14 برسوں کے طویل انتظار کے بعد بالآخر احمد آباد بم دھماکوں کے متاثرین کو انصاف مل ہی گیا۔ 2008 کے احمد آباد دھماکہ کیس کا فیصلہ ملک کی تاریخ کا پہلا فیصلہ ہے جس میں پہلی بار 38 مجرموں کو موت کی سزا اور 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔اس مقدمے کی تیزی سے سماعت کیلئے نامزد خصوصی عدالت نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) اور تعزیرات ہند کی دفعہ 302 کے تحت 49 میں سے 38 مجرموں کو موت کی سزا سنائی ہے۔فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی جج اے آر پاٹل نے مرنے والوں کے ورثا کو ایک لاکھ روپے، شدید زخمیوں کو 50 ہزار روپے اور عام زخمیوں کو 25 ہزار روپے کا معاوضہ اداکرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
آج سے چودہ برس قبل 26جولائی 2008کو احمد آباد میں سلسلہ وار دھماکے ہوئے تھے۔ شام کی سرمئی دھندلاہٹ میں احمدآباد کے20مختلف مقامات پردو گھنٹوں تک وقفہ وقفہ سے 21دھماکے ہوئے تھے جن میں 56 افراد ہلاک اور240افراد زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کادعویٰ تھا کہ اس دھماکہ میں مبینہ دہشت گرد تنظیم انڈین مجاہدین (آئی ایم) سے وابستہ افرادملوث تھے۔ آئی ایم کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی) کا ہی ایک گروہ ہے جس نے گجرات میں 2002میں ہوئے مسلم کش فسادات کی انتقامی کارروائی کے طور پر ان دھماکوں کی منصوبہ بندی کی تھی اور انہیں انجام دیا تھا۔ تفتیشی ایجنسیوں نے بڑی کدو کاوش اور محنت کے بعد 19دنوں میں30 ملزمین کو گرفتار کیا تھا،اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے گرفتاریاں ہوتی رہیں۔اس معاملہ کی تیز رو سماعت کیلئے خصوصی نامزد عدالت نے تمام 35 ایف آئی آر کو یکجا کرنے کے بعد انڈین مجاہدین سے جڑے 78 لوگوں کے خلاف دسمبر 2009 میں مقدمے کی سماعت شروع کی۔ ان 78ملزمین میں سے ایک کی موت ہوجانے کے بعد ملزمین کی تعداد کم ہو کر 77 ہو گئی تھی۔ اسی سال 8 فروری کو خصوصی عدالت نے اس معاملے میں 49 ملزمان کو مجرم قرار دیاتھا اور 28 دیگر کو بری کر دیا تھا۔ عدالت نے گزشتہ سال ستمبر میں اس مقدمے کی سماعت ختم کر دی تھی اور آج یہ مقدمہ باقاعدہ فیصل ہوکر نظام عدل و انصاف کاتاریخی فیصلہ قرارپایا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہندوستان جنت نشان میں اقلیتوں کے ساتھ رواداری کا معاملہ ختم ہوتاجارہاہے۔انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اقلیتی طبقہ کی اکثریت خود کو ہر لمحہ غیرمحفوظ محسوس کرتی ہے۔سال بہ سال ہونے والے فسادات اقلیتوں کی نسل کشی پر منتج ہورہے ہیں۔ گجرات میں 2002 میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے بارے میں بھی دنیا کی یہی رائے ہے۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ یہ منظم فساد ’ریاست ‘ کی سرپرستی میں کرائے گئے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف اس منظم فساد کی کوکھ سے انتقام اورفسادیوں کے خلاف منافرت کا جذبہ پیدا ہونا فطری ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی چاہے وہ کسی بھی طرح کی ہو، قابل مذمت اور انسانیت مخالف ایک ایسا قدم ہے جس کی کسی بھی حال میں کوئی مذہب اجازت نہیں دیتا ہے۔بے گناہوں کے خون کا انتقام لینے کیلئے اگر پھر بے گناہوں کے خون بہائے جانے لگیں تو دنیا میں نہ تو انصاف قائم ہوسکتا ہے اور نہ انسانیت ہی محفوظ رہ سکتی ہے۔انسانیت کی اس حفاظت کی خود اسلام نے باقاعدہ ضمانت دی ہے اور کسی کی بھی جان، مال اور آبروکے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو حرام قرار دے کر اس کا راستہ ہی بند کردیا ہے۔
جبروفساداورظلم و زیادتی کو بہانہ بنا کر انسانی خون بہانے کو کسی بھی حال میں جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ قتل اور خون ریزی ویسے بھی ایک بدترین جرم ہے۔اس فعل بد سے انسانوںکو فطری طور پر حاصل ہونے والے حقوق کی آخری درجہ میں خلاف ورزی ہوتی ہے۔پھر اسلحہ اٹھاکر راہ چلتے ہوئے انسانوں پر فائر کردینا، بم کے دھماکے کرکے انسانی جانوں کے خاتمہ کا سامان کرنا اورا سے انتقام کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرنابدترین جرم اور انسانی جان کو حاصل حرمت کی پامالی ہے۔ یہ ایسی دہشت گردی ہے جس کا پوری دنیا سے خاتمہ ہونا ضروری ہے۔
احمد آباد بم دھماکہ کیس میں بھی یہی معاملہ ہے کہ انتقام کے پردے میں ایک مخصوص کج رو ذہن کے گروہ نے جگہ جگہ بم دھماکے کیے جس کی وجہ سے56انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور سیکڑوں افراد کو زخم آئے۔یہ نہ صرف آئین اور قانون سے بغاوت ہے بلکہ انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو دیے گئے خدائی تحفظ کے خلاف ایسا اقدام ہے جس کی سزاجتنی بھی سخت ہو، کم ہے۔عدالت نے اس معاملہ میں تاخیر سے ہی سہی لیکن یہ فیصلہ سنایا ہے جو دہشت گردی کے خلاف تاریخی فیصلہ بھی ہے۔
[email protected]
احمد آباد بم دھماکہ کیس : تاریخی فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS