی مہم کے دوران جو چناؤ کا ماحول تھا وہ سب کے سامنے ہے۔ انگنت جگہ بی جے پی کے امیدواروں اور اس کے ممبران عہدیداروں کو گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ مودی جی،امت شاہ اور یوگی جی کی ریلیوں میں خالی کرسیاں پورے ملک نے دیکھیں، اپنے روڈ شو میں ٹی وی پر لوگوں نے امت شاہ کو غصّے میں کہتے سنا ’کہ ختم کرو یہ روڈ شو کو لوگ ساتھ نہیں آ رہے ہیں‘۔ اس طرح عوا م کی بھیڑ نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کو نہ جانے کتنی ریلیاں ملتوی کرنی پڑ یں۔لیکن ان سب کے باوجود جیت بی جے پی کی ہی ہوئی۔ الیکشن کے ان نتائج پرنہ جانے کتنے سوال کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ای وی ایم بدلنے کی، فرضی ووٹ ڈلوانے کی، نقلی اور ڈپلی کیٹ ووٹ بیلٹ پیپر چھپوانے کی، ڈی ایم اور دیگر چناؤ افسروں کے تانا شاہی رویہ کی۔ دہشت پھیلا کر اور ڈرا کر دھمکا کر ووٹ نہ ڈالنے دینے کی۔ ان تمام اقدامات کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے ایک غیر جانب دارایجنسی کی ضرورت ہے۔ جو موجودہ بی جے پی سرکار کسی قیمت پر مہیا نہیں کرائے گی۔ میں خود ذاتی طور پر یہ الزامات نہیں لگا رہا ہوں بلکہ چاروں طرف جو باتیں پھیل رہی ہیں اور جن کی بازگشت پورے ہندوستان میں سنائی پڑ رہی ہیں، اس کو دہرا رہا ہوں۔
آج کے اس ماحول میں جمہوریت، سیکولرزم، ہمارا آئین، بنیادی حقوق،شخصی آزادی، ہندوستان کا روشن مستقبل سب کچھ خطرے میں ہے اور ان کو بچانا، ان کا مکمل تحفظ کرنا اور ان کو قائم رکھنا ہر ہندوستانی کا شہری، اخلاقی، مذہبی،سیاسی اور سماجی فرض ہے۔
اس کے لیے ہمیں اپنے خون کے آخری قطرے تک کو کیوں نہ خرچ کرنا پڑے اور آخری سانس تک کیوں نہ لڑنا پڑے، یہ لڑائی لڑنی ہی ہوگی۔
اکھلیش یادو نے اکیلے دم پرجس طرح ہمت، شجاعت، ولولہ جوش کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، وہ پوری طرح قابلِ تحسین ہے اور ہر نوجوان، کسان، مہیلا، مزدور اور محنت کش عوام کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
ہم میں سے ہر ایک کوحلف اٹھا کر یہ عہد لیناہے اور اعلان کرنا ہے کہ جب تک جمہوریت دشمن،سیکولر مخالف اور آزادی مخالف یہ طاقتیں شکست نہیں کھائیں گی،ہم ہر قدم پر،ہر مورچہ پر ان کا مقابلہ کریں گے۔ ہر گھر میں،ہر سڑک پر، ہر بازار میں، ہر کھیت اور کھلیان میں، گاؤں کی ہر چوپال میں، ہر اسکول و کالج میںہم ان کامقابلہ کریں گے اور ان کا منھ توڑ جواب دے کر ان کو شکست ِ فاش دیں گے۔ ظلم، نا انصافی اور تانا شاہی کے ان کالے بادلوں کا سینہ چیر کر جب تک ایک نئے سورج کو طلوع نہیں کر دیں گے، اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے اور جب تک ہر آنکھ سے چن چن کر ایک ایک آنسو نہیں پونچھ دیں گے، اس وقت تک ہماری جدو جہد جاری رہے گی۔
اکھلیش یادو کو بغیر کسی بات کی پروا کیے ہوئے اندھیرے کی ان طاقتوں کے خلاف اپنی جدوجہد اور مضبوطی کے ساتھ لڑائی جاری رکھنی ہوگی تاکہ ان کالی راتوں کی تاریکی کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیاجائے۔ اکھلیش یادو پرائم منسٹر کے عہدے کے لیے ایک لائق امید وارہیںاور ان سے ہندوستان کے مستقبل کی امید وابستہ ہے۔
آج ہندوستان کی جمہوریت، سیکولرزم، بنیادی حقوق اور ہمارے آئین پر خطرات کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور اس کے لیے ہمارے نوجوانوں، کسانوں، مزدوروں، طالب علموں، دانشوروں، مہیلاؤںیعنی ہر ایک طبقہ کو آگے آنا ہوگا اور پورے ملک میں ایک قانونی،جمہوری تحریک پرامن طریقے سے مہاتما گاندھی جی کے راستے کو اپنا کر چلانی ہوگی تاکہ اس کالی منحوس رات کا خاتمہ ہو سکے۔ اس کے لیے اسہیوگ آندولن، خلافت آندولن، نمک ستیہ گرہ، ترکِ موالات، بھارت چھوڑو آندولن ، ڈانڈی مارچ جیسی تحریکیں، مہاتما گاندھی جی کے بتائے راستے پر چلانا ہوںگی تاکہ ہندوستان بچ جائے اور 130کروڑ عوام کو تاناشاہوں اور انسانیت کو تقسیم کرنے والوںسے آزادی مل جائے۔ اس لیے ضروری یہ ہے کہ اکھلیش یادو اور ان کے جیسے جیتے ہوئے ودھایک اور سماج وادی پارٹی کے تمام نیتا ان عوام دشمن طاقتوں کے خلاف نئی جنگ کا اعلان کریں۔بقول احمد فراز
دیکھو یہ میرے خواب تھے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں بر سرِ عام رکھ دیا
(مضمون نگار اتراکھنڈ، اترپردیش اور میزوروم کے سابق گورنر ہیں)
[email protected]