ہر اختلاف تصادم کی دعوت نہیں دیتا

0

عبدالسلام عاصم

جس جمہوری سماج میں علم سے زیادہ عقائد کا بول بالا ہو اُس کا موازنہ کسی ایسے جمہوری معاشرے سے نہیں کیا جاسکتا جہاںغیر سائنسی نظریات کی حیثیت ذاتی ہے، کائناتی نہیں اور زندگی کے یومیہ معاملات میں اُن کو اس طرح دخیل نہیں کیا جاتاکہ سڑکوں اور گلیوں میں نوبت بین عقائد ٹکراؤ تک پہنچے اور عوامی زندگی جہنم بن کر رہ جائے۔ بد قسمتی سے برصغیرکی جمہوریتوں کو اس حوالے سے آج بھی سخت آزمائش کا سامنا ہے۔ ایسے میں فوری نجات کی تو بات ہی نہ کی جائے، البتہ مرحلہ وار حالات کو بہتری اور معاملات کو تفہیم کے رُخ پر آگے بڑھانے کیلئے لازمی ہے کہ درپیش صورتحال کو الگ الگ طریقے سے سمجھنے یا اُس پرمتصادم نظریہ سے غور کرنے کے بجائے ہر اُس سچ کو مان کر آگے بڑھا جائے جس سے انکار کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ البتہ ناکامی حالات کی شدت کو اور بڑھا سکتی ہے۔
ایسا ہی ایک سچ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کے اُس بٹوارے کی سزا مل رہی ہے جس کی بنیاد انتہائی خودغرضی کی بنیاد پر اُس زمانے کی ویسی ہی فکری سفاکی پر رکھی گئی تھی جیسے سنگین فکری تصادم کا مجموعی طور پرآج قوم کو سامنا ہے۔ قومی سیاست کا کاروبار داخلی محاذ پر جہاں ہندومسلم دائرے سے باہر ہی نہیں نکلتا، وہیں خارجی سطح پر چین، امریکہ، روس پر پاکستان کا تذکرہ سبقت لے جاتا ہے۔یہ منظر نامہ آج کا کوئی نیا منظر نامہ نہیں ہے، کل بھی بہ انداز دیگر سارا سیاسی دھندہ اسی رُخ پر تھا۔ اوریہ دھندہ یک رُخی نہیں، اس میںبڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔
ایسا ہر گز نہیں کہ تعمیر کے برعکس تخریب میں اشتراکِ عمل نہیں ہوتا۔ ملک کابٹوارہ صد فیصداشتراک عمل کا نتیجہ تھا جس میں انسانی ضرورتوں پر عقائد کو ترجیح دی گئی۔ کوئی علیحدگی تو کوئی علیحدگی پسندوں سے نجات چاہتا تھا۔ صد فیصد خود غرضانہ سیاست رچی گئی تھی اورعام لوگ دونوں طرف کے شاطرین کے جھانسے میں آ گئے تھے۔انجام کار ملک دولخت ہوگیا۔ کسی کوکم تو کسی کو زیادہ نقصان ہوا۔ فائدے میں کوئی نہیں رہا۔ ہندوستان اُن مسلمانوں کیلئے راتوں رات اجنبی بن گیا جنہوں نے بٹوارے کے نہیں آزادی کے خواب دیکھے تھے اور اُدھرپاکستان اُن ہندوؤں کے حصے میں چلا آیا جو اُسے بنوانے کی تحریک میں کسی طور شریک نہیںتھے۔ اُن کی زندگی اُدھر حرام ہو گئی اور ہندوستان میں وہ حلقہ جو ہر حال میںفرضی دشمنوں سے نجات چاہتا تھا، اُس نے ملک کی تقسیم کے لیے اُن تمام لوگوں کو ذمہ دار مان لیا جو علیحدگی پسندوںکے ہم مذہب تھے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ غیر انسانی سرحد کے اُس پار پاکستان میں جداگانہ سیاسی اور انتخابی نظام مسلط کر کے غیر مسلمین کو مساوی حقوق سے محروم رکھنے کی مذموم پالیسی نے ہندوستان میں فرقہ وارانہ منافرت کو مزید تقویت پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ باوجودیکہ آزاد ہندوستان اگر آج تک یک جہت اور متحد ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اکثریت اور اقلیت دونوں کے متحارب حلقے اپنے اپنے فرقوں میں اقلیت میں ہیں۔ پاکستان اس لیے دولخت ہو گیا کہ وہاں صرف وہ لوگ ہی نشانے پر نہیں تھے جو اقلیت میں آج بھی ہیں۔ وہاں اکثریت کا حصہ بن کر ابھرنے والے بنگالی مسلمانوں کے ساتھ بھی انتہائی تحقیر آمیز سلوک شروع دن سے روا رکھا گیا تھا۔ ان کی زبان تک کو مشرکانہ زبان کا نام دینے سے وہ لوگ باز نہیں آئے جومذہب اور ثقافت کو ایک دوسرے سے خلط ملط کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہی صورتحال کم و بیش یہاں بھی رہی۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھنے اور سمجھانے کی کم کوشش نہیں کی گئی۔
باوجودیکہ امید پرستوں کا خیال تھا کہ سقوط ڈھاکہ ہندوستان میں تقسیم سے برگشتہ اکثریت اور افسردہ اقلیت کے بیچ فاصلے کی وہ دیوار گرا دے گا جس کی موجودگی اندیشوں اور وسوسوں کی تجارت کرنے والوں کو وقتی فیض اور امکانات کے رُخ پر جینے کی تمنا رکھنے والوں کو دیر پانقصان پہنچاتی رہے گی۔ مشرقی پاکستان میں شکست سے بھی باقیماندہ پاکستان کوئی سبق لینے میں ناکام رہا۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کو ملک کے جس بٹوارے کی سزا مل رہی ہے، اُس سزا کی شدت بڑھاتے رہنے میں پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی دونوں کا اہم کردار ہے۔ ہمارے یہاں بھی تقسیم ہند کے بعد آزاد ہندوستان میں ہندو-مسلم اتحاد کو تقویت سے زیادہ گزند اس لیے پہنچا کہ دونوں طرف فرقہ وارانہ قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنے پرجداگانہ مذہبی شناخت کو ترجیح دیتے تھے۔ اس سوچ کا دونوں طرف تعلق عقائد سے ہے مذہبی تعلیمات سے نہیں۔
ملک میں ایک سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات کا جائزہ لیا جائے توبیش و کم اکثریت اور اقلیت دونوں کے دامن آلودہ نظر آئیں گے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے زبانی وِرد اور فرقہ وارانہ منافرت کے عملی مظاہرے کی وجہ سے اکثریت کے ایک حلقے نے ہندوستان پر مسلم حکمرانی کی تاریخ کے صرف تاریک پہلوؤں کو اپنا بیانیہ بنا لیا ہے۔ اس کا اثر ملک سے باہر دوسروں پر بھی پڑ رہا ہے۔ پچھلے دنوں یوکرین پر روس کے حملے کاموازنہ راجپوتوں کے خلاف مغلوں کے قتل عام سے کیا گیا۔ یہ تبصرہ کسی ہندوستانی کا نہیں بلکہ ہندوستان میں یوکرین کے سفیر کا ہے۔ اس بیان سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کے سماجی اور سیاسی رجحان سے دوسرے اپنے لیے کس طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تووطن عزیز میں ہندو-مسلم اتحاد کو دونوں ہی حلقوں کے شدت پسندوں نے تباہ کن نقصان پہنچایا ہے۔ ایک سے زیادہ صوفیوں، سنتوں اور دوسروں کی مدد سے دونوں طرف کے بعض حلقوں اور اداروں نے ہندو-مسلم اتحاد کے احیا کی کوشش ضرور کی لیکن سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی اتحاد کے ٹوٹنے میں جن خرابیوں کا دخل ہوتا ہے، انُ خرابیوں کا کسی اسٹیج نمائش سے ازالہ نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں پانچ ریاستوں میں انتخابات کی مہم کے دوران سیاسی تقاریر، سوشل میڈیا پر گمراہ کُن اطلاعات اور قومی اخبارات اور برقی میڈیا کے مجموعی کردار کے ساتھ ملک بظاہر جس رُخ پر آگے بڑھ رہا ہے، اس کے نتیجے میں صرف عام ہندوستانی مسلمانوں کا نقصان نہیں ہوگا۔ ہندوؤں کا بھی نقصان ہوگا کیونکہ معیشت بری طرح برباد ہو سکتی ہے اور قومی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
دونوں فرقے ممکنہ خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں،لیکن دونوں فرقوں کی قیادت کا یہ عالم ہے کہ ایک یوکرین پر روس کے حملے پر مبینہ طور پر خاموش ہے تو دوسرے کویہ اعتراض ہے کہ یوکرین پرمبینہ ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطین ، شام ، عراق اور افغانستان کے ساتھ زیادتی پر کیوں خاموش تھے۔ جہاں عمل اور ردعمل کی نوعیت ایسی ہو، وہاں امکانات کے رُخ پر صرف باتیں کی جا سکتی ہیں۔ حالات کا عملی ادراک اتنی جلد ممکن نہیں۔ اِس میں وقت لگے گا۔ سردست عام ہندوستانی مسلمانوں کو انتہائی ضبط سے کام لینا ہے۔ ناانصافیوں کے حوالے سے ہر عہد کا دامن داغدار ہے۔ فوری انصاف افسانوں سے باہر شاذمل پاتا ہے۔ ایسے میں بس یہ صلاح دی جا سکتی ہے کہ تدبر سے کام لیا جائے، فوری ردعمل سے نہیں۔
بیدار مغزہندوؤں اور مسلمانوںکے مابین یومیہ بنیاد پر رابطہ وقت کی سخت ضرورت ہے۔ اگر کوئی ایک حلقہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری دیکھنا چاہتا ہے تو اُس حلقے کا ذہن ایک دم سے نہیں بدلا جا سکتا۔ گزشتہ 70 برسوں میں جس جذبے کوپاکستان کی طرف سے راست اور درون ملک بالواسطہ اشتراک سے پروان چڑھایا گیا ہے، اُس سے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں ایکدم سے نجات ممکن نہیں۔ یہ تاثر اپنی جگہ کہ کسی بھی ظلم کا ازالہ جوابی ظلم سے ممکن نہیں لیکن دونوں حلقوں میں لکھنے پڑھنے اور غور کرنے کی جگہ صرف سننے اور سن کر یقین کرنے والوں کی بھیڑ کو یہ بتا نا اور سمجھانا مشکل ہے کہ دو متصادم عقائدبظاہر مختلف ہوتے ہیں ،بباطن نہیں۔ یہ سمجھ جس دن عام ہوجائے گی اُس دن یہ گُنگنانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔ ہمیں ایک ایسی صبح کی سخت ضرورت ہے جس میں ذہن کے سورج سے نکلنے والی روشنی کا پیغام یہ ہو کہ : ہر اختلاف تصادم کی دعوت نہیں دیتا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS