ڈاکٹر ایم عارف_ کالی باغ _ بتیا _ بہار،انڈیا_ ایشیا_ دنیا_
رابط7250283933 (((( (((((( نوٹ))))))))))))))
&&&&&&&&&&&&&&&&&&
*آج ۸ مارچ یوم خواتین ہے_ آج کے دن دنیا کی خواتین کے لئے یوم احتساب کا دن کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا_ اج دنیا کی خواتین کواپنااحتساب کرناچاہئے کہ کل ہم کیا تھے؟ کیوں تھے_؟ کیسے تھے اور آج ہم کیا سے کیا ہو گئے ؟ کیوں ہوگئے؟ اس کی وجہ کیا ہے_ کیوں ہے؟ میرا مقام کیا تھا_ کیا ہوگیا ؟ کیون ہوگیا؟ان سوالوں پر آج کے دن مل بیٹھ کر غور کرنے کا دن ہے*
آج یوم خواتین کا دن ہے۔ جو پوری دنیا میں بڑی دھوم دھام سے مناتے ہوئے ان کے حقوق،فرائض، اور ذمہ داریوں کو یاد کیا جاتا رہا ہے_
کل یعنی زمانہ قدیم میں خواتین کیا تھی کیوں گھر میں رہنے کے باوجود دیوی کہلا تی تھی _ مگر آج اس ترقی و تعلیم یافتہ اور سائنسی عروج کے دور میں مساوات مرد وزن کے نعرے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو برابری کے نام پرخواتین کو بیوقوف بناتے ہوئے ان صنف نازک کو آزادی نسواں،حقوق نسواں کے دل فریب جال میں پھانس کر ان کے ساتھ کیا کیا گیا_ زمانہ قدیم میں کیا تھی اور آج دور جدید میں کیا ہوگئی _ مردوں کے شانہ بہ شانہ زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے استحصال کے شکار کیون ہیں؟ آئیے جائزہ لیں اور دیکھیں کہ وہ کل کیا تھی اور آج کیا ہیں اور کیوں ہیں؟
8 مارچ 2022 یوم خواتین کو مرد حضرات کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کردار جسے دنیا کے ہر مذہب میں مقدس اور معاشرے میں معتبر سمجھا جاتا ہے _جس کردار کی محبت کی مثالیں دنیا کے بڑے بڑے شخصیات ،اسکالر دیتے دیتے تھک جاتے ہیں_ جسے مقدس ترین رشتہ سمجھا جاتا ہے_دنیا کے واحداور عظیم کردار کو ” ماں” کہتے ہیں اور اس کردار کو بخوبی نبھانے والی ذات کو ” عورت” کہا جاتا ہے۔عہ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ
عورت کی توہین دنیا کی تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ہے_عورت سب سے اچھا آسمانی تحفہ ہے_،عورت وہ ماہتاب ہے جس کی چمک سے ظلمتوں کے اندھیرے دور ہوتے ہیں_ عورت وہ زینہ ہے جس سے انسانی تہذیب ترقی کے مراحل طے کرتا ہے_عورت چشم بصیرت رکھنے والوں کےلئے بہترین درس حیات ہے_ عورت ایک ایسی لطیف کتاب ہے،جس کی تعلیم خلوص،سچائی اور محبت میں ڈوبی ہے_عورت نسل انسانی کی وجود کا سرچشمہ ہے_عورت مرد کی زندگی کا سہارا ہے- عورت ہر چیز کو خوبصورت ،ہر کام کو دلچسپ اور ہر مقام کو گلزار بنا دیتی ہے_عورت مرد کا خواب ہے- یہ گھر میں روشنی بخشنے والی شمع ہے_ عورت گھر کی روح ہے_صرف زینت ہی نہیں بلکہ گھر کی مالکن بھی ہے_ عورت قدرت کا وہ حسین شاہکار ہے جس کی گود میں رسالت نے پرورش پائی_ عورت وہ مقدس ہستی ہے جو بچوں کی مائیں ہیں_ چہیتی بیویاں ہیں_ شفیق بہنیں ہیں_عورت ہی وہ عظیم تخلیق ہے جو بیوی بن کر شوہر کی بانہوں میں سمٹ جاتی ہے_ یہ وہ ہستی ہے جو بیٹی بن کر گھر میں سنت ادا کرتی ہے_ عورت لوری کے سروں میں زندگی کو نیا سر گرم دیتی ہے_ بچوں کی پرورش کرتی ہے_ عورت ایثار وقر بانی کا مجسمہ ہے_ ایک ایسا انمول گوہر ہے جس کی حفاظت کرنا ہر مرد کا فرض ہے ورنہ مرد پر عورت کا قرض ہے_ مرد کا عورت سے بڑا کوئی دوست نہیں_ اس کے بغیر کائنات کا سارا حسن ہیچ ہے_ عہ
جانتا ہے،سارا عالم تجھ کو کہ عورت ہے تو
واسطے تخلیق انسان آ لہ فطرت ہے تو
دنیا کی کسی بھی قوم کی تاریخ پڑھئے۔آ پ کو معلوم ہوگا کہ کسی قوم کی اصلی ترقی اور عروج کا زمانہ وہی تھا جب اس قوم کی عورتیں بہتر حالت میں تھیں_ اسی طرح کسی قوم کے زوال کا زمانہ وہ رہا ہے جس میں اس قوم نے عورت کا احترام ترک اور اس کے جائز و فطری حقوق کو غصب کرلیا _
واہ رے خود غرض اور مفاد پرست مرد! پچھلی زندگی یعنی( زمانہ قدیم ) میں عورت گھر کی رانی تھی_ شوہر کے سوا کوئی اور اس کی دلچسپیوں کا مرکز نہ تھا _ایک مرد کے ساتھ زندگی ٻسر کرنے سے عورت بیماریوں سے محفوظ تھی_وہ سیتا اور معصوم مریم کی طرح بھولی تھی_ صداقت،ہمدردی اور محبت کا مجسمہ تھی_ پہلے نازک تھی،پھول کی طرح_ پاک تھیں مریم وسیتا کی طرح _پہلے عورت اور مرد نے باہم کام تقسیم کرلیا تھا_مرد باہر کے کام کرتے تھے اور عورت گھر کی رانی بن کر رہا کرتی تھی_ چہار دیواری ان کا مسکن تھا_ دائرہ عمل گھر تھا_ خانہ داری تھی،تربیت اطفال کے فرائض تھے_ وہ گھر کی رونق تھی_ بچوں کی تربیت کی خاص ذمہ دار تھی_ ہماری اصل دولت ان ہی کےپاس محفوظ تھی_ نسلیں انہی کی تحویل میں تھی_ ہماری نسلوں کی پہلی تربیت گاہ انہیں کی آ غوش تھی_ ان کی گود اولاد کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کی ایک عظیم درس گاہ تھی _ جو فرائص خانہ داری اور تربیت اطفال کو اپنی فطرت کے عین مطابق نبھاتی تھی_ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے_ عہ
مرد باہر کا کام کرتے ہیں
ہے ہمارے سپرد سب گھر بار
اپنے گھر کے مجسٹر یٹ ہیں ہم
کرتے ہیں فیصلہ جو ہوتکرار
ہیں جج کے بھی اختیار ہمیں
فیصلہ میں بھی ہم نہیں لاچار
حالت صحت وعلا لت میں
ہم ہیں بچوں کے اپنے ذمے دار
ہم معلم ہیں ان کےاور مصلح
ہم ہی پر ان کا ہے بگاڑ سنوار
لیکن چند مغربی پرست مردوں نے آ زادی نسواں،مساوات مردوز ن اورمعاشی آ زادی کے نام پر انہیں دھوکا اور فریب دیا_عورتوں کی آ زادی،عورتوں کی حقوق اور عورتوں کے فرائض کے نام پر شاطرانہ چال چل کر عورتوں کو خود اختیاری ،خود مختاری کے حسین جال میں پھنساکر گھر سے بے گھر کرتے ہوئے گھر سے باہر نکال کر معاشیات سے لے کر سیاسیات تک, کھیل کے میدان سے لےکرکھیت وکھلیاں تک کی ذمہ داری سونپ دی_ ان ظالموں نے یہاں تک ہی بس نہ کیا بلکہ عورتوں کو بازار حسن،بازار نمائش،بازار تماشہ بنا کر حسن اور شہوانی خواہشات کی تکمیل کا آلہ بنادیا_
اس جدید دور میں حقوق نسواں ،آزادی نسواں،مساوات مرد وزن کے نعرے نے مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں،کارخانوں،دفتروں،دکانوں،کلٻوں اور تجارتی مرکزوں میں لاکھڑا کردیا _ مساوات مرد وزن کے نام پر مردوں کے دوش بدوش کھڑے ہوکر زندگی کے تمام شعبو ں میں ان کا مقابلہ کرنے کے شوق میں اس قدر پاگل ہوگئیں کہ اپنی فطرت کو بھول کر عورت کی فطرت سے بغاوت کر بیٹھیں_ مرد نےایسا حسین وار کیا کہ عورت کچھ بھی نہ سمجھی اور زندگی کے ہر میدان میں مرد سے ٻڑی خوبصورتی سےمات کھاگئ_ ہر محکمہ میں عورت اور مرد کا مقابلہ ہوا۔ مرد نےہر جگہ قصدا شکست کھائی اور ہار مان لی_ عورت کا سر فخر سے اونچا ہوتا گیا_ اس کے ماتھے پر غرور کی جھلکیاں صاف دکھائی دینے لگی_ فریب خوردہ نے کچھ نہ سمجھ کر سمجھا کہ اس کے اندر مرد سے زیادہ صلاحیت ہے_اب وہ غرور کے جو ش میں ہوش کھوتے ہوئے خود اس قدر آگے بڑھ چلی کہ اپنے نسوانی لباس کو اتار پھینکی_ اردو کے عظیم ناول نگار ابن صفی لکھتے ہیں” پہلے مرد عورت پر حکومت کرتا تھا_ طاقت سے لیکن اب ان بیوقوفوں کو برتر بناکر حکومت کرتا ہے,_ برتر بنا کر حکومت کرنے میں مردوں کو دوہرا فائدہ ہوا_ یعنی عورت پر دوہری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہے,وہ انہیں خود سے برتر بنا کر گھروں کی چار دیواریوں سے نکال لاتاہے _ انہیں اپنے دوش بہ دوش کام کرنے کا موقع دیتا ہے_ رہ گئے چاردیواریوں والے فرائض تو عورتیں انہیں عادتا انجام دیتی ہیں”_
آ زادی نسواں وہ ہے جس سے نسوانیت محفوظ رہے_ عورتیں قانون فطرت پر چلتی رہیں_ لیکن جب سے عورتون نے قانون فطرت سے بغاوت کی تب سے اس پر خطرات کے بادل منڈلاتے رہے_ جب سے آزادی نسواں کے نام پر فرینڈ شپ،پارٹنر شپ،ہوٹلوں،بازاروں،دکانوں،دفتروں اور سڑکوں کی زینت بننے کی کوشش کی_جب سے گھر سےباہر نکل کر show piece بننے کی آزادی ملی،ٹیلی ویژن کے اشتہاروں اور اخباروں کی خبروں میں ننگے آنے کی آزادی ملی،سرکار کے دفتروں میں کام کرنے کی آزادی ملی،کھیل کے میدانوں میں جسم دکھانے کی آزادی ملی،معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی ازادی ملی،نقاب سے بے نقاب اور حجاب سے بے حجاب ،گھر سے بے گھرکرکے مردوں نے اپنے شانہ بہ شانہ اور قدم سے قدم ملا کر بے شرمی اور برہنہ جسم کرکے سڑکوں پر فخریہ لایا_اور اپنے ساتھ ہر محفل کی شمع بنایا_ شرم وحیا کی قیمتی زیورات کو اتارکر پھینکنے کی ازادی دی_ اس کی آ غوش کو زخمی تو کیا ہی کیا _ اس کی عصمت کے نگہبان اتنا بہک گیا کہ اس کے چہرے کا نقاب ہی نہیں بلکہ اپنے عیش وعشرت کےلئے بدن کا لباس بھی اتار دیا_ بھائی بہن کا فرق اٹھ گیا _ بھائی نے بہن کو اپنی ہوس کا شکار بنایا_ باپ نے اپنی بیٹی کے ساتھ منھ کالا کیا_ بیٹے نے اپنی ماں کی عصمت کا تار تار کیا_استاد نے جنسی تعلیم کے نام پر اپنے طالبات کے ساتھ جنسی خواہشات کی تکمیل کی_ کلاس روم کو جنسی تعلیم کی پریکٹس روم اور عمل گاہ بنایا _ یہ ماضی کا کوئی علامتی،نہ سمجھ میں آ نے والی مینی کہانی ارو مختصر افسانہ نہیں بلکہ یہ حال کا بے حال داستان ہے جو روزانہ کے
اخباروں اور خبروں میں درج ہے_موجودہ حالات میں عورتوں کی ترقی اور احترام کی علامت یہی ہے_؟ کیا یہی برابری کی دلیل ہے_؟ اس سماجی ناانصافی کا ذمہ دار کون ہے_؟ عورتوں کے ان حالات کا مجرم کون ہے_؟ یہ مجرمانہ رجحانات کوسوسائٹی میں فروغ کس نے دیا_؟
آ زادی ہم سب کا پیدائشی حق ہے_ لیکن ہم سب ازاد کہاں _؟ ازادی نسواں،حقوق مردوزن کانعرہ عام ہے_ لیکن خود عورت کے پجاری،عورت کے پاسبان،محافظ،آزادی نسواں کے نام پر ،تحفظ عورت کے نام پرعورتوں کے ساتھ غیر انسانی،غیر اخلاقی،
غیرقانونی سلوک ، آزادی نسواں، جنسی نصابی تعلیم
کے نام پر کیا جارہا ہے _ عورت کا قاتل،جنسی جرائم کا مجرم،ریپ اور بلتکار کرنے والے عورت کو تحفظ اور معاشرے میں عورت کی بقا کا ضمانت دے رہے ہیں_آخر مجرم کون ہے؟ کہاں ہے_؟ کس بھیس اور کس دیش میں ہے_؟
چند مغرب پرست ذہنیت رکھنے والے مردوں نے بھری محفل میں ان کی عزت و وقار کو لوٹا،آبرو ریزی کی_ خود جنسی جرائم کیا اورجنسی جرائم کا شکار بھی بنایا _اس ظلم وستم سے تنگ آ کر ان ظالموں سے
اپنی فطرت میں رہنے کی آزادی مانگی_اپنی نسوانی کردار کو محفوظ رکھنے کی ڈیمانڈ کی_ ماں کو ماں کی صورت میں دیکھنے کی آ زادی مانگی_ بہو نے بہورانی بن کر رہنے کی آ زادی مانگی_ ساس،نند،بھاوج،دیورانی،بیٹی،بیوی سب نے اپنے مقدس رشتوں کے تحت رہنے کی آ زادی مانگی _ نسوانیت نے محفل کی شمع نہیں ،گھر کو روشنی بخشنے والا چراغ ہونے کی آ زادی مانگی_عورت اپنے دائرےحدود میں رہنے کی آ زادی مانگی _عورت نے قانون فطرت کے تحت عورت بن کر رہنے کی آزادی مانگتے ہوئے یہ دہاڑ لگائ کہ میرا جسم،میرا لباس،میری مرضی !! تو چند عیش پرست مردوں نے عورتوں کے جسم کو ننگا کرتے ہوئے ان عورتوں کے نعرے کو ٹھکراتے ہوئے کہا_” جسم تیرا،مرضی مری”
عہ لوگ عورت کو فقط جسم سمجھتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے کہاں سوچتے ہیں
ختم شد
M, Arif
Kali Bagh,Bettiah_ 845438
West champaran,Bihar
India ,Asia,warld
Email_ Mohammad arif alam2018@ gmail.com
DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of information contained.