محمد حنیف خان
نظام کے بغیر کوئی بھی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے،اسی لیے ہر شعبے کے لیے الگ الگ اصول و ضوابط وضع کیے گئے ہیں تاکہ ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے شفافیت کے ساتھ وہ شعبہ ترقی کرسکے۔تعلیم ہو یا روزگار یا پھر یومیہ مزدوری اس سے وابستہ ہر فرد کو ضابطے کے مطابق ہی عمل کرنا ہوتا ہے،اگر ضابطہ نہ ہو تو پھر کسی فرد کی زندگی میں نظم و ضبط ختم ہوجاتا ہے اور وہ بے راہ روی کا شکار ہوجاتا ہے، ایسے میں معاشرے کے لیے تو ضابطہ از حد ضروری ہوجاتا ہے لیکن ادھر چند برسوں میں ماورائے اصول کچھ نئے اصول و ضوابط وضع کرنے کا چلن بڑھ گیا ہے،چونکہ یہ عمل حکومت کی سطح سے ہو رہا ہے اس لیے مخالفت کے باوجود اسے نہیں روکا جا سکا ہے لیکن اس کی مخالفت وسیع پیمانے پر ہوئی مگر حکومت نے مخالفین کی باتوں پر کان نہیں دھرا،ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اڑا دیا۔
انتظامی عہدوںپر (مختلف محکموں میں جوائنٹ سکریٹری اور ڈائریکٹر) ’’لٹرل انٹری‘‘کے بعد اب تعلیم میں اسی راستے سے غیر تعلیمی میدان سے وابستہ افراد کو لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا اور اہم ادارہ یوجی سی یہ منصوبہ بنا رہا ہے۔یوجی سی کے مطابق یہ تعلیم کے لیے بہتر ہوگا لیکن ایسے دور میں جب لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں پڑھے لکھے اور کئی دہائیاں تعلیم و تعلّم میں گزارنے والے افراد ملازمتیں نہ ہونے،رشوت اور تعلقات کی بنا پر ترجیحات کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوبیٹھے ہوں، باہر کے لوگوں کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں راہیں کھولنا کتنا سود مند ہو سکتا ہے؟
جب 2016میں مرکز کی بی جے پی حکومت نے انتظامی عہدوں پر ’’لٹرل انٹری‘‘ کے امکانات کی تلاش کے لیے کمیٹی بنائی تھی اس وقت نہ صرف اس کی مخالفت کی گئی بلکہ متعدد شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔حکومت پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ ایک خاص فکر کے افراد کو انتظامی عہدوں پر لانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کی ایک خاص فکر اور آئیڈیا لوجی ہے،اس پر آ رایس ایس کے مطابق کام کرنے اور اس کے احکامات پر چلنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔مسئلہ الزامات کا بھی نہیں ہے،یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی کی حکومت آر ایس ایس کے فکری نہج پر چل رہی ہے،اس کے فیصلوں میں اس کی سوچ اور فکر بھی دکھائی دیتی ہے،اس کے ایک دو معاملات نہیں ہیں۔ایسے میں جب اس نے انتظامی عہدوں پر ’’لٹرل انٹری‘‘ کے نام پر دروازہ کھولا تو ہر طرف سے آوازیں اٹھنا لازمی تھیں،اس کی ایک وجہ اور تھی کہ آئی اے ایس ملک کا سب سے بڑا اور اہم امتحان ہونے کے ساتھ ہی سب سے مشکل بھی ہے۔لوگ زندگیاں کھپا دیتے ہیں پھر بھی ان کو موقع نہیں ملتا لیکن حکومت نے ان سب کو کنارے کرتے ہوئے اپنی مرضی کے افراد کو ایسے کلیدی عہدوں پر لانے کے لیے یہ راستہ کھول دیا۔سب سے پہلے2005 میں یوپی اے کی حکومت میں ’سول سروس ریفارم کمیشن‘کی تشکیل ہوئی تھی، جس کی رپورٹ میں ’لٹرل انٹری‘ کا صرف ذکر ہوا تھا مگر اس پر کسی بھی طرح کی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔لیکن 2016میں بی جے پی کی حکومت نے اس کے لیے ایک کمیٹی بنا کر اس کی سفارشات کے تنا ظر میں اسے نافذ کردیا۔جس کے نفاذ کے بعد انتظامی امور کے ان کلیدی عہدوں پر پہنچنے کے لیے سہ سطحی امتحان کی شرط ختم ہو گئی،اس کے لیے پندرہ سال کا تجربہ لازمی کردیا گیا۔لیکن یہ کون نہیں جانتا ہے کہ آر ایس ایس ہر شعبے میں سرایت کرچکا ہے،اس سے وابستہ افراد اعلیٰ ملازمتوں سے لے کر کھیتی کسانی تک کر رہے ہیں،کوئی ایسا شعبہ حیات نہیں جس میں اس کی فکر کے حاملین کی ایک معتد بہ تعداد موجود نہ ہو،اسی کے پیش نظر سخت مخالفت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ حکومت اپنے لوگوں کو ان کلیدی عہدوں پر لانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔ حکومت ان عہدوں کے لیے پہلی بار 9 اور دوسری بار 31افراد کو نئے ضابطے کے مطابق منتخب کرچکی ہے۔
انتظامی عہدوں کے بعد اب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) نے تعلیم کے میدان میں اسی طرح سے ’’لٹرل انٹری ‘‘ کا منصوبہ بنایا ہے۔منصوبے کے مطابق انجینئرنگ اور پالیسی کے ساتھ ہی دیگر شعبوں میں اس شعبے سے وابستہ افراد کو بطور فیکلٹی جز وقتی اور کل وقتی لایا جائے گا۔ یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے لیے ایک ضابطہ ہے کہ ایک شخص نے گریجویشن ،پوسٹ گریجویشن اور اس سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی اور نیشنل ایلیجی بلیٹی ٹیسٹ (نیٹ) پاس کیاہو لیکن لٹرل انٹری کے بعد یہ لازمی نہیں رہ جاتا ہے۔یوجی سی کے چیئرمین ایم جگدیش کمار کے مطابق انڈسٹری ایکسپرٹس ’پروفیسرس آف پریکٹس ‘ کے طور پر کام کریں گے۔جس کے لیے انہوں نے نئی تعلیمی پالیسی 2020کا حوالہ دیا کہ اس میںتعلیمی اداروں اور صنعتوں کے مابین بہتر تعاون کی بات کی گئی ہے۔اسی کو انہوں نے بنیاد بنایا ہے۔وہ اس کے لیے اساتذہ کی تقرری کے ضابطوں میں تبدیلی سے بھی گریز نہیں کریں گے کیونکہ اس کے بغیر ان افراد کا تقرر ہی عمل میں نہیں لایا جا سکے گا۔
بادی النظر میں تو یہ ایک اچھا منصوبہ دکھائی دیتا ہے، لیکن تعلیم کے شعبے میں جس طرح سے ایک خاص فکر کو راہ دی گئی ہے اور تاریخ کو خاص طور پر جس طرح ایک خاص تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کی روشنی میں اگر اس عمل کو دیکھا جائے تو اس کے نتائج مفید کے بجائے بڑے خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔یہ نقصان دو سطحوں پر ہونے کا امکان ہے۔پہلا جس کا ذکر میں نے ابتدا میں کیا تھا کہ تعلیم کے میدان میں لاکھوں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو باصلاحیت ہونے کے باوجود بے کار بیٹھے ہیں، ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔نوجوانوں کی کھیپ کی کھیپ سال در سال پڑھ لکھ کر بے روزگاری کا شکار ہو رہی ہے،ان کی فکر کرنے کے بجائے اگر باہر کے لوگوں کو لایا جائے گا تو اس سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے،وہ مایوسی کے ناپیدا کنار سمندر میں کس طرح ڈوب جائیں گے شاید اس کا اندازہ یوجی سی کو نہیں ہے۔پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ایسے افراد جن کا تعلیم کے شعبے سے ناطہ نہیں رہا ہے ان کی تقرری میں شفافیت برتی جائے گی،ایک خاص ذہن اور فکر کے حاملین کو اس راستے سے تعلیم کے میدان میں نہیں لایا جائے گا؟اگر ایسے افراد کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پروفیسر کے عہدوں پر بٹھا دیا گیا تو دوسرا نقصان شروع ہوگا جو یہ ہوگا کہ تعلیم کو فروغ دینے کے بجائے وہ اس خاص فکر کے تناظر میں علمی کام بھی انجام دینے کی کوشش کریں گے اور جس طرح تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرکے معاشرے میں ایک نیا بیانیہ قائم کیا گیا ہے ،اسی طرح سائنس اور دیگر موضوعات کے ساتھ کھلواڑ شروع ہوجائے گا۔ ڈاکٹر جو خالص سائنس کی تعلیم حاصل کرتے ہیں،جنہیں اسی کی تعلیم دی جاتی ہے کہ جسم میں کس کمی سے کون سی بیماری پیدا ہوتی ہے ،جو علت معلول کی بنیاد پر مرض کو سمجھتے اور اس کا علاج کرتے ہیں، ایسے تعلیم یافتہ ڈاکٹر جب اس خاص فکر کا شکار ہوتے ہیں تو پیشاب اور گوبر میں ان کو کورونا جیسے عالمی اور مہلک مرض کا علاج نظر آنے لگتا ہے۔اس لیے ذہنوں میں یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ کہیں ایسا تونہیں کہ تعلیم کے میدان کو بھی یرغمال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔یوں بھی یوجی سی کے چیئر مین جب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کے وائس چانسلر تھے تو وہاں کے طلبا نے ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کیے تھے۔یونیورسٹی میں ایک خاص فکر کی ترویج کا بھی ان پر الزام عائد کیا گیا۔ان کے دور میں کیمپس میں لبرل اور متشدد ذہن کے طلبا میں نہ صرف ٹکراؤ ہوئے بلکہ اور بھی بہت کچھ ایسا ہوا جو تعلیمی اداروں میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔اس لیے تعلیم کے میدان میں ان کے نئے منصوبہ ’’لٹرل انٹری‘ ‘ کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی ہے۔تعلیم کو اگر تعلیم ہی رکھنا ہے، اس کو کسی خاص فکر کا یرغمال نہیں بننے دینا ہے تو یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہی سول سوسائٹیوں کو بھی ان کے اس منصوبے کے خلاف میدان میں نکلنا چاہیے اور اس راستے کو بند کرانا چاہیے ورنہ پڑھ لکھ کر طلبا ملازمتوں سے محروم رہ جائیں گے اور دوسرے لوگ ایک نئے راستے سے یونیورسٹیوں میں داخل ہو کر پروفیسر کے عہدوں پر بیٹھ جائیں گے۔
[email protected]