اظہار الحسن
نئی دہلی (ایس این بی )حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل نو میں تاخیر پر سپریم کورٹ نے سخت رخ اپنایا ۔عدالت عظمیٰ کاحکومت کو 8ہفتوں کے اندر حلف نامہ داخل کرنے حکم ۔حج کمیٹی کے سابق رکن نوشاد اعظمی کی رٹ پٹیشن پرحکومت کو دیا آخری موقع ۔ حج کمیٹی اآف انڈیا کی تشکیل نو ودیگر کئی معاملات کو لے کر جمعہ کو سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت کے رویے پر سخت رخ اپناتے ہوئے 8ہفتہ کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کو کہاہے۔ عدالت عظمی کی کورٹ نمبر 7 نے جسٹس عبدالنظیر اور جسٹس کرشن مراری کے بنیچ نے سماعت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو یہ آخری موقع دیا جارہاہے ۔یہ حکم حج کمیٹی آف انڈیا کے سابق ممبر حافظ نوشاد احمد اعظمی کے ذریعہ داخل کی گئی مفاد عامہ کی رٹ پرسپریم کورٹ میں معاملہ چل رہا ہے ۔
سپریم کورٹ میں ہوئی بحث میں آج کئی ریاستوں کے وکیل اورمرکزی سرکارکے وکیل نٹراجنو دیگر ایڈوکیٹ نے حصہ لیا اور دلیل دی کے بہت سے ریاستوں میں انتخابات تھے ۔ساتھ ہی اس سے پہلے کووڈ وبا کا دور رہا اوراسے کے باوجود حکومت کمیٹی کی تشکیل میں مصروف رہی ۔اس دوران مسٹر اعظمی کے وکیل طلحہ عبدالرحمٰن نے عدالت سے بحث میں مانگ کی کہ حج 2022عنقریب ہونے جارہاہے۔ اس لیے اس پر اہم معاملے پرعدالت کوئی فیصلہ دے۔
واضح رہے کہ جون 2020 سے حج کمیٹی آف انڈیا کی تشکیل نہیں ہوئی ہے اور بہت سے اسٹیٹ میں بھی حج کمیٹیاں نہیں ہیں ۔مرکزی حج کمیٹی میں اسٹیٹ حج کمیٹیوں سے نومنتخب نمائندے ملک بھر سے شامل ہوتے ہیں ۔حافظ نوشاد احمد اعظمی نے عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالت سے سوفیصد انصاف کی امید ہے اور ملک کے عازمین حج کے مفاد میں حتمی فیصلہ بھی ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ حج کمیٹی انڈیا،وزارت اقلیتی امور ،حکومت ہند کے تحت آتی ہے ۔
واضح رہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کی مدت 20 جون 2019 کوختم ہوگئی تھی مگر اسے دوبار چھ چھ ماہ کااسٹینشن دیاگیا اور 20جون 2020 تک وہ چلائی گئی اور 18 ماہ سے حج کمیٹی آف انڈیا وجود میں نہیں ہے ۔اکتوبر 2021 میں حج کمیٹی کی تشکیل نو کے لیے سابق ممبر حج کمیٹی آف انڈیا حافظ نوشاد احمد اعظمی نے ایک مفاد عامہ کی رٹ دائر کی جس کی سماعت 3 دسمبر 2021 کو ہوئی اور عدالت عظمیٰ نے چھ ہفتے کے اندر مرکزی حکومت اور مرکزی حج کمیٹی اور اسٹیٹ حج کمیٹیوں سے جواب مانگا تھا۔ ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اسٹیٹ حج کمیٹیوں کے تعلق سے سب کے وکالت نامے داخل ہوگئے ہیں مگر وزارت اقلیتی فلاح وبہود، وزارت خارجہ اور سی او حج کمیٹی آف انڈیا کی طرف سے کوئی بھی وکالت نامہ داخل نہیں کیاگیا۔
الزام ہے کہ20جون 2016کو جو کمیٹی وزارت خارجہ نے بنائی تھی وہ غیرقانونی طور پر بنائی گئی کیونکہ ایکٹ میں تین علماءکرام جن میں دو سنی اور ایک شیعہ کا ذکر ہے ،ان کی جگہ عام لوگوں(بی جے پی کارکنان)کو رکھا گیا ۔اس کمیٹی سے من مانی قرار داد پاس کرائی گئیں۔
حکومت کے وزارت اقلیتی فلاح وبہود پہلے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرچکی ہے ۔ 2012 میں حج سبسڈی کے تعلق سے جسٹس آفتاب عالم کے بینچ کا یہ فیصلہ تھا کہ10 سال میں آہستہ ہستہ حج سبسیڈی ختم کردی جائے مگر مودی حکومت کے وزیر مختار عباس نقوی نے 2017 میں ہی یہ اعلان کردیاکہ 2018 کے حج حاجیوں کو سبسڈی نہیں ملے گی اور یہ ختم کی جاتی ہے اسی فیصلہ میں یہ بھی تھا حج سبسڈی جو 2011 میں 685کروڑ روپے ہے وہ 2022میں جب ختم ہوگی تو مسلمانوں کی تعلیم اور ان کے شوشل ویلفیئر پر خرچ کی جائےگی یہ 685 کروڑ روپے 2017 کے بعد حکومت کہاں خرچ کر رہی ہے اس کابھی معقول جواب اس کے پاس نہیں ہے ۔
9دسمبر کو پارلیمنٹ میں ایک ممبر کے سوال کے جواب میں وزیر حج مختار عباس نقوی نے یہ جواب دیاتھا کہ حج کمیٹی سے بیچولیے ختم کردیے گئے اورسارا کام بڑی شفافیت سے چل رہاہے سوال یہ ہے کہ قدیمی روایت رہی ہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا کی تین سب کمیٹیاں بنتی تھی ایک ارجمنٹ کمیٹی ہوتی تھی ایک فائنینس کمیٹی ہوتی تھی ایک ایئر چارڈرس کمیٹی ہوتی تھی یہ کمیٹیاں ہرطرح کے غور وفکر کے بعد متعلقہ وزارت کو اپنی رپورٹ دیتی تھیں اوراس کے بعد تمام طرح کے کام ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ حج کمیٹی آف انڈیا میں جو عربوں روپے فنڈ موجود ہے وہ ملک کے حاجیوں کی گاڑھی کمائی ہے اس پر بھی اقلیتی وزارت کا اختیار ہے۔
افسوس ناک ہے کہ پہلے یہ حج وزارت خارجہ میں ہوا کرتاتھا اور 2016 کے بعد مودی حکومت نے پی ایم او کے ایک آرڈر کے ذریعہ اقلیتی فلاح وبہود محکمہ میں کیا اوردھیرے دھیرے کرکے حج کے نظام کو درہم برہم کردیا ملک میں 21 جگہوں سے پرواز ہوتی تھی جسے 2016 میں ایک کمیٹی جودوسرے کام کے لیے بنائی گئی تھی اس کمیٹی سے وزارت نے رپورٹ لگوائی کہ صرف 9 جگہوں سے اب پرواز ہوگی اور ایک سازش کے تحت جن جگہوں سے پرواز بند کرنی تھی وہاں سے کرایہ میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا اس کے باوجود عازمین نے پرواز بند نہیں کیا تو 2021 میں 10 جگہوں سے پرواز بند کرنے کا اعلان حج کمیٹی آف انڈیا کے ذریعہ کیاگیا۔
حافظ نوشاد احمد اعظمی کے ایک خط کے جواب میں وزارت نے اس سلسلے میں جواب دیاکہ کووڈ کی وجہ سے ایسا کیاگیاہے اورکوٹہ الاٹ ہونے پر اس پر غور کیاجائےگا اور پارلیمنٹ میں ممبر پارلیمنٹ ٹی آر بالو کے جواب میں بھی وزیر مختار عباس نقوی نے اسی طرح کا جواب دیا جب کہ یہ روایت رہی ہے کہ یہ غیر ممالک کاسفر ہے سارے انتظامات پہلے ہوتے ہیں اور کوٹہ بعد میں الاٹ ہوتاہے حج بہت مہنگا اور پریشان کن ہوگیا اور حج کمیٹی نہ رہنے کی وجہ سے ملک کے عازمین حج کا اعتماد بھی کم ہوا جس کی وجہ سے آج بار بار تاریخ بڑھانے کے باوجود بھی درخواست ہزاروں میں ہے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS