بہترین توشئہ حیات ،عشق حقیقی ہی ہے

0

خدایا آگیا مجھ کو بتوں کی بے نیازی سے
ملا بام حقیقت زینئہ عشق مجازی سے

  1. عشق کا لغوی معنی، گہرا جذباتی لگاؤ، محبت، الفت، عاشقی کے ہیں ۔عرف عام میں عشق سے  ،عشق حقیقی و عشق مجازی مراد ہوتا ہے ۔عشق کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔اس کے بغیر کامیابی کے وہم و گمان کا تصور بے معنی دارد ہوگا ۔اہل علم و فکر نے عشق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، جب یہی عشق خالق و مخلوق، حاکم و محکوم کے ما بین ہو تو اس کا نام عشق حقیقی دے دیا ۔اور اس عشق کا عاشق دونوں جہاں میں سرخرو ہوتا ہے ۔اور جب یہ عشق بندوں کے درمیان ہو تو عشق مجازی نام دے دیا ۔اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ جب بھی لفظ عشق کا نام لیا جائے تو فورا ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان میں ہونے والی محبت سمجھ میں آتی ہے ۔واقعتا اس عشق کا عاشق و معشوق اسی دنیا ہی میں کبھی تو اپنے مقصد کا حصول کر لیتے ہیں لیکن بیشتر تو ان عاشقوں کی زندگی باعث وبال جان خود بن جاتی ہے ۔اس عشق کی گاڑی، عشق است و ہزار بد گمانی،  عاشق کو معشوق کے متعلق ہمیشہ بد گمانی رہتی ہے، کے کہاوت پر سوار رہتی ہے ۔خاص طور سے جب محبوبہ کو قدرت نے دلکش حسن اور جادوئی شخصیت ،ہوش ربا اور قیامت خیز جوانی سے نوازا ہو ۔تو مذکورہ کہانی کا صادق آنا تو یقینی ہی ہے۔ کیونکہ ان صفات سے متصف محبوبہ موسم کی طرح یاروں کو بدلتے ہوئے اپنی دام محبت میں کتنوں کو گرفتار کرکے حسن کی قیمت وصول کرنے لگتی ہے ۔عشق کوئی بھی ہو حقیقی ہو یا مجازی، دونوں چھپائے چھپ نہیں سکتے ۔کہاوت ہے ,, عشق اور مشک چھپائے سے  نہیں چھپتے ،، عشق کا حال لوگوں کو معلوم ہو جاتا ہے اور خوشبو کو بھی خفیہ نہیں رکھا جا سکتا۔جب عشق کا ظہور ہوتا ہے تو عاشقوں کی حالت بھی خوب ہوتی ہے عشق حقیقی کا عاشق گوشہ نشینی میں محبوب حقیقی کے متعلق غور و فکر اس لحاظ سے کرتا ہے کہ وہ کھلے عام بوریئے کو شاہی قالین پر ترجیح دے کر یہ اعلان کرتا ہے کہ درویشی ہر لحاظ سے بادشاہت سے بالا تر ہے ۔جب کہ عاشق مجازی کو معشوق کے سراپا بیان کرنے کا خبط سوار رہتا ہے ،معشوق کے زیورات، لباس، حرکات و سکنات، ہجر و وصال ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے ۔بعض اہل تصوف کے یہاں تصور ہے کہ عشق مجازی، عشق حقیقی کی سیڑھی ہے ۔کسی صوفی بزرگ نے اپنے بیٹے کو کہا تھا کہ بیٹا عشق کر عشق ہی کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔اس میں اگر کامیاب ہو گیا تو آگے کی کامیابی یقینی ہے ۔افسوس کہ کچھ جنسی تسکین کی پیاس بجھانے کی خاطر کہیں تو کوئی مرد کسی بے وفا صنم کے زلفوں کا شکار ہو کر رہ گیا تو کہیں کوئی صنف مخالف نئ آرزوئے ہوس میں یکے بعد دیگرے ہم سفر عشق کی تلاش میں رہ کر عشق کے سنہرے اوراق پہ بدنما داغ لگا بیٹھے ۔ورنہ غور و فکر کے سمندر سے گزرنے والے زندہ دل انسان کے لئے بہترین توشئہ حیات جاوداں ،عشق حقیقی ہی ہے ۔ 

کوثر علی 
ہینسوا، بتیا بہار
9801997177

[email protected]

DISCLAIMER: Views expressed in the above published articles/Views/Opinion/Story/News/Contents are the author's own, and not necessarily reflect the views of Roznama Rashtriya Sahara, its team and Editors. The Roznama Rashtriya Sahara team and Editors cannot be held responsible for errors or any consequences arising from the use of
information contained.
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS