فیروز بخت احمد
19 فروری کی منحوس صبح کو فرشتۂ اجل کے جو بے رحم ہاتھ امام الہند مولانا آزاد کی طرف بڑھنے شروع ہوئے تھے وہ آخر کار 22فروری کی رات 2 بج کر 15منٹ پر 68, 69 گھنٹوں کی شدید کشمکش اور زبردست جدوجہد کے بعد اس صاحب دعوت و غزیمت اور پیکر ثبات و استقامت کی بلند بالا گردن تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے جس نے عمر بھر زندہ اور زندگی بخش قدروں کی آواز حق کو بلند کیا اوران کی حفاظت وصیانت میں اپنی حیات گراں مایہ کا ایک ایک لمحہ صرف کیا اور اس طرح تاریخ کا سنہرا ورق الٹ گیا۔ جس کی ساری آرائش و زیبائش محی الدین احمد ابو الکلام آزاد کی مرہون منت تھی۔
ابوالکلام آزاد کے جسد خاکی کو تاریخی جامع مسجد اور تاریخی لال قلعہ کے درمیان پریڈ کے میدان میں 3بج کر 10منٹ پر سپرد خاک کر دیا گیا۔ لاکھوں لوگ ان کی تدفین کے وقت موجود تھے۔ رات میں 2بج کر 15منٹ پر انتقال ہوا تھا اوراس وقت سے تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ صبح ہوتے ہوتے یہ مجمع بڑھتا گیا اور بے قابو ہوتا گیا۔ صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندرپرساد کوانتقال کے فوراً بعد ان کے سرجن نے یہ خبر پہنچائی۔ وزیراعظم نہرو جو انتقال سے تھوڑی ہی دیر قبل اپنی کوٹھی پرگئے تھے، اپنے دیرینہ رفیق کی رخصت کی خبر جانکاہ سن کر الٹے پاؤں واپس آئے۔
صبح کو جب صدر جمہوریہ ساڑھے 6بجے مولانا کی سرکاری قیام گاہ 4کننگ Edward روڈ پہنچے تو غسل دینے کا فرض ادا کیا جا رہا تھا۔ غسل کے بعد میت کو کھادی کے کفن میں لپیٹ کر بارہ پورٹیکو میں رکھ دیا گیا تاکہ لوگ آخری دیدار کرسکیں۔ بڑی تعداد میں حفاظ کوٹھی پر بیٹھے ہوئے تلاوت کلام پاک کر رہے تھے۔ اسی کلام پاک کی تلاوت کررہے تھے جس کی تفسیر مولانا نے لکھی تھی۔ سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے میت پر پھول چڑھائے۔ پون گھنٹہ تک وہ دم بخوبد ساکت بیٹھے رہے اور جب چلنے لگے تو کہا: ’’میرا 38برس کا پرانا ساتھی بچھڑ گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد جذبات سے اس قدر مغلوب ہوگئے کہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ اور ان کی آنکھوں سے آنسہ بہہ نکلے۔ ان کے اے ڈی سی نے انہیں سہارا دے کر کار میں بٹھایا۔ مولانا کی کوٹھی پرتقریباً دو لاکھ افراد آخری نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے آئے اور گئے۔ پنڈت نہرو کی آنکھیں سرخ تھیں۔ چہرہ تمتمایا ہوا تھا اور وہ جنازہ کے انتظامات میں مصروف تھے۔ وزیر دفاع مسٹر کرشنا مینن اپنی چھڑی کے سہارے مولانا کے پائنتیں کھڑے رہے۔ جب بابو پرشوتم داس ٹنڈن نے پھول چڑھائے تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مسٹر لال بہادر شاستری کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ کچھ بیچارے غریب ایسے بھی تھے جو پھول نہیں لاسکے تھے اور صرف ہری پتیاں لائے تھے۔ مرکزی وزراء، شہر کے دوسرے معززین اور باہر سے آنے والے وزیروں نے بھی پھول چڑھائے۔
سوابارہ بجے مجمع اس قدر بڑھ چکا تھا کہ پھاٹک بند کردینا پڑا۔ میت پر پھولوں کا بھاری انبار لگ گیا تھا۔ صبح کو خبر ملتے ہی سارا دارالحکومت رنج وغم کے سمندر میں ڈوب گیا۔دکانیں بند رہیں اور لوگوں نے اپنے رہنما کے سوگ میں کاروبار بند رکھا۔ تمام سرکاری عمارتوں میں قومی پرچم سرنگوں کر دیے گئے۔ تمام سرکاری دفاتر، اسکول اور کالج بھی بند رہے۔ پونے ایک بجے جنازہ مولانا کی سرکای قیام گاہ سے روانہ ہوا۔ میت کو ایک توپ گاڑی پر رکھ دیا گیا تھا۔ جنازہ کو کاندھا دینے والے یہ حضرات تھے۔ وزیر اعظم نہرو، مولانا مرحوم کے اکلوتے بھتیجے مسٹر نورالدین احمد اور دو بھانجے مسٹرباقر حسین اور مسٹرطاہر حسین، مسٹر طاہر مرزا، صدرکانگریس مسٹر دھیر، بخشی غلام محمد، ڈاکٹر سید محمد، مولانا حفظ الرحمن اور مولانا کے پرائیویٹ سکریٹری مسٹر اجمل خاں، نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشنن اور دوسرے مرکزی وزیر جنازہ کے جلوس کے ساتھ تھے۔ جنازہ کے آگے اور پیچھے فوجی چل رہے تھے۔ جلوس انڈیا گیٹ، بارڈنج ریونیو، فیض بازار ہوتا ہوا ڈھائی بجے پریڈ کے میدان میں پہنچا۔ اس وقت ہر طرف لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ اندازہ ہے کہ کوئی لاکھ آدمی اس موقع پر موجود تھے۔ چھتوں اور چھجوں پر ہزاروں لوگ کھڑے ہوئے تھے۔ پانچ فٹ گہری ایک قبر پہلے ہی کھودی گئی تھی اوراس کی دیواروں میں جے پوری ٹائلیں ملتانی مٹی سے جوڑی جا چکی تھیں، تینوں فوجوں کے بارہ سو جوانوں نے مرحوم رہنما کو سلامی دی اور فوجی بینڈ نے ماتمی دھن بجائی۔ صدر جمہوریہ تدفین سے ایک گھنٹہ پہلے پہنچ گئے۔ مولانا احمد سعید صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ شریک تھے پھر جنازہ کو قبر میں اتارا گیا۔ اس وقت بھاری ہجوم کا عالم دیکھنے والا تھا۔ لوگ انتہائی پریشان اور غمگین نظر آرہے تھے۔ ہر ایک کی آنکھ پرنم تھی۔ بہت سے لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ویسے بھی لوگ تھے جو دہاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ پنڈت نہرو نے گلپوشی کی اور چاروںطرف سے قبر پر پھولوں کی بارش ہونے لگی۔ مجمع اس قدر زبردست تھا کہ اسے قابو میں رکھنا ناممکن تھا۔ کئی آدمی اسی کشمکش میں بے ہوش ہوگئے جن میں پولیس والے بھی شامل تھے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے انتقال سے ہندوستان نے ایک چوٹی کے سیاست داں، ایک جادو بیان مقرر، ایک متبحر عالم، ایک بے مثال خطیب، ایک پکے اور مستقل مزاج قوم پرست اور مجاہدآزادی کو کھودیا، ایک بہترین مفسر قرآن سے محروم ہو گیا۔ کانگریس کا ایک اہم ستون گرگیا۔ ملک پر رنج و غم کے بادل چھا گئے۔ وزارت تعلیم یتیم ہوگئی جسے ایسا لائق وزیر پھر نہ مل سکے گا۔ ہندوستان نے ہندو مسلم اتحاد کا ایک بہت بڑا علمبردار کھو دیا۔ مولانا آزاد کے سانحہ ارتحال سے جو نقصان عظیم ہوا ہے مادر گیتی اس کی تلافی رہتی دنیا تک پوری نہیں کر سکے گی۔ بقول شخصے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا
[email protected]