فلسطینیوں کو انصاف کب ملے گا؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

روس نے جب سے یوکرین پر حملہ کیا ہے تب سے یوروپ کو یہ خوف ستانے لگا ہے کہ شاید اب وہ دن دور نہیں جب پورا براعظم اس بھیانک دور میں دوبارہ داخل ہو جائے جہاں سے نکل کر آئے ہیں اور اس کی بڑی قیمت بھی چکا چکے ہیں اور اسی لیے اس کے تصور سے بھی گھبراتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ عظیم کے خاتمے بعد جو نیا ورلڈ آرڈر قائم ہوا، اس میں مغربی ممالک نے ایک تلخ سبق یہ سیکھا کہ جنگیں مسائل کو حل نہیں کرتی ہیں بلکہ انہیں مزید خوفناک بنا دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کم سے کم یوروپ کو وہ جنگ کے دھوئیں سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے تھے لیکن روس نے یوکرین پر حملہ کرکے سارا ماحول ہی بدل دیا۔ جنگ کی ہولناکی کو بھلا ماقبل جدیدیت والے عہد کے مغربی ممالک سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا جس کی پوری تاریخ ہی وحشت و بربریت سے لبریز رہی تھی۔ مغربی جدیدیت کے جس دور کا آغاز سترہویں صدی سے ہوتا ہے، وہ خود قتل و خون اور اقوام عالم کی تہذیبوں کی تاراجی سے عبارت رہی ہے۔ اگر یوروپ کی طویل خوں آشام تاریخ سے صرف نظر کرکے صرف دو عظیم جنگوں میں لقمۂ اجل ہونے والے لوگوں کی تعداد ہی پیش کی جائے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں چار کروڑ لوگ متاثر ہوئے تھے۔
دوسری جنگ عظیم کی داستان تو مزید دلخراش ہے۔ اس جنگ میں ستر سے لے کر پچاسی ملین لوگوں کے مارے جانے کا اندازہ لگایا گیا ہے جن میں سے پچاس سے چھپن ملین لوگ تو براہ راست جنگ میں مارے گئے جبکہ انیس سے اٹھائیس ملین لوگ جنگ کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریوں سے موت کا شکار ہوگئے تھے۔ بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ اس وقت دنیا کی جو آبادی تھی، اس میں سے تین فیصد کے برابر لوگ لقمۂ اجل بنے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نئے ورلڈ آرڈر میں جو ایک دوسری بڑی تبدیلی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ برطانوی سامراج کا سورج ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا اور اس کی جگہ مغرب کی قیادت کی باگ ڈور امریکہ کے ہاتھ میں آگئی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد چونکہ عالم عرب کے ساتھ فریب کرکے برطانیہ اور فرانس نے عرب دنیا کے ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لینے اور سائیکس پیکوٹ پلان کے تحت صحرا میں سرحدوں کی لکیریں کھینچ دینے کا نقشہ تیار کر ہی لیا تھا مگر 1917 میں ہی بلفور ڈکلیریشن کے تحت ایک اسرائیلی ریاست کے قیام کا راستہ بھی صاف کر دیا تھا اور بالآخر 1948 میں فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کے قیام کا صہیونی خواب شرمندہ تعبیر کر دیا گیا۔ مغربی ممالک نے عرب مسلم دنیا کو کنٹرول کرنے کا جو پلان تیار کیا تھا، اس کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے اسرائیل کے قیام اور پھر اس کے تحفظ کا انتظام کرنا سب سے ضروری امر تھا۔ گویا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا قیام نئے سامراجی نظام کو برقرار رکھنے والے طویل مدتی پروگرام کا بنیادی عنصر ثابت ہوا۔ فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں تو پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی شروع ہوگئی تھیں لیکن 1948 میں اس کے قیام کو جب یقینی بنادیا گیا تو اس کو سب سے پہلے جس ملک نے قبول کیا، وہ قدیم سوویت یونین اور موجودہ دور کا روس تھا۔ اسرائیل اپنے قیام کے اول دن سے ہی تشدد، خوں ریزی اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرنے جیسے جرائم میں ملوث ہو گیا اور مغرب بالخصوص امریکہ نے پورا تعاون پیش کیا جس کے نتیجے میں فلسطین کے گاؤں گاؤں اور شہر شہر میں وحشت کا نیا ریکارڈ صہیونیوں نے قائم کیا۔ ہگانا ہ کے ممبران نے قتل و غارتگری میں ادنیٰ درجے کی انسانیت نوازی کو بھی اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ سیکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے، اپنی زمین جائیداد، رشتہ دار و اقارب، اپنے گھر اور بستیوں سے اجاڑے گئے اور راتوں رات باوقار زندگی گزارنے والے ذلت و بے مائیگی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ فلسطینی نژاد امریکی دانشور ہشام شارابی جو سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے استاد رہ چکے ہیں، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 1948 میں جو کچھ انہوں نے دیکھا وہ ناقابل یقین ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نازی جرمنی سے بھاگ کر آنے والے جن یہودیوں کو ہم نے پناہ دی تھی اور جنہیں اپنا گھر اور زمینیں دی تھیں اور وہ ہمارے پڑوسی بن گئے تھے اور اچھے تعلقات استوار تھے، انہوں نے بھی قیام اسرائیل کے بعد بڑی بے مروتی کا ثبوت دیا اور اپنے پڑوسی فلسطینیوں کو لوٹنے اور ان کا گھر جلانے میں صہیونیوں کے ساتھ تھے۔ اسرائیل نے مغرب کی پشت پناہی میں فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کا جو سلسلہ 1948 میں شروع کیا تھا، وہ آج بھی جاری ہے۔ صابرہ اور شتیلا کے کیمپوں میں ایریل شیرون کی قیادت میں جس وحشت ناکی کا ارتکاب کیا گیا، اس کا تو ذکر ہی کیا کرنا لیکن اگر ہم صرف گزشتہ 7 برسوں کا تذکرہ کریں تو معلوم ہوگا کہ 2014 میں اسرائیل نے غزہ اور مغربی کنارہ پر جو بمباری کی تھی، اس میں ’گارڈین‘ اخبار کے مطابق 2314 فلسطینی مارے گئے جبکہ 17125 لوگ زخمی ہوئے۔ اس کے بعد گزشتہ برس مئی 2021 میں غزہ پر جو بمباری اسرائیل نے کی، اس میں انسانی حقوق تنظیم بیت سالم کے مطابق 316 مارے گئے جن میں 77 بچے اور پچاس سے زائد عورتیں شامل تھیں۔ جہاں تک فلسطینیوں کے گھروں سے نکالے جانے اور ان کے گھروں کو منہدم کرنے کا معاملہ ہے تو قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صرف 2021 میں 895 فلسطینی بے گھر کیے گئے جن میں 463 بچے تھے۔ دراصل اسرائیل منظم طور پر مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم میں رہنے والے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے انہیں گھروں سے نکال دیتا ہے اور ان کی جگہ یہودیوں کو بسایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں شیخ جراح کا معاملہ بہت معروف ہے، کیونکہ پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں یہ معاملہ کامیاب ہوگیا تھا اور اسی کی وجہ سے فلسطینیوں پر اسرائیل کا عتاب گزشتہ برس نازل ہوا تھا۔
دراصل شیخ جراح میں رہنے والے چار فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان میں یہودیوں کو بسانے کی کوشش تھی جس پر فلسطینیوں نے احتجاج کیا اور اسرائیل نے اس احتجاج کو کچلنے کے لیے حماس کے بہانہ غزہ پر بمباری شروع کر دی تھی۔ 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے ہی فلسطینی زمینوں پر یہودیوں کو بسانے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک تقریباً 6 سے ساڑھے 7 لاکھ یہودی فلسطینی زمینوں پر بسائے جاچکے ہیں جو اسرائیلی فوج اور پولیس کی حفاظت میں زندگی گزارتے ہیں اور وقتاً فوقتاً فلسطینیوں پر مل کر حملے کرتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے اس رویے کو اپارتھائیڈ کے مماثل ایک مجرمانہ عمل قرار دیا ہے اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی ہے کہ اسرائیل کو ذمہ دار مان کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ اسرائیل کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتہ شیخ جراح معاملہ پر اپنا یہ فیصلہ جاری کیا کہ فلسطینی خاندان اپنے گھروں سے تب تک نہیں نکالے جائیں گے جب تک اسرائیل متبادل زمین کا انتظام نہیں کرتا۔ فلسطینی وکلا اس فیصلے کو اپنی جیت مان رہے ہیں، کیونکہ 1972 کے بعد جبکہ یہودیوں نے کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس زمین پر فلسطینیوں کی ملکیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ابھی اس مسئلے میں کافی پیچیدگیاں باقی ہیں جن کا مستقبل قریب میں حل ہونا ناممکن ہے لیکن یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجے میں خود یوروپ کے اپنے باشندے جس طرح قتل و غار گری کا شکار ہورہے ہیں اور انہیں بے گھر ہو کر پناہ گزینی کی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے کیا یہ معاملہ مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ کو اس بات کے لیے مجبور کرے گا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ انصاف اور ہمدردی سے کام لیں اور تاریخی طور پر مسلسل ان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا ہے، اس کا سلسلہ بند کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، کیونکہ ظلم کسی خطے میں ہو، اس کی آنچ دیر یا بدیر ظالموں کے دروازے تک بھی ضرور پہنچتی ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS