’آپدامیں اوسر‘ تلاش کرنے کا ہنر ہر کسی کو نہیں آتا ہے۔لیکن ہماری موجودہ حکومت اس ہنر میں طاق ہے اور ہر معاملہ کاسیاسی فائدہ اٹھانے میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔اب آپ اس ہنر کو کوئی سابھی نام دیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اخلاقی اقدار، انتخابی اصول، جمہوری روایات کچھ بھی کہتے رہیں لیکن جنگ ہو یا امن سیاست ہرحال میں ہوگی اور یہ سیاست ڈنکے کی چوٹ پر ہورہی ہے۔ اترپردیش کے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی، روس- یوکرین جنگ کا ذکر کر رہے ہیں اور وہاں سے اب تک واپس نہ آنے والے طلبا کے نام پر بھی ووٹ مانگ رہے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے پوروانچل(مشرقی اترپردیش) کے طوفانی دورے میں بتایا ہے کہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے یوکرین میں پھنسے طلبا کو کیسے بچایا جا سکتا ہے۔پوروانچل میں انتخابات کے ابھی دو مرحلے باقی ہیں جس کے پیش نظر وزیراعظم مودی وہاں تیزی سے ریلیاں کر رہے ہیںاور اپنی انتخابی مہم کاموضوع ہی انہوں نے یوکرین سے طلبا کے انخلاکو بنارکھا ہے۔آج ا نہوں نے پوروانچل کے رابرٹس گنج اور بلیا میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے ہی ہم اپنے شہریوں کو یوکرین سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ’ آپریشن گنگا ‘کے تحت وہاں سے کئی ہزار شہریوں کو ملک واپس لایا گیا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہوئے آج ایک ہفتہ مکمل ہونے کو ہے۔ اس جنگ کے دوران وہاں رہ رہے ہندوستانیوں کو کن مشکلات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے، اس سے حکومت بخوبی واقف تھی، جنگ کا ماحول مہینوںپہلے سے بننا شروع ہوگیاتھا لیکن اس کے باوجود حکومت نے طلبا کو وہاں سے نکالنے میںسست روی کا مظاہرہ کیا۔ جنگ کے اس ایک ہفتہ کے دوران طلبا سمیت بہ مشکل دو ڈھائی ہزار ہندوستانی شہریوں کو اب تک ملک واپس لایا جاسکا ہے۔ لیکن حکومت اس معاملہ کی ایسی تشہیر کررہی ہے جیسے اس نے روس-یوکرین جنگ میں اپنی ہی فتح کے جھنڈے گاڑے ہوں۔ 90کی دہائی میں ہونے والی خلیجی جنگ کے دوران عراق اور کویت سے بھی تقریباً ایک لاکھ ہندوستانیوں کو بغیر کسی مالی بوجھ کے بحفاظت ہندوستان واپس لایاگیا تھا لیکن اس کا نہ تو کہیں کوئی ذکر سننے میںآیا اور نہ حکومت نے اس کے ڈنکے بجائے، انتخابی مہم میں اس پر تقریریں ہوئیں اورنہ ہی اس کا انتخابی اور سیاسی فائدہ اٹھایاگیا۔
اپنے شہریوں کی حفاظت ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔جنگ زدہ علاقوں سے اپنے شہریوں کو واپس لانا حکومت کا فرض ہوتا ہے، یہ حکومت کا کوئی احسان نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کارنامہ ہے جس کاذکر کے ووٹ مانگا جائے۔لیکن ’آپدامیں اوسر‘ تلاش کرنے والی حکومت نے اسے بھی ممکن بنادیا ہے۔خود وزیراعظم اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔حکومت کا یہ طرزعمل اخلاقیات کے کن اصولوں کی پاسداری ہے یہ تو وزیراعظم ہی بتاسکتے ہیں۔ وہ بھی ان حالات میں جب کہ روس نے ایٹمی جنگ کی دھمکی بھی دے دی اور ہمارے ہزاروں طلبا اور عام شہری یوکرین میں اب بھی پھنسے ہوئے ہوں۔ خدانخواستہ اگر جنگ نے طول اختیار کیا اوردنیا کی بڑی طاقتیں اور دیگر ممالک نے بھی اس میں کھل کر حصہ لیا تو یہ تیسری عالمی جنگ ہو سکتی ہے نیزجیسا کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے کہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ جوہری ہتھیاروں کی بنیاد پر لڑی جائے گی اور یہ بہت تباہ کن ہوگی۔
ان ہی سب خدشات کی وجہ سے یوکرین میں پھنسے ہوئے ہمارے طلبا اور عام شہری جنگ شروع ہونے سے قبل سے ہی خوفزدہ تھے اور حکومت سے روزانہ مدد کی درخواست کرتے ہوئے وہاں سے ویڈیو اور تصاویر بھیج رہے تھے، ہندوستان میں ان کے والدین حکومت سے مدد مانگ رہے تھے لیکن ہماری حکومت اپنی پوری کابینہ سمیت اترپردیش فتح کرنے کی مہم چلاتی رہی۔ جب یوکرین سے ہندوستانیوں کی واپسی کیلئے مہم شروع کی گئی تو اس کیلئے بھی اترپردیش انتخاب کو ہی ملحوظ نظر رکھا گیا اور اس ریسکیو مہم کا نام ’ آپریشن گنگا ‘رکھا گیا تاکہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔یوکرین سمیت آس پاس کے تمام ممالک میں ہندوستانی سفارت خانہ ہونے کے باوجود چار چار وزرا کو خصوصی طیارہ سے خصوصی سفیر بناکر بھیجاجانا بھی انتخابی ہی دائو کہا جائے گا اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان ممالک میں موجودہ ہمارے سفارت خانوںکا وجود ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور حالات بے قابو نظرآنے لگے تو فضائیہ کے C17 گلوب ماسٹر طیارہ کو بھی طلبا کی واپسی کیلئے استعمال کی ہری جھنڈی دی گئی اورہندوستانی شہری نوین کی جان گنوانے کے بعد تاخیر سے کیے گئے اس فیصلہ کو اپنی کامیابی بتایا جارہا ہے۔’آپدا میں اوسر‘ تلاش کرنے کا صرف یہی ایک ہنر ہے جس میں ہماری حکومت طاق کہی جائے گی ورنہ معیشت سے معاشرت، دفاع سے خارجہ تک ہر محاذ پر راوی سناٹاہی لکھ رہاہے۔
[email protected]
آپدا میں اَوسر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS