ساس اور بہو کے درمیان چپقلش شائد دنیا کی سب سے پہلی ساس بہو سے شروع ہوئی ہوگی اور شائد قیامت تک جاری رہے گی۔ کبھی ان کے درمیان تناؤ کا سبب گھر کے کام ہوتے ہیں اور کبھی یہ اعتراض کہ بیٹا ماں اور بیوی میں سے کس کو زيادہ اہمیت دیتا ہے-مرد تنخواہ ماں کے ہاتھ پر رکھے یا بیوی کے ہاتھ پر، آپ کے خیال میں صدیوں سے جاری اس جھگڑے کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے
ساس بہو کے جھگڑے کا سبب:
ساس بہو کے درمیان تناؤ کا سب سے بڑا سبب ایک مرد ہوتا ہے جو کسی کا شوہر اور کسی کا بیٹا ہوتا ہے ۔اگر بیٹا ماں کو زیادہ اہمیت دے گا تو بیوی ناراض اور اگر بیوی کے زيادہ نخرے اٹھا لیے تو ماں کا موڈ خراب ہو جاتا ہے- ان میں سے ایک بڑا جھگڑا اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ تنخواہ ماں کے ہاتھ پر رکھی جائے یا بیوی کو دی جائے-
شادی سے پہلے تنخواہ ماں کو دی جاتی ہے
عام طور پر شادی سے قبل نوے فی صد بیٹے اپنی پوری تنخواہ لاکر ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں اور اس کے بعد پورے مہینے اپنے اخراجات کے لیے ماں سے پیسے مانگتے رہتے ہیں۔ ماں اسی تنخواہ کو نہ صرف بڑی کفایت شعاری سے خرچ کرتی ہے بلکہ اس میں سے پیسے بچا کر بیٹے کی شادی کے لیے بھی پیسے جمع کر لیتی ہے-
شادی کے بعد تنخواہ کس کو دی جائے
شادی کے بعد گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہوجاتا ہے جو رخصت ہو کر سسرال آئی ہوتی ہے اس کی کچھ ضروریات ہوتی ہیں ،کچھ خواہشات ہوتی ہیں جن کی تکمیل کرنا اس کے شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے-
ماں کو تنخواہ دینے کے اثرات
جو بیٹے شادی کے بعد بھی اپنی پوری تنخواہ اٹھا کر ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں اس طرح وہ فرمانبردار بیٹے کا میڈل تو سینے پر سجا لیتے ہیں مگر اس کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں-
شادی کے بعد مرد کے اوپر اس کی بیوی کی بھی ذمہ داری اور اخراجات کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر پوری تنخواہ ماں کو دے دے گا تو بیوی کے اخراجات کے لیے بھی اس کو ماں سے پیسے مانگنے پڑیں گے جو کہ مناسب نہیں لگتا ہے-
اس کے ساتھ ساتھ بیوی شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی کسی ضرورت کے لیے ساس کے آگے ہاتھ پھیلائے تو یہ اس کی عزت نفس کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔
بیوی کو پوری تنخواہ دینے کے اثرات
کچھ مرد حضرات شادی کے بعد یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کا سب کچھ اب ان کی بیوی ہی ہے اس وجہ سے اس کی خوشنودی کے حصول کے لیے ساری تنخواہ بیوی کو تھما دیتے ہیں- مگر اس بات کو بھول بیٹھتے ہیں کہ گھر کا نظام ماں چلا رہی ہے اس نطام کو چلانے کے لیے اس کو بھی پیسوں کی ضرورت ہو سکتی ہے- اس کے علاوہ یہ ماں کی انا کو ٹھیس پہنچانے والا اقدام ہوگا جس کے سبب ساس بہو میں فاصلے بڑھ بھی سکتے ہیں-
مرد کو گھر کے سکون کو برقرار رکھنے
کے لئے کیا کرنا چاہیے:
جو مرد ان مسائل کو سمجھداری اور انصاف سے حل کر لیتے ہیں ان کے گھر میں نہ صرف سکون رہتا ہے بلکہ ساس بہو میں بھی کسی قسم کا جھگڑا نہیں ہوتا ہے ۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ تنخواہ میں سے کچھ رقم بطور پاکٹ منی بیوی کو دیں اور گھر کے اخراجات کی مد میں ایک مناسب رقم ماں کو دیں- اس کے ساتھ باقی پیسے اپنے پاس رکھیں جو کہ بوقت ضرورت گھر پر استعمال کریں اور اسی میں سے کچھ پس انداز بھی کریں- تھوڑی سی سمجھداری ہی درحقیقت گھر کے سکون کا سبب بن سکتی ہے- اگر اس حوالے سے آپ کے ذہن میں کوئی تجویز ہو تو ضرور بتائيں ہو سکتا ہے کہ یہ کسی دوسرے فرد کے لیے مددگار ثابت ہو-
مردکی تنخواہ کی حقدارکون ‘ماں یا بیوی !……
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS