گلشن گلاب کا بانی ڈاکٹر فخر العالم

0

کوثر علی

شجاعت و بسالت کے گلستان کو مزین کرنے والے، برطانوی عہدیداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر منھ توڑ جواب دینے والے(انگریزی حاکم کے سوال یہی ہے کالا کلوٹا ناٹا شیخ گلاب، تو برجستہ حاضر جوابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیخ گلاب نے کہا کہ شکل تو رنڈی کی ہوتی ہے مرد کی نہیں) غلامی کے  اندھیروں میں آزادی کی شمع روشن کرنے والے مرد مجاہد  شیخ گلاب کا گلاب،شیخ محمد جان کا لخت جگر، گلشن گلاب کا بانی ڈاکٹر فخر العالم سن ؁۰۵/۰۹/۱۹۴۷میں اس عالم آب و گل میں آئے۔
ڈاکٹر فخر العالمؒ صاحب کی پیدائش صوبہ بہار کے تاریخی ضلع مغربی چمپارن کے تھانہ ساٹھی کے قصبہ چاند بروا میں ہوئ۔
ڈاکٹر صاحب بی اے،  ایم  اے  پولیٹیکل سائنس میں  اور  ایل ایل بی، بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر بہار یونیورسٹی مظفر پور سے کیا۔پی ایچ ڈی پولیٹیکل سائنس میں مگدھ یونیورسٹی بدھ گیا سے کیا۔
آپ کی تدریسی سرگرمی کی مدت ۳۲ سال کی  ہے جو ضلع کے نامی کالج، رام لکھن سنگھ یادو میں بحیثیت پروفیسر شعبہ پولیٹیکل سائنس گزری ہے۔
حصول تعلیم کے بعد تدریسی سرگرمیوں میں سرگرم ہو گئے۔دوران درس و تدریس ہی آپ نے زمانے کے تقاضے، وقت شناسی اور اپنے خاص علمی میدان کے سبب ضلع کے اقلیتی طلباء و طالبات کے حصول علم کے لئے ضلع کے صدر مقام میں پہلا اقلیتی ادارہ، مرد مجاہد آزادی شیخ گلاب کے نام پر قائم کر کے عصری علوم کا راستہ ہموار کیا، تاکہ قوم و ملت کے بچے عصری علوم حاصل کر کے برادران وطن کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ چل سکیں۔آپ کا یہ مشن بہت دور رس نتائج کا حامل ہوا۔آپ نے جیتے جی ہی اس کے رزلٹ کو دیکھ لیا کہ ضلع کے مختلف مقامات پر اقلیتی اداروں کا قیام ہونے لگا۔اگر یہ کہا جائے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ مغربی چمپارن کے مختلف مقامات پر اقلیتی کالجوں کا قیام آپ ہی کے سبب  سے ہے تو یہ شاید غلط نہ ہوگا۔اس ادارے سے بڑی تعداد میں قوم و ملت کے بچوں نے تعلیم حاصل کی اور وہ دنیا سے متعلق میدان ہائے حیات میں عزت و آبرو کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔
خوف خدا، یوم آخرت پر یقین کامل کے سبب اپنے صاحبزادے انتخاب عالم کی یاد میں صدقہ جاریہ کے لئے اپنی آمدنی خاص بقول محمد صلاح الدین خادم سفر و حضر، پینشن کی رقم سے اپنے آبائی گاؤں چاند بروا میں، مدرسہ انتخاب العلوم(برائے حفظ ) قائم کیا۔
نیز گلاب میموریل انٹر کالج میں نمازیوں کے لئے ایک مصلی قائم کیا، یہ آپ کے قائم کردہ ادارے ہیں، خدا انہیں شرور و فتن سے اپنی پناہ میں رکھے!
ہندوستانی مسلمانوں کو پیچیدہ اور گوناگوں در پیش مسائل کے سبب ان کے مداوا کے لئے، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیا(جنتادل یونائیٹڈ) ،اور زندگی کے آخری لمحہ تک اس شغل کو جاری بھی رکھا۔
لیکن راقم الحروف کی موجودگی سے قبل ہی کسی ناگزیر اسباب کی وجہ سے قریب قریب وابستگی ختم کر چکے تھے۔لیکن رجحان و خیال کے اعتبار سے تادم آخر وہی موقف رہا جو ایک سچے قوم کے ہمدرد کا ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالی نے انہیں جہاں بے پناہ مال و دولت سے نوازا تھا۔وہی انہیں اپنی اس توفیق خاص سے بھی نوازا تھا کہ انہوں نے اپنے  مصارف کا قابل لحاظ حصہ، دین، دینی تعلیم، ضرورت مندوں، مسکینوں، بیواؤں، مہمانوں اور محلے کے بچوں پر خرچ کیا ۔مرحوم ہمیشہ نیکوں اور علماء متقین سے جڑے رہے اور ان کی صحبت کا ذکر خیر بارہا کرتے رہے۔
وہ اپنی ممتاز علمی و ادبی لیاقت اور رسوخ و تجربے کی شہرت کی وجہ سے اندرون ملک کئ یونیورسٹیوں ،اسکول اور کالجز وغیرہ کے انگریزی اردو زبان و ادب کے اہم رکن شمار ہوتے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب اہم عہدوں مثلا چیف کو آر ڈینیٹر اسکول آف سوشل نالندہ اوپن یونیورسٹی، سینیٹر بابا بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی مظفر پور، سکریٹری ؁۱۹۸۹ سے تا دم آخر ۰۳/۰۱/۲۰۲۲ گلاب میموریل انٹر کالج بتیا، فاؤنڈر ممبر جی ایم کالج بتیا، 15th پوائنٹ پروگرام آف گورنمنٹ بہار، چیئرمین و صدر الفلاح ایجوکیشن ٹرسٹ بتیا، وائس پرسیڈنٹ ضلعی وقف کمیٹی و مرکزی جہیز روکو کمیٹی،  ریٹائرڈ پروفیسر  رام  لکھن سنگھ  یادو  کالج  بتیا، ضلعی صدر جے ڈی یو ،وائس پرسیڈنٹ نیشنل پبلک اسکول بتیا اور ضلع کے دیگر مدارس، اسکول انسی ٹیوٹ وغیرہ کے  لئے زینت رہے، لیکن انہوں نے ہمیشہ معمولی آدمی کی طرح سادہ زندگی گزاری۔وہ ظاہر کی آراستگی پر توجہ نہ دیتے تھے۔ملنے والے کو پہلے سے معلوم نہ ہو تو ان سے مل کر قطعا اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ وقت کے بہت بڑے ادیب، جہاں دیدہ، ماہر تعلیم، قوم کے ایک غمخوار سے مل رہا ہے۔ہر آدمی بغیر کسی ذہنی تردد اور نفسیاتی تیاری کے ان سے مل سکتا تھا۔تواضع اور خاکساری ان کی واضح شناخت تھی۔
ان کی شرافت اور نیکی کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس آب و گل دنیا سے ان کا رب انہیں اس طرح لے گیا کہ وہ موت سے قبل کسی کے لئے اپنی معذوری، طویل بیماری اور ارذل العمری کی بناء پر باعث زحمت نہ بنے ۔حکیم مطلق نے انہیں چلتے چلاتے اپنے پاس آنا فانا ہی بلا لیا۔
راقم الحروف سے اتنا متاثر تھے کہ جب بھی ملاقات ہوتی نہایت فراخ دلی، خوش مزاجی سے پیش آتے، حال دریافت فرماتے اور بطور مزاح کہا کرتے تھے کہ کہاں اڑ رہے ہیں۔ہر چھوٹے بڑے دینی مسائل میں رجوع فرماتے، خلاف مرضی کام صادر ہونے پر اپنے متولی ہونے کا دھونس نہ جماتے۔جسے راقم الحروف ان کی ذاتی شرافت اور طبعی تواضع پر محمول کرتا ہے ۔میں نے انہیں کم گو، منکسر المزاج، غیر متکبر، صاف دل، مہمان نواز، انسان شناس، قوم کا ہمدرد، بابائے قوم مہاتما گاندھی کے نظریات اور اقدار کے مطابق نازک حالات میں صبر و تحمل سے کام لینے والا پایا، یہ ان کا بہت نمایاں وصف تھا۔
ڈاکٹر صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے یہاں کس کو ہمیشہ رہنا ہے۔وہ اپنے پسماندگان میں تین صاحبزادے ایک صاحبزادی اور اہلیہ کو چھوڑ کر مورخہ ۰۳/۰۱/۲۰۲۲ کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
میرے خانہ خیال میں ان کی تصویر اب تک متحرک ہے اور شاید تا حیات زندہ رہے گی۔لیکن وہ اپنے اخلاق و کردار، اپنے علمی و تحریری نقوش اور ادبی فیضان کی وجہ سے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہیں گے۔

کوثر علی
ہینسوا، بتیا بہار
9801997177 

[email protected]

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS